سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(150) کیا قبر میں سوال و جواب کے وقت آنحضرت ﷺ کا وجود..الخ

  • 4340
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 4328

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا قبر میں سوال و جواب کے وقت آنحضرت ﷺ کا وجود مبارک میت کے سامنے ہوتا ہے۔ اس سوال کی تفصیل یہ ہے کہ قبر میں میت سے یہ سوال کیا جاتا ہے: ((مَا ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ)) ’’یہ شخص جو تم میں مبعوث ہوا ہے، وہ کیا ہے۔‘‘وہ جواب دیتی ہے محمد رسول اللہ ﷺ! یعنی محمد اللہ کا رسول ہے۔ یہ حدیث پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت محمد ﷺ مردہ کے سامنے لائے جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے۔ ((مَا ھٰذَا الرَّجُلُ الَّذِیْ بُعِثَ فِیْکُمْ)) کیوں کہ لفظ ہذا سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت وہاں موجود ہوتے ہیں، اور اگر اس لفظ کا کوئی دوسر معنی ہے تو وہ بیان فرما دیجئے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

لفظ ہذا اس مذکر موجود شئے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے موضوع ہے جو قریب ہو، عام اس سے کہ مذکر حقیقی ہو یا حکمی اور موجود خارجی ہو یا ذہنی۔ روایت مذکورہ فی السوال نیز دیگر روایات مختلفہ فی الباب کے مجموعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں۔اور پھر اشارہ کر کے کہا جاتا ہے۔ اگر بندہ مومن ہے تو تمام اوصاف سن کر جواب دے دے گا۔ عبد اللہ و رسولہ۔ پس لفظ ((ھٰذَا)) سے مراد نبی کریم ﷺ چہرہ مبارک مکشوف ہوتا ہے۔ اور مکشوف ہونے کے بعد کہا جاتا ہے۔ ((ما تقول فی ھذا الرجل)) مگر اس بارہ میں کوئی صریح روایت نہیں۔ ((فی ھذہ بشارۃ عظمی للمومنین وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز واللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم)) (۳۵/۸۔۲۹)

حدیث شریف میں ہذا کے ساتھ ((الّذی بُعِثَ)) بھی آیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے، رسول مبعوث سے سوال ہوت اہے یعنی جو شخص تم میں رسول کر کے بھیجا گیا تھا اس کو کیا کہتے ہو، ہذا کے ساتھ جب الذی آئے تو وہاں موجود مراد نہیں ہوتا مگر موصل معہ صلہ کی طرف کلام کا رخ ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں: ((اَمَّنْ ھذا الّذِیْ ھُوَ جُنْدُ لَّکُمْ)) اسی قسم سے ہے جن لوگوں نے کہا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شکل دکھائی جاتی ہے ان کا اپنا خیال ہے جس کے ذمہ دار وہی ہیں اس کا فیصلہ آپ فرمائیے۔ اے، ای، پٹیل (افریقہ)

جواب:… ہذا کی وضع محسوس مبصر کے لیے ہے، جو قریب ہو، یہ اس کا حقیقی معنی ہے۔ اس معنی کی بنا پر ترجیح اسی کو ہے کہ میت کے اور رسول الللہ ﷺ کے درمیان سے حجاب اٹھ جاتاہے اور میت کو آپ کا وجود مبارک قریب نظر آنے لگتا ہے۔ پھر ہذا کے ساتھ سوال ہوتا ہے، اور یہ کہنا کہ مکشوف ہونے پر کوئی دلیل نہیں یہ صحیح نہیں، کیوں کہ یہی ہذا کا لفظ ہے۔ جب اس کا حقیقی معنی یہی ہے تو مکشوف ماننا پڑے گا تاکہ حقیقی معنی بن سکے کیوںکہ حقیقی معنی مقدم ہے جب تک حقیقی معنی بن سکے مجازی نہیں لیا جا سکتا۔ اور یہ کہنا کہ جب ہذا کے ساتھ الذی ہو تو کلام کا رُخ موصول مع صلہ کی طرف ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی کلیہ قاعدہ نہیں، قرآن مجید میں ہے۔

{واذا راٰک الّذِیْنَ کَفَرُوْا اِن یَتَّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًاط اٰھٰذَ الَّذِیْ یَذْکُرْ اٰلِھٰتَکُمْ} (پ نمبر ۱۷ ع نمبر ۳)

’’اے محمد ! کفار جب تجھے دیکھتے ہیں تو مذاق سے کہتے ہیں کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کا (برائی سے ذکر کرتا ہے۔)‘‘

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سامنے ہیں، پھر الذی بھی ہے اس سے معلوم ہوا کہ موصول میں ضروری نہیں کہ کلام کا رُخ موصول مع صلہ کی طرف ہو، ہاں اگر کاخارجی دلیل سے ثابت ہو کہ شئی سامنے نہیں، تو اس صورت میں کلام کا رخ صلہ کی طرف ہو سکتا ہے۔ جیسے آیت کریمہ {اَمَّنْ ھٰذَ الَّذِیْ ھُوَ جُنْدُ لَّکُمْ} میں ایسا ہی ہے، چونکہ خدا کی ذات دنیا میں کسی کے سامنے نہیں اور نہ کوئی خدا کی ذات کو دنیا میں دیکھ سکتا ہے۔ چنانچہ موسی علیہ السلام کو خدا نے فرمایا: {لَنْ ترانی} (۹/۸)’’تو مجھے ہرگز نہ دیکھے گا۔‘‘ اس لیے اس آیت میں ہذا کا رخ موصول مع صلہ کی طرف ہے۔ اور حدیث ((ھٰذَ الَّذِیْ بُعِثَ)) میں رسول اللہ ﷺ کی رؤیت سے کوئی مانع نہیں۔ درمیان سے پردہ مکشوف ہو کررؤیت ہو سکتا ہے۔ پس اس میں کلام کا رخ موصول مع صلہ کی طرف نہیں ہو سکتا۔

