سوال (۱):… اذان قبر پر بعد دفن میت کے درست ہے یا نہیں۔ (۲) جواب نامہ کفن پر لکھنا اور قل کے ڈھیلے قبر میں رکھنا اس کا کیا حکم ہے۔ بنیوا توجروا۔
جواب (۱):… اذان قبر پر دینا مکروہ اور بدعت قبیحہ ہے۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین اور تبع تابعین اور مجتہدین رحمہم اللہ سے ثابت نہیں فرمایا رسول خدا نے جو دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے۔
((من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد کما رواہ البخاری وغیرہ کذا فی المشکوٰۃ))
اور فقہاء لکھتے ہیں کہ قبر کے نزدیک جو امر معہود سنت سے نہ ہو وہ مکروہ ہے۔
((یکرہ (؎۱) عند قبر ما لم یعھد من السنۃ والمعہود ھھنا لیس الا زیارۃ والدعاء عندہ قائما کذا فی فتح القدیر والبحر والنھر والعالمگیریۃ))
(؎۱) قبر کے پاس ہر وہ چیز مکروہ ہے جو سنت کے خلاف ہے۔
اور اصرار کرنا مکروہ پر گناہ ہے چنانچہ ملا علی قاری و طیبی وغیر نے لکھا ہے واللہ اعلم۔
(۲) جواب سوال دوم کا یہ ہے کہ کفن پر لکھنا جواب نامہ کا اور قل کے ڈھیلے قبر میں رکھنا درست نہیں بلکہ یہ دونوں کام بدعت ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب حررہ سید شریف الدین عفی عنہ۔ (سید محمد نذیر حسین)
… واضح ہو کہ بلند ہونا قبر کا ایک بالشت یا چار انگشت جوا ز میں داخل ہے اور اسی قدر پستی اس کی اور زیادہ ا س سے غیر جائز ہے چنانچہ کتب فقہ و احادیث سے واضح ہے۔
((وفی البحر الرائق ویسنم قدر شبر و قیل قدر اربع اصابع وما ورد فی الصحیح من حدیث علی رضی اللّٰہ عنہ لا تدع قبر امشرفا الا سویتہ فمحمول علی ما زاد علی التسنیم انتہی وفی النھر الفائق ویسنم ای یرفع فقیل قدر شبر و قیل قال اربع اصابع لروایۃ البخاری عن سفیان انہ رأی قبرہ علیہ الصّلوۃ والسّلام مسنما وجعلہ فی الظھریۃ وجوبا قدر تبر انتہی وکذا فی فتاویٰ العالمگیریۃ والزیلعی والعینی))
’’اور قبر کوہان نماز بنائی جائے۔ اور بقدر ایک بالش یا چار انگل کے برابر رکھی جائے۔ حضرت علی کی حدیث میں ہے کہ میں جس قبر کو بلند رکھوں گا۔ اس کو برابر کر دوں۔ برابر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ایک بالشت کے برابر کوہان نماز بنا دوں۔ اور خود نبی ﷺ کی اپنی قبر بھی کوہان نماز ہے جیسا کہ بخاری۔ ظہیریہ مجتبیٰ در مختار عالمگیری زیلعی عینی میں ہے۔ واللہ اعلم‘‘
پس اس سے معلوم ہوا کہ تسنیم مستحب ہے اور غیر تسنیم مستحب نہیں، واللہ اعلم بالصواب ۔
(حررہ السید شریف حسین عفی عنہ) (سید محمد نذیر حسین)
… واضح ہو کہ بلند ہونا قبر کا ایک بالشت یا چار انگشت جواز میں داخل ہے اور اسی قدر پستی اس کی اور زیادہ اس سے غیر جائز ہے چنانچہ کتب فقہ و احادیث سے واضح ہے۔
((فی بحر الرائق ویسنم قدر شبر وقیل قدر اربع اصابع وما ورد فی الصحیح من حدیث علی لا تدع قبرا مشرفا لا سویتہ فمحمول علی ما زاد علی التسنیم انتہی وفی النھر الفائق ای یسنم ای یرفع فقیل قدر اربع اصابع لروایۃ البخاری عن سفیان انہ رای قبرہ علیہ الصلوۃ والسلام مسنما وجعلہ فی الظھریۃ وجوباء وفی المجتبی مندوبا انتہی وفی الدار المختار ویسنم مندوبا و فی الظھریۃ وجوبا قدر شبر انتہی وکذا فی فتاویٰ العالمگیریۃ والزیلعی والعینی))
’’بحر الرائق میں ہے کہ قبر ایک بالشت یا چار انگل کوہان نما ہو صحیح بخاری میں جو حضرت علی کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس قبر کو بلند دیکھو، برابر کر دو، اس سے مراد وہ قبر ہے۔ جو ایک بالشت سے زائد ہو۔
ور النہر الفائق میں ہے، کہ کوہان نما ہو، یعنی بلند ہو بعض کہتے ہیں، چار انگل کے برابر ہو، کیونکہ بخاری میں حضرت سفیان سے ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی قبر کوہان نما تھی، ظہیریہ میں اسے واجب اور مجتبیٰ میں مندوب لکھا ہے، یہی در مختار میں ہے ظہیریہ میں بالشت کا وجوب لکھا ہے۔ اسی طرح عالمگیری، زیلعی اور عینی میں ہے۔‘‘
پس اس سے معلوم ہوا کہ تسنیم مستحب ہے اور غیر تسنیم مستحب نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب