سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

درج ذیل عبارت کا ترجمہ

  • 435
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 680

سوال

سوال: مھربانی کرکے مندرجہ ذیل عبارت کا ترجمہ بھی بیش کر دیجیے-جزاکم اللہ خیراً۔ "مجموع فتاوی، جلد۔٢٢ص -٥٠٦-

وَقَال شَيْخ الإسْلاَم أحْمَد بن تيمية رحمه اللّه‏:‏ فَصْل وعد التسبيح بالأصابع سنة كما قال النبي صلى الله عليه وسلم للنساء‏:‏ ‏"‏سبحن واعقدن بالأصابع فإ
جواب:
وعد التسبيح بالأصابع سنة كما قال النبي صلى الله عليه وسلم للنساء‏:‏ ‏"‏سبحن واعقدن بالأصابع فإنهن مسؤولات مستنطقات‏"‏‏.‏ وأما عده بالنوى والحصى ونحو ذلك، فحسن‏.‏ وكان من الصحابة رضي الله عنهم من يفعل ذلك، وقد رأى النبي صلى الله عليه وسلم أم المؤمنين تسبح بالحصى، وأقرها على ذلك، وروي أن أبا هريرة كان يسبح به‏.‏
وأما التسبيح بما يجعل في نظام من الخرز، ونحوه، فمن الناس من كرهه، ومنهم من لم يكرهه، وإذا أحسنت فيه النية، فهو حسن غير مكروه، وأما اتخاذه من غير حاجة، أو إظهاره للناس مثل تعليقة في العنق، أو جعله كالسوار في اليد، أو نحو ذلك فهذا إما رياء للناس، أو مظنة المراءاة ومشابهة المرائين من غير حاجة‏.‏ الأول محرم، والثاني أقل أحواله الكراهة؛ فإن مراءاة الناس في العبادات المختصة كالصلاة والصيام والذكر وقراءة القرآن من أعظم الذنوب۔"
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ انگلیوں پر تسبیح پڑھنا سنت ہے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے کہا تھا کہ اپنی انگلیوں پر تسبیح پڑھو کیونکہ ان انگلیوں سے بھی قیامت کے دن سوال ہو گا اور یہ کلام کریں گی۔ جہاں تک تسبیح کو گھٹلی یا کنکری وغیرہ پر پڑھنے کا تعلق ہے تو یہ بھی بہتر ہے کیونکہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے ایسا کرنا مروی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین کو کنکریوں پر تسبیح پڑھتے دیکھا تو اس سے روکا نہیں۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ بھی کنکریوں پر تسبیح پڑھتے تھے۔

جہاں تک اس تسبیح کا تعلق ہے جو ایک دھاگے میں پرو کر تیار ہوتی ہے تو بعض اہل علم اس کو مکروہ سمجھتے ہیں اور بعض مکروہ نہیں سمجھتے ہیں۔ پس اگر تیری نیت اچھی ہو ( مثلا ہر وقت اپنی زبان کو ذکر سے تر رکھنا وغیرہ کی عادت ڈالنا ) تو ایسا کرنا بہتر ہے اور اس میں کراہت نہیں ہے۔ اور اگر ایسا بغیر کسی وجہ کے کیا جائے یا لوگوں کو دکھلانے کے لیے ہو کہ اس تسبیح کو گردن میں لٹکا لے یا ہاتھ میں گنگن کی طرح لپیٹ لے وغیرہ تو یہ عمل یا تو ریاکاری کے سبب سے کیا جاتا ہے یا ریاکاری اور ریاکاروں سے مشابہت کی صورت ہے۔ پہلی صورت یعنی ریاکاری کے لیے تسبیح پکڑنا حرام ہے جبکہ دوسری صورت یعنی ریاکاری یا ریاکاروں کے عمل سے مشابہت کا کم تر درجہ بھی کراہت ہے۔ مخصوص عبادات مثلا نماز، روزہ، ذکر اور تلاوت قرآن وغیرہ میں دکھلاوا کرنا عظیم ترین گناہوں میں سے ہے۔

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