اس کے علاوہ الذی بعث کے یہ معنی کرنے کہ جو تم میںرسول بنا کر بھیجا گیا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ جواب کی عبارت ہے وہ خدا کا رسول ہے۔ تو جواب فضول گیا اس لیے الذی بعث کے معنی (جو تم میں رسول بنا کر بھیجا گیا) لینے کی صورت میں یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ جو تم میں رسول بنا کر بھیجا گیا۔ کیا تم اس کو رسول مانتے ہو۔ مؤمن جاب دے گا۔ کہ وہ خدا کا رسول ہے۔ اور کافر کوئی جواب نہیں دے گا۔ اور یہ مطلب صحیح ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کیا کافر اس لیے جواب نہیں دے گا کہ اس کو جواب کا علم نہیں ہو گا۔ یا اس لیے جواب نہیں دے گا کہ وہ انکار پر اڑ جائے گا۔ پہلی صورت تو ٹھیک نہیں کیونکہ سوال سے اس کو علم ہو چکا ہے کہ وہ خدا کا رسول ہے۔ تو پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ جواب کا اس کو علم نہیں۔ اور دوسری صورت بھی ٹھیک نہیں کیونکہ عذاب کے وقت اڑی کہا۔نیز احادیث میں صاف آیا ہے کہ کافر کہے گا: ((ھَاہ ھَاہ لَا اَدْرِیْ)) ’’یعنی ہائے ہائے مجھے پتہ نہیں۔‘‘ یہ بے علمی کا اظہار بتا رہا ہے کہ پہلے معنی (جو تم میں رسول بنا کر بھیجا گیا) ٹھیک نہیں اگر کہا جائے کہ کشوف مراد لینا ٹھیک نہیں، کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے ان کے سامنے رسول اللہ ﷺ کا وجود کرناتو مفید ہو سکتا ہے، کیو ں کہ وہ پہنچا ن سکتے ہیں، جنہوں نے نہیں دیکھا ان کے سامنے آپ کو وجود کرنا کیا فائدہ، نیز جن کافروں نے آپ کو دیکھا ہوا ہے جییے ابو جہل وغیرہ تو وہ پہنچان کر کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا کا رسول ہے۔ ان کے ہاہ ہاہ لا ادری کہنے کا کیا معنی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے وجود مبارک کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ خدا کا رسول ہے۔ کیوںکہ احادیث میں آیا ہے کہ مومن جب کہے گا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ہیں تو منکر نکیر کہیں گے، تجھے کیسے معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، تو وہ جواب میں کہے گا کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی۔ پس ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی، یعنی اللہ کی کتاب میں جو ان کے اوصاف ہیں یا ان کا حلیہ بتایا گیا ہے اسے دیکھ کر مومن فراست ایمانی سے اندازہ کرے گا۔ کہ یہ وہی رسول ہیں جن پر ایمان لایا ہوں۔ رہے کفار جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے تو وہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شکل مبارک سے واقف بھی ہیں۔ آپ کی رسالت سے واقف نہیں کیوں کہ ان کو ایمان نہیں بالفرض وہ دنیا میں رسالت سے واقف بھی ہوں تو بھی ایمان نہ لانے کی وجہ سے ناواقفوں میں اٹھتے ہیں۔ پس ترجیح اسی کو ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکشوف ہو کر سامنے ہوتے ہیں۔

(عبد اللہ امر تسری روپڑی از روپڑ ضلع انبالہ)

محدث روپڑی کے فتویٰ پر، محدث سامرودی کا تعاقب

مولوی عبد الجلیل سامرودی نے اخبار محمدی دہلی اور ہل سنت والجماعت امر تسر میں محدث روپڑی کے فتویٰ پر تعاقب کیا جو حسب ذیل ہے۔

آپ نے اپنی تحقیق کا نتیجہ یہ ظاہر فرمایا کہ پس ترجیح اسی کو ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکشوف ہو کر سامنے ہوتے ہیں۔ تعجب ہے کہ موصوف ایک امر مرجوع کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اگر کتب احادیث کو کھول کر ملاحظہ فرماتے تو اس ترجیح کو مرجوع قرار دیتے، دیکھئے ((صحیح بخاریر باب المیت یسمع خفق النعال)) میں بروایت انس رضی اللہ عنہ ملاحظہ ہو۔

((بلفظ ما کنت تقول فی ھذا الرجل محمد ﷺ لفظ باب عذاب قبر (فی ھٰذا الرجل لمحمد ﷺ))

اسی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے ابن مردویہ نے بلفظ :

((فہ ھذٰا الرجل الذی کان بین ایدیکم الذی یقال لہٗ محمد کما فی شرح الصدور ص ۴۷ الدر المنثور ص ۸۱ ج۴))

مسند احمد میں حضرت اسماء رحمہ اللہ سے ص ۳۵۳ ج ۶ میں بلفظ:

((ما تقول فی ھٰذا الرجل قال ای رجل قال محمد))

نیز دیکھو شرح الصدور ص ۵۷ کتاب الروح ص ۷۴ الدر المنثور ص ۹۵ ج۴ طبرانی کبیر کے لفظ:

((فیقال لہ رجل یقال لہ محمد ما ھوا انتہیٰ))

دیکھو کنز العمال ص ۹۵ ج۸،ابن کثیر ص ۲۹۵ ج۵ میں بروایت ابن جریر ابو ہریرۃ سے اور ابن جریر ص ۱۴۳ ج ۱۳، مستدرک حاکم ص ۳۸۰ ج ۱ بلفظ:

((ارٔیت ھٰذا الرجل الذی کان فیکم ما تقول فیہ وما تشھد بہ علیہ فیقول آ محمد فیقال لہ نعم الخ لفظ مستدرک فیقول ای رجل فیقولون الرجل الذی کان فیکم قال فلا یھتدی فیقولون محمد الحدیث))

یہ روایتیں ببانگ دہل بتلا رہی ہیں کہ نبی ﷺ کا قبر میں مشکوف ہو کر سامنے ہونا کسی اجنبی کا مقولہ ہے۔ محدثین کا ہر گز اعتقاد نہیں، آپ کا بذات خود مکشوف ہو کر سامنے ہونا لغو محض ہے اگر کوئی نص نبوی سے جو بالتنصیص ثابت ہو کہ نبی ﷺ بذات خود مکشوف ہو کر سامنے ہوتے ہیں تو مع حوالہ کتاب ظاہر فرما دیں، واہ اس خیال شفیع سے رجوع فرمائیں۔

(ابو عبد الکبیر محمد عبد الجلیل السامرودی، محمدی دہلی ۱۵ دسمبر ۱۹۳۵ء واہل سنت والجماعت ۱۶ دسمبر ۱۹۳۵ئ)

محدث روپڑی کا جواب

مذہب اہل حدیث وہی ہے جو حدیث سے سمجھا جائے اور حدیث سے ترجیح اُسی کو ثابت ہوتی ہے جو ہم لکھ چکے ہیں، کیونکہ ہذا کا لفظ اس بارہ میں صاف ہے… مولوی عبد الجلیل کے پیش کردہ دلائل ہمارے مؤید ہیں۔ کیونکہ سب میں ہذا کا لفظ موجود ہے۔ صرف ایک میں نہیں۔ سووہ سوال کی الگ صورت ہے۔ ہماری بحث صرف اس سوال میں ہے جو ہذا کے ساتھ ہے۔ شاید مولوی عبد الجلیل نے خیال کیا ہو گا کہ قبر میں سوال سب سے ایک طرز پر ہوتا ہے اگر یہ خیال ہو تو ڈبل غلطی ہے کیونکہ احادیث میں سوال کی چار صورتیں آئی ہیں۔ ایک ہذا الرجل (معرفہ) کے ساتھ خواہ اس کے ساتھ آپ کا نام یا کوئی صفت ہو یا نہ ہو۔

دوم:    رجل (نکرہ) کے ساتھ اس میں نام صفت کا ہونا ضروری ہے۔ جیسے ((یقال لہ محمد ما ھو))

سوم:    من کے ساتھ جیسے ((مَنْ نَبِیُّکَ)) یا ((مَن الرَّسُوْلِ الَّذِیْ بُعِثَ اِلَیْکُمْ))

چہارم:   شہادت کے ساتھ جیسے ((مَا شھادتک)) ۔ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر جلد نمبر۵ ص ۲۹۵، ۲۹۶

آخر الذکر تین سوالوں سے توہماری بحث نہیں، کیو ں کہ ان میں سوال ہی ایسی طرز کے ساتھ ہے۔ جس کا کشف سے کوئی تعلق نہیں صرف پہلے سوال سے بحث ہے۔ اس میں کشف ہے یا نہیں۔ ظاہر یہی ہے کہ کشف ہوتا ہے، کیوںکہ لفظ ہذا اسی کو چاہتا ہے۔ اس سوال میں کس طرح کے الفاظ آئے، بعض سوال میں محمد کا لفظ ہے۔ چنانچہ مولوی عبد الجلیل کی پیش کردہ عبارات سے پہلی اور تیسری عبارت میں ہے۔ اور بعض میں نہیں۔ چنانچہ مولوی عبد الجلیل کی پیش کردہ عبارات سے دوسری اور چھٹی عبارت میں نہیں۔ چھٹی میں تو ظاہر ہے کیوں کہ اگر سوال میں لفظ محمد ہوتا تو میت ((آ مُحَمَّدٌ)) یا ((اَیُّ رَجُلٍ)) کے ساتھ سوال نہ کرتی اور دوسری عبارت فی ہذا لرجل لمحمد ہے۔ یعنی منکر نکیر ہذا الرجل سے محمد ﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پس لمحمد منکر نکیر کے سوال میں نہیں ۔ بلکہ منکر نکیر کے سوال میں ہذا لرجل کا مشار الیہ بتلایا گیا ہے۔ خواہ بتلانے والے رسول اللہ ﷺ ہوں یا کوئی راوی ہو۔ تفسیر ابن کثیر میں مومن کے سوال میں لکھا ہے ((ما تقول فی ھذا الرجل)) یعنی ((النبی ﷺ قال من قال محمد ﷺ)) ’’یعنی اس شخص کے حق میں تو کیا کہتاہے یعنی نبی ﷺ! مردہ کہتا ہے کون؟ فرشتہ کہتا ہے محمد ﷺ!‘‘

فاجر یا کافر کے سوال میں لکھا ہے:

((ما تقول فی ھذا لرجل قال اَیُّ رَجُلٍ قال محمد))

’’یعنی اس شخص کے حق میں تو کیا کہتا ہے تو مردہ کہتا ہے کون سا شخص، فرشتہ کہتا ہے محمد ﷺ!‘‘

ملاحظہ ہو ص ۲۹۶، ان مختلف الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک مکشوف کے سامنے ہوتا ہے تو بعض میتیں تو صرف چہرہ ہی دیکھ کر معلوم کر لیتی ہیں کہ یہ محمد ﷺ ہیں، اور بعض میتوں کو اس میں تردد رہتا ہے تو وہ ((آ محمد)) یا ((ای رجل)) کہہ کر سولا کرتی ہیں۔ یعنی کیا یہ محمد ہے، یا یہ کون سا آدمی ہے، فرشتے اس کے جواب میں نعم کہتے ہیں، یا محمد کہتے ہیں یعنی ہاں یہ محمد ﷺ ہیں۔ بہر صورت یہ تمام الفاظ ہمارے مؤید ہیں۔ کیونکہ ان میں ہذا کا لفظ ہے۔ اور میت کا ((آ محمد)) یا ((اَیُّ رجل)) کے ساتھ سوال کرنا یہ بھی ہمارا مؤید ہے۔ کیونکہ یہ پورا جملہ نہیں۔ اس کے آگے پیچھے عبارت مقدر ہے۔ زیادہ مناسب یہ ہے کہ ہذا مقدر ہو۔ کیوں کہ اس سے پہلے منکر نکیر کے سوا میں ہذا ہے۔ اس بان پر پہلے سوال کی عبارت اصل یوں ہوئی۔

 ((اھذا محمد یا محمد ھذا)) ’’یعنی کیا یہ محمد ہے؟ یا کیا محمد ہے یہ۔‘‘اور دوسرے سوال کی اصل عبارت یوں ہوئی: ((اَیُّ رَجَلٍ ھذا)) ’’یعنی یہ رجل کون سا ہے۔‘‘گویا ان سوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی میت کے سامنے ہوتا ہے اس کی طرف وہ اشارہ کر کے سوال کرتی ہیں۔ ناظرین خیال فرمائیں کہ جن دلائل کو مولوی عبد الجلیل ہمارے مقابلہ میں پیش کر رہے ہی، وہ دراصل ہمیں مفید ہیں۔ مگر مولوی عبد الجلیل غلط فہمی سے اُسے اہل حدیث کا مسلک نہیں سمجھتے۔ خدا یسی غلط فہمی سے بچائے۔ اور عبارات میں غورو فکر کی توفیق بخشے۔ آمین۔ (عبد اللہ امر تسری)

محدث سامرودی کا تعاقب

سوال:… علوی عبد الجلیل نے محدث روپڑی کے اس جواب پر حسب ذیل تعاقب کیا ہے۔

اگر وفات کے بعد مکشوف کا مسئلہ صحیح ہے۔ تو آن واحدمیں بے شمار سے سوال ہوتا ہے تو آپ کی ذات کو تو اس حاضری سے فرصت نہ ملتی ہو گی، بخاری وغیرہ میں ہے کہ ہر قل نے اپنے ترجمان سے کہا: ((اِنِّیْ سَائِلٌ ھَذَا عَنْ ھَذَا الرَّجُلِ)) آپ تو ہرقل کے پاس بھی مکشوف ہو گئے کیوںکہ ((ہذا الرجل)) حاضر کے لیے ہوتا ہے۔ ابن مردویہ والی حدیث میں موجود ہے۔

((ما کنت ما تقول فی ھذا الرجل الذی کان بین اظھرکم الذی یقال لہ محمد))

بلکہ حاکم ص ۳۸۰ ج۱ کی روایت:

((فیقال لہ مَا تقول فی ھذا الرجل الذی کان فیکم وما تشہد بہ علیہ فیقول ای رجل فیقولون الرجل الذی کان فیکم قال فلا یھتدی لہ قال فیقولون محمد))

لفظ حدیث ((ھذا الرجل)) یہ شخص کے بعد ہی کہا جاتا ہے۔ وہ جو تم میں تھے، وہ جنہیں محمد ﷺ کہا جاتا تھا۔ نیز دوسری میں ہے وہ جو تم میں تھے تیری گواہی ان کی بابت کیا ہے۔ پھر اس کا سوال کہ کون شخص؟ ملائکہ کا جواب وہ جو تم میں تھے۔ اتنا کہتے ہوئے بھی نہ سمجھا تو ملائکہ کہیں گے۔ محمد وہ محمد ہیں۔ کیا ان سوالات و جوابات میں صراحۃً ظاہر نہیں ہے۔ کہ حضور موجود نہیں ہوتے۔ آپ کے پاس صرف ہذا لفظ کے اور کوئی دلیل نہیں ہے۔ یہ مسلک اہل حدیث نہیں بلکہ کسی حنفی کا مذہب ہے۔ مثل عینی وغیرہ کے، چنانچہ فاصل قسطلانی نے لکھا ہے۔

((قیل یکشف للمیّت حتّٰی یر النبیّ ﷺ وھی بشریٰ عظمۃ للمؤمن ان صح ذلک ولا نطعم حدیثا مرویا فی ذلک والقائل بہ انما استند المجرد ان الاشارۃ لا تکون الا الحاضر لکن یحتمل ان تکون الاشارۃ لما فی الذھن فیکون مجازًا))

’’کہا گیا ہے کہ میت کے لیے پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتی ہے۔ اور اگر یہ صحیح حدیث اس بارہ میں معلوم نہیں اور جو اس کا قائل ہے اس کی دلیل صرف یہی ہے کہ اشارہ حاضر کے لی ہوتا ہے لیکن احتمال ہے کہ اشارہ حاضر فی الذہن کی طرف ہو پس یہ مجاز ہو گا۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی فتاویٰ ص ۱۴ سوال نمبر ۸ کے جواب میں فرماتے ہیں، سوال یہ ہے کہ:

((وھل یکشف لہ فی الحال حتّی یری النبی ﷺ ویقول لہ مَا تقول فی ھذا الرجل فاجاب بقولہ بعد ان اعاد السوال فقال وھو ھل یکشف لہ یر النبی ﷺ فالجواب ان ھذا لم یروفی حدیث صحیح وانما ادعاہ من لا یحتج بہ بغیر مستند الامن جہۃ قولہ فی ھذا الرجل وان الاشارۃ بلفظہ ھذا لا تکون الخ للحاضرو وھذا لا معنی لہ کانہ حاضر فی الذہن))

’’بہرحال یہ سوال کہ میت کے لیے پردہ کھولا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ نبی ﷺ کو دیکھ لیتی ہے۔ سو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحیح حدیث میں نہیں آیا۔ اس شخص نے بلا دلیل اس کا دعویٰ کیا ہے۔ جو حضت نہیں۔ دلیل صرف یہ پیش کی جاتی ہے۔ کہ ہذا کا اشارہ حاضر کے لیے ہوتا ہے۔ حالاں کہ حاضر کے ہونے سے کشف لازم نہیں آتا کیوں کہ رسول اللہ ﷺ ذہن میں حاضر ہیں۔‘‘

محدث روپڑی کا جواب

ہم نے تو بقول آپ کے صرف حدیث کے لفظ ہذا سے استدلال کیا ہے۔ تو آپ نے اس کے مقابلہ میں کیا پیش کیا ہے۔ صرف ابن مرودویہ یا حاکم کی روایت، حالاں کہ اس میں بھی یہی لفظ ہذا ہے۔ باقی لفظ مثلاً ((الذی کان بین اظہر کم الذی یقال لہٗ محمد)) ’’وہ جو تم میںتھے۔ وہ جنہیں محمد کہا جاتا ہے۔‘‘یہ تو کسی طرح ہمارے خلاف نہیں۔ چنانچہ آپ کے پہلے تعاقب کے جواب میں اوپر تفصیل ہو چکی ہے۔ لیکن دوسرے تعاقب میں آپ کا ان کو دہرانا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ضمیر غائب سے دھوکا لگا ہے۔ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ضمیر غائب اُسی کی طرف لوٹتی ہے۔ جو کلام کے وقت مخاطب کے سامنے نہ ہو، حالاں کہ یہ ڈبل غلطی ہے، اور یہ غلطی ایڈیٹر اہل سنت والجماعت کو لگی ہے۔ انہوں نے بھی ضمیر غائب ہی سے رسول اللہ ﷺ کا عدم حضور ثابت کیا ہے۔ اس غلطی کی تفصیل سنئے:

(۱)      ضمیرے کے لوٹانے میں کبھی لفظ کی رعایت (؎۱) ہوتی ہے، اور کبھی معنی کی۔ قرآن مجید میں ہے:

(؎۱)      رعایت خواہ لفظ کی ہو خواہ معنی کی، مرجع غائب ہی کہلائے گا، ضمیر غائب حاضر نہیں کہلائے گی، جیسا کہ ((مَنْ یَقُوْلُ)) میں ضمیر ((ھو))کا مرجع ((مَنْ)) ہے اور لفظ ((من)) کی رعایت ہے، جو لفظً واحد ہے۔ اور ((ھُمْ)) کا مرجع بھی ((مَنْ)) ہے۔ اور معنی ((مَنْ)) کی رعایت ہے۔ کیوں کہ وہ معنی جمع ہے۔ لیکن دونوں حالتوں میں ضمیر غائب ہی کہلائے گی۔ (سعیدی)

{وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبَالْیَومِ الْاٰخِرِ وَمَا ھم بِمُوْمِنِیْنَ}

’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لائے۔ا ور در حقیقت وہ ایمان والے نہیں۔‘‘

اس آیت میں ((مَنْ)) کا لفظ مفرد ہے۔ اور معنی اس کا جمع ہے۔ لفظ کی رعایت کریں۔تو اس کی طرف مفرد کی ضمیر لوٹے کی۔ اگر معنی کی رعایت کریں، تو جمع کی طرف لوٹے گی۔ چنانچہ اس آیت میں ((یَقُوْلُ)) کی ضمیر مفرد کی طرف رہی ہے۔ ((اَوردَ ھُمْ بِمُوْمِنِیْنَ)) جمع کی۔ اسی طرح قرآن مجید میں ہے۔ {کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ} ’’ہر نفس موت کے چکھنے والا ہے۔‘‘عربی میں چونکہ نفس کا لفظ مؤنث ہے۔ اس لیے اس کی طرف ضمیر مؤنث لوٹتی ہے۔ خواہ مراد اس سے مرد ہو یا عورت۔ ہمارے زبان میں اس کی مثال ’’ہستی‘‘ کا لفظ مراد اس سے خواہ مرد ہو، استعمال اس کا مؤنث ہی کی طرح ہوتا ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے۔ کہ اچھی ہستی ہے۔ اچھا ہستی نہیں کہا جاتا۔ اس طرح قرآن مجید میں ہے۔

{وَاَذَا وَأَوُکَ اِنْ یَتّخِذُوْنَکَ اِلَّا ھُزُوًا اھٰذَا الَّذِیْ یَذْکُرْ اَلِھَتَکُمْ}

’’اے محمدﷺ! کفار جب تمہیں دیکھتے ہیں، تو مذاق سے کہتے ہیں کیا یہ وہی شخص ہے جو تمہارے معبودوں کو (برائی سے ) ذکر کرتا ہے۔‘‘

اس آیت میں رسول اللہ ﷺ سامنے ہیں مگر ضمیر غائب لوٹ رہی ہے۔ گویا ((اَلَّذِیْ)) کے لفظ کی رعایت کی گئی ہے بلکہ ایسے مقام پر لفظ ((اَلَّذِیْ)) کی رعایت زیادہ فصیح ہے۔ چنانچہ قوائد عربیہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔

حالاں کہ متکلم سامنے ہوتا ہے، مگر ((اَلَّذِیْ)) کے لفظ کی رعایت کی گئی ہے۔ مولوی عبد الجلیل اور اہل سنت والجماعت دونوں بچارے ضمیر غائب کی اُلجھن میں پھنس کر راجح بات سے غائب ہو گئے۔ ((اَنَّا لِلّٰہِ)) علاوہ ازیں ان سے اور غلطیاں بھی ہوئی ہیں۔ نمبروارسنئے:

 

دسری غلطی:

مولوی عبد الجلیل نے بخاری وغیرہ کے حوالہ سے ہرقل کی حدیث کا یہ ٹکڑا نقل کیا ہے۔ ((اِنِِّیْ سَائِلٌ ھَذَا عَنْ ھَذا الرَّجُلِ)) اس عبارت میں پہلے ہذا سے ابو سفیان کی طرف اشارہ ہے۔ اور دوسرے سے رسول اللہ ﷺ کی طرف۔ یعنی ہر قل نے ابو سفیان کے ساتھیوں سے اپنے ترجمان کی معرفت کہا کہ میں ابو سفیان سے محمد ﷺ کا حال پوچھنا چاہتا ہوں۔ مولوی عبد الجلیل کا اس سے یہ مطلب ہے، کہ رسول اللہ ﷺ ہرقل کی مجلس میں نہ تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہذا کا استعمال میں سامنے ہونا شرط نہیں۔ لیکن مولوی عبد الجلیل نے یہاں ڈبل غلطی کی ہے کہ اُخروی معاملات پر قیاس کیا ہے۔ حالاں کہ آخرت کا معاملہ عموماً خرق عادت ہے۔ مثلاً قبر کا فراغ ہونا، یا تنگ ہونا، یا قبر کا میت سے باتیں کرنا، جنت اور دوزخ کی طرف سے کھڑکی کا کھلنا یا سانپ بچھو کا اس پر مسلط ہونا وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام سلسلہ خرق عادت کی قسم سے ہے۔ اس بنا پر رسول اللہ ﷺ کا مکشوف ہونا کوئی بعید امر نہیں۔ اور ظٓہر ہے کہ جب لفظ کا حقیقی معنی بن سکے تو مجازی جائز نہیں۔ اس بنا پر ضروری ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو قبر میں مکشوف مانا جائے۔ تا حقیقی معنی مراد ہو سکیں۔ برخلاف ہرقل کی حدیث کے کیوں کہ یہ دنیوی معاملہ ہے۔ اور دنیوی معاملہ میں خرق عادت کی صورت میں حقیق معنی متروک ہو سکتا ہے۔ جیسے عرب کہتے ہیں: ((رَأیْتُ اَسَدًا یَرْمِیْ)) ’’میں نے شیر کو دیکھا کہ وہ تیر اندازی کرتا ہے۔‘‘چونکہ شیر کا تیر اندازی کرنا خرق عادت ہے۔ اس لیے شیر کا حقیقی معنی چھوڑ کر اس سے بہادر آدمی مراد لیتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ہرقل کی حدیث میں ہذا لفظ کو سمجھ لینا چاہیے۔

کیوں کہ ہرقل کی حدیث میں بھی یہی صورت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہرقل کو خط لکھا، جس میں اس کو دعوت اسلام دی، اس نے خط پڑھ کر دریافت کیا کہ محمد کے رشتہ داروں سے یہاں کوئی موجود ہے۔ پتہ چلا کہ ابو سفیان اور ان کے ساتھی موجود ہیں۔ اس نے ان کو بلا کر ابو سفیان کو سامنے بٹھایا۔ اور ساتھیوں کو ابو سفیان کے پیچھے بٹھا کر مذکورہ بالا گفتگو شروع کر کے ابو سفیان سے رسول اللہ ﷺ کے حالات دریافت کیے۔ اس سارے واقعہ سے ظاہرہے کہ رسول اللہ ﷺ سامنے نہ تھے۔ اور مکشوف ماننا خرق عادت ہے۔ اس لیے مجازی معنی مراد ہو گا۔ غرض آخرت کے معاملہ میں خرق عادت ایسا ہی ہے۔ جیسے دنیوی معاملہ میں موافق عادت اور موافق عادت ہونے کی صورت میں حقیقی معنی مجازی پر مقدم ہے۔ جب حقیقی بن سکے تو مجازی جائز نہیں۔ پس قبر میں سوال کی حدیث میں مکشوف ماننا چاہیے تاکہ ہذا کا حقیقی معنی قائم رہے۔ ہاں اگر مجازی پر دلیل ہو جو حقیقی معنی مراد لینے سے مانع ہوتی تو اس صورت میں حقیقی معنی متروک ہو سکتا۔ جیسے آیت کریمہ {اَمَّنْ ھٰذَا الَّذِیْ ھُوَ جُنْدُلَّکُمْ} میں اُوپر گزر چکا ہے، اب کوئی وجہ نہیں۔

تیسری غلطی:

مولوی عبد الجلیل نے لکھا ہے، کہ ہرقل نے ترجمان سے کہا: ((اِنِّیْ سَائِلٌ ھٰذَا عَنْ ھٰذَا)) حالانکہ ہرقل نے اپنے ترجمان کی وساطت سے ابو سفیان کے ساتھیوں سے یہ کہا۔

چوتھی غلطی:

مولوی عبدالجلیل لکھتے ہیں: حافظ روپڑی نے وہی ہذا کی ٹانگ اڑا رکھی ہے۔ بات یہ ہے حلق سے بات کیسے اُترے۔ آپ لوگ اصول مخترعہ کے پابند رہ کر کلام نبوی کو اس پر موازنہ کرنا چاہتے ہیں۔ اصول مخترعہ سے مولوی عبد الجلیل کی مراد حقیقت مجاز کا مسئلہ ہے۔ حالاں کہ قسطلانی رحمہ اللہ نے آپ کی نقل کردہ عبارت کی تصریح کی ہے کہ حاضر فی الذہن کی طرف اشارہ مجاز ہے۔ اور کتب معتبرہ عربیہ میں ہذا کو اشارہ حسیہ کی قسم سے شمار کرنا اور ہذا کو قریب کے لیے اور ذاک اور ذالک کو بعید کے لیے۔ یا ذالک کو متوسط کے لیے اور ذالک کو بعید کے لیے کہنا اور جب ہذا کا استعمال معقول (حاضر فی الذہن) میں ہو تو اس وقت یہ کہنا کہ اس کو بمنزلہ محسوس کے قرا دے کر اس میں ہذا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ سب کچھ اسی خبر کی بنا پر ہے کہ حاضر فی الذہن ہذا کا حقیقی معنی نہیں۔ اور حاشیہ خضری شرع ابن عقیس کے ص ۵۹ میں ہے:

((اسم الاشارۃ ما وضع لمشار الیہ ای حسابا لا صبع ونحوہ فلا بدمن کونہ حاضراً محسوساً بالبصر فاستعملاا فی العقول والمحسوس بغیرہٖ مجازٌ))

’’یعنی اسم اشارہ وہ ہے جو مشار الیہ کے لیے موضوع ہو جس کی طرف انگشت وغیرہ سے حسی اشارہ ہو۔ پس ضروری ہے کہ وہ حاضر ہو اور بصر کے ساتھ وہ محسوس ہو۔ پس معقول میں یا محسوس میں اس کا استعمال جس کی طرف انگشت شہادت وغیرہ سے اشارہ نہ ہو سکے مجاز ہے۔‘‘

تاج العروس شرع قاموس ص ۴۳۳ جلد ۱۰ میں امام ابو الہیثم سے نقل کیا ہے: ((ذا اسم لکل مشازٍ الیہ معاین یراہ المتکلم المخاطب)) ’’ینعی ذا ہر مشار ایہ کا اسم ہے جس کا مشاہدہ ہوا اور متکلم محا اب اور اس کو دیکھتے ہیں۔‘‘گرض اس قسم کی تصریحات ائمہ عربی وغیرہ کی بہت ہیں۔ جن کا اصل یہی ہے کہ حاضر فی الذہن ہذا کا حقیقی معنی نہیں بلکہ مجازی معنی ہے۔ پس حقیقت مجاز کے مسئلہ کو اصول مخترعہ کہہ کر ہذا کے حقیقی مجازی معنی میں فرق نہ کرنا یہ ڈبل غلطی ہے۔ اگر الفاظ کے معنی میں حقیقت مجاز کا فرق نہ کیا جائے۔ تو سب معاملہ ہی درہم برہم ہو جائے۔ مثلاً آیت کریمہ: {نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَاِلٰہَ اٰبَائِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَاِسْمَاعِیْلَ وَاِسْحَاقَ} میں چچا کو بھی باپ کہا ہے۔ اس بنا پر کوئی کہے کہ آیت وراثت {وَلِاَ یَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِنْہُمَا السَّنْدُسْ} میںچچا بھی مراد ہے اگر باپ وغیرہ نہ ہو تو چچا اس کے قائم مقام ہو گا، تو کیا یہ صحیح ہے ہر گز نہیں کیونکہ کہ چچا حقیقۃً باپ نہیں بلکہ اس کو مجازا ً باپ کہا ہے۔ (؎۱) اس قسم کی بے شمار امژلہ ہیں جو مسئلہ حقیقت مجاز سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس کو اصول مخترعہ کہنا غلطی ہے۔

(؎۱)      اس آیت میں حقیقت اور مجاز دونوں جمع ہو گئیں، جیسا کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ہے کیوں کہ اسحاق علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے حقیقی باپ ہیں اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام مجازی باپ ہیں۔ (سعیدی)

پانچویں غلطی:

قسطلانی کی عبارت کو اس محل میں پیش کرنا غلطی ہے۔ کیوں کہ قسطلانی نے حاضر فی الذہن کا احتمال ذکر کر کے اس کو مجاز کہہ دیا ہے۔ گویا اس سے احتمال کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کیوں کہ حقیقت کے مقابلہ میں مجاز کا احتمال کمزور ہے۔ جس کا ارتکاب بلا دلیل درست نہیں پس یہ عبارت درحققیت ہماری مؤید ہے۔ مگر مولوی عبد الجلیل غلطی سے اپنی مؤید سمجھ رہے ہیں۔ اور اس سے معلوم ہوا کہ عینی رحمہ اللہ کا خیال اس مسئلہ میں راجح ہے۔ اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحقیق عموماً بڑی ہوتی ہے مگر بحکم ((لِکُلِّ جواد کبوۃ)) اس مسئلہ میں عینی رحمہ اللہ کی رائے کو ترجیح ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا کہ آپ حاضر فی الذہن ہیں۔ اس کی بابت عرض ہے کہ کیا یہ معنی حقیقی ہے یا مجازی۔ اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ مجازی ہے۔ پس عینی رحمہ اللہ کا خیال درست ہوا۔ پس ان پر کوئی چوٹ نہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا حاضر فی الذہن ہونا ان لوگوں کی نسبت تو درست ہو سکتا ہے۔ جنہوں نے آپ کو دیکھا ہے کیوں کہ ان کے ذہن میں آپ کی خاص شکل و صورت حاضر ہو سکتی ہے۔ لیکن جنہوں نے آپ کو دیکھا ہی نہیں۔ ان کے ذہن میں تو آپ کے صفات ہیں جو کلیات ہیں جن میں تعیین اور تشخص نہیں۔ تو پھر آپ بعینہ حاضر کس طرح ہوئے اور جب آپ بعینہٖ حاضر نہ ہوئے۔ اور صرف آپ کی صفات ہوئیں۔ جو کلیات ہیں تو ان کے نزدیک بھی حاضر فی الذہن ہذا کا حقیقی معنی نہ ہوا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ عینی رحمہ اللہ کا خیال درست ہے۔ اور اگر بالفرض مان لیا جائے کہ حاضر فی الذین ہذا کا حقیقی معنی ہے۔ تو حاضر فی الخارج بطریق اولیٰ ہذا کا حقیقی معنی ہو گا۔ پس اس صورت میں عینی رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر برابر ہوں گے۔ کیوں کہ لفظ جب دو معنوں کے درمیان مشترک ہو تو بغیر دلیل کے کسی کو نہیں لے سکتے۔ نہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا مذہب ثابت ہوا نہ عینی رحمہ اللہ کا۔ ہاں عینی رحمہ اللہ کے مذہب کو ایک اور طرح سے ترجیح ہو سکتی ہے۔ وہ یہ کہ حاضر فی الذہن کا ہذا کا حقیقی معنی ماننے کی صورت میں لازم آتا ہے کہ ہذا دو معنوں میں مشترک ہو اور اگر حاضر فی الذہن کو مجازی معنی قرار دیں تو اس صورت میں ہذا حقیقت مجاز ہو گا۔ اور عربیت کا یہ قاعدہ ہے۔ کہ جب ایک لفظ اشتراک اور حقیقت مجاز کے درمیان دائر ہو تو اس کو حقیقت مجاز بنانا چاہیے۔ کیونکہ اشتراک سے حقیقت مجاز کی کثرت ہے پس کثرت پر محمول ہو گا۔ اس بنا پر عینی رحمہ اللہ کے مذہب کو ترجیح ہوئی۔ اور رسول اللہ ﷺ کا مکشوف ہونا ہی غالب رہا۔

چھٹی غلطی:

مولوی عبد الجلیل نے ایک یہ اشکال پیدا کیا ہے کہ آن واحد میں بے شمار اموات سے سوال ہوتا ہے تو آپ کی ذات کو تو اسی حاضری سے فرصت نہیں ملتی ہو گی۔ مگر یہ اشکار مولوی عبد الجلیل کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ ہماری عبارت یہ ہے۔

رسول اللہ ﷺ اور میت کے درمیان سے حجاب اٹھ جاتا ہے۔ اور میت کو آپ کا وجود باوجود قریب نظر آنے لگتا ہے۔ پھر ہذا کے ساتھ سوال ہوتا ہے۔ اس عبارت میں قریب نظر آنے لگتا ہے۔ ایسا ہی ہے جیسے ذوالقرنین کے قصہ میں قرآن مجید میں مذکور ہے۔

{وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ} ’’یعنی ذوالقرنین نے سورج کو سمندر میں غروب ہوتے پایا۔‘‘اس پر مفسرین نے لکھا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ واقعہ میں سورج سمندر میں غروب ہوتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین کو اس طرح دکھائی دیا۔ ٹھیک اسی طرح ہماری عبارت ہے۔ اس میں یہ کہاں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فی الواقعہ ہر ایک قبر میں حاضر ہوتے ہیں۔ سچ ہے ((کم من عائب قولا صحیحاً)) ۔ ((وآفتہ من الفہم السقیم)) مثل مشہور ہے۔ ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے۔ مولوی عبد الجلیل اعتراض تو ہم پر کرتے ہیں۔ کہ ایڈیٹر تنظیم کی عادت قدیمہ ایسی ویسی ہے۔ مگر حقیقت امر ی ہے کہ بے سوچے سمجھے قلم برداشتہ ناپ شتاب لکھتے چلے جاتے ہیں۔ حالاں کہ مسائل کا معاملہ بڑی ذمہ داری کا ہے۔ قلم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے۔ خدا ہدایت دے اور سمجھ دے۔

ساتویں غلطی:

مولوی عبد الجلیل نے حافظ ابن حجر وغیرہ کی رائے لکھ کر کہا ہے کہ مولانا روپڑی نے جو طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ اہل حدیثوں کا ہر گز نہیں۔

ناظرین خیال فرمائیں کہ یہ کتنی بڑی ڈبل غلطی ہے۔ اہل حدیث کا طریق تو قرآن و حدیث اور اتباع السلف ہے۔ مولوی عبد الجلیل نے کون سی آیت و حدیث کی ہے۔ جو ہمارے خلاف ہے۔ یا کون سے اقوال سنداً پیش کیے ہیں جن سے ہم علیحدہ ہو گئے۔ مولوی عبد الجلیل کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں۔ محض بریلویوں کی ریس ہے۔ کہ یہ وہابی ہیں۔ ان کے نزدیک نہ جائو۔ حقیقت اس کی کچھ نہیں۔ مولوی عبد الجلیل صاحب آپ ی شان کے لائق نہیں، آئندہ احتیاط رکھیں۔ خداآپ کی حفاظت کرے۔ آمین۔

تنبیہ:

    مولوی محمد صاحب ایڈیٹر محمدی نے بھی اس محل میں چند باتیں لکھی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کی خدمت میں کچھ عرض کر دیں۔ مولوی محمد صاحب لکھتے ہیں۔ محترم مولانا حافظ صاحب! ذرا ایک بات تو بتلائیں:

 نمبر۱:            چودہ سو سال کے بعد کے آنے والے کے سامنے چودہ سو برس پہلے کا کوئی شخص جسے کبھی اس نے دیکھا نہ ہو کھڑا کر دیا جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ یہ کون ؟ تو کیا عقل کہتی ہے کہ وہ صحیح جواب دے سکے گا۔

نمبر۲:             یہ مان لینے سے کہ حضور ﷺ قبر میں لائے جاتے ہیں۔ آپ کی تشبیہ پیش کی جاتی ہے۔ سوال وجواب میں وہ لطافت ہی باقی نہیں رہتی، جو شریعت نے رکھی ہے۔ ذوق سلیم اس بات کو کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ جس کی تعلیم آپ دے رہے ہیں۔

نمبر۳:             جناب من صرف لفظ ہذا کو جو اس موقعہ پر مثل تشابہ کے ہے۔ لے کر صراحت کے جو ((مَنْ نَبِیُّکَ)) وغیرہ میں محکمات وغیرہ کے ہے چھوڑ دینا تو شاید آپ اتباع سلف میں داخل نہ کر سکیں۔

نمبر۴:             کیا جناز نے یہ بھی خیال کیا کہ بدعتی طبقہ کے ہاتھ میں جو پہلے ہی حضور کو ہر جگہ حاضر ناظر مانتے ہیں۔ آپ کیسا کچھ ہتھیار دے رہے ہیں۔

نمبر ۵:  کیا اس قسم کے الفاظ ایسے مسائل کا استخراج کے لیے کافی ہیں کہ قبرستان کے سلام کا خطاب مردوں کے حساس اور سننے والے مثل زندوں کے ہونے کے لیے بس ہے۔

نمبر۶:             کیا ((رَبِّی وَرَبُّکَ اللّٰہ)) کا خطاب چاند سے کرنا اس لیے بھی کوئی کمال قدرت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، اگر نہیں۔

نمبر ۷:  تو کیا جناب کے پاس قرآن و حدیث سے مذہب سلف سے کوئی ایسی دلیل ہے جس سے حضور ﷺ کا ہر گورے، کالے، مسلم، کافر، عربی، عجمی کی قبر میں پھیرے کرنا اور موجود ہونا ثابت ہوتا ہے۔

نمبر ۸:  لفظ ہذا اگر موجود شے کی طرف اشارہ کے لیے ہے۔ تو پھر اوصاف بیان کرنے کی چنداں ضرورت ہی نہ تھی۔ جو اتنا لمبا سوال ہو جائے۔

نمبر ۹:            لفظ ہذا ر اتنا اصرار کرنا اس کے لفظی معنی کی وجہ سے ہے کہ عقائد اسلام اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اور ضروریات دین کے فوت ہرنے پر بھی اس لفظ کو اس معنی سے نہ ہٹایا جائے۔ تو پھر اس سوال کے جواب میں لفظ ((ہُوَ)) پر بھی ایسا ہی اعتماد کیوں نہ کرتے۔ وہ تو غائب کی ضمیر ہے۔ پس مان لیجئے کہ حضورﷺ غائب ہو جاتے ہیں موجود نہیں ہوتے۔

نمبر ۱۰: آخریک ایک اور چیز سن لیجئے۔ وہ یہ ہے کہ یہاں لفظ ہذا معنی ذلک کے ہے۔ یعنی اسم اشارہ قریب کے لیے نہیں بعید کے لیے ہے۔ اور اسم اشارہ قریب کا بعید کے لیے اور بعید کا قریب کے لیے لغت عرب میں برابر مستعمل ہے۔ قرآن میں ہے۔ {ذَلِک الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ} اس کی تفسیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ((ذَلِکَ)) معنی میں ہذا کے ہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر محمدی ترجمہ ابن کثیر پارہ اول ص ۴۴۔ پس جیسے ((ذَالِکَ)) معنی میں ہذا کے آتا ہے۔ ویسے ہی ہذا معنی ((ذَالِکَ)) کے بھی مستعمل ہے۔ پس یہاں دوسری حدیثوں کی تشریح کے مطابق لفظ ہذا معنی میں ((ذَالِکَ)) کے ہے۔ چنانچہ تفسیر محمدی ترجمہ ابن کثیر کے اسی صفحہ میں ہے۔ یہ دونوں لفظ قائم مقام عربی زبان میںآتے رہتے ہیں۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو عبیدہ رحمہ اللہ سے بھی یہی نقل کیا ہے۔ عربی کی تفسیر کے لفظ بھی ملاحظہ ہوں :

((فستحملون کلا منھما مکان الاخر وھذا امعروف فی کلامھم وقد حکاہ البخاری من معمر المثنیٰ عن ابی عبیدۃ)) (جلد اول مصری ص ۶۷)

مولانا کا سارا مدار اس لفظ پر تھا اور یہ لفظ دور کے اشارہ کے لیے بھی آتا ے۔ اب وہ نیو ہی نہ رہی جس پر کشف کی یا شبیہ کی یا حاضری کی عمارت کھڑی کی جائے۔

نمبر ۱۱:           قرآن میں ہے۔ {ذَالِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ} تو کیا اس میں اللہ تعالیٰ کا وجود سامنے موجود تھا جس کی طرف اشارہ ہو۔

نمبر ۱۲: حاشیہ تہذیب میں صراحت ہے کہ لفظ ہذا سے اشارہ کبھی غیر موجود غیر محسوس غیر مشاہد کی طرف بھی ہوتا ہے۔ امید ہے کہ ان درجن بھر دلیلوں کے ہوتے ہوئے مکرمی حافظ صاحب مزید غور فرمائیں گے۔ والسلام۔

(محمد ۔ اخبار محمدی یکم مارچ ۳۶ھ)

جواب:…

نمبر۱:             چودہ سو برس کے بعد آنے والے کا پہچاننا اس کا حل ہم نے پہلے ہی حل کر دیا تھا کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا، وہ بھی آپ کے وجود کو دیکھ کر پہچان لیں گے۔ کہ یہ رسول اللہ ہیں۔ کیوں کہ احادیث میں آیا ہے کہ مومن جب کہے گا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔ تو وہ جواب میں کہیں گے تجھے کس طرح معلوم ہوا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں، تو وہ جواب دے گا کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی۔ پس ان پر ایمان لایا اور ان کی تصدیق کی۔یعنی اللہ کی کتاب میں جو ان کے اوصاف یا ان کا حلیہ بتایا گیا تھا۔ اُسے دیکھ کر مومن فراست ایمانی سے اندازہ کر لے گا۔ کہ یہ وہی رسول ہیں جن پر میں ایمان لایا ہوں۔ (تنظیم ۲۲ نومبر ۳۵ئ)

          ہاں بعض میتوں کو اس میں تردد رہتا ہے تو وہ ((آ مُحَمَّدٌ)) یا ((اَیُّ رَجُلٍ)) کہہ کر سوال کرتی ہیں، چنانچہ ابھی اوپر ابن مردویہ وغیرہ کی حدیث میں اس کی تفصیل ہوئی ہے۔

نمبر۲:             حضور ﷺ قبر میں نہیں لائے جاتے بلکہ درمیان سے پردہ اُٹھایا جاتا ہے۔ جس سے آپ میت کے سامنے ہوتے ہیں۔

نمبر۳:             اس سے پہلے تفصیل ہو چکی ہے کہ سوال کی چار صورتیں ہیں۔ ایک ((ھذَا الرجل)) (معرفہ کے ساتھ) خواہ اس کے ساتھ آپ کا نام یا کوئی صفت ہویا نہ۔ دوم : رجل نکرہ کے ساتھ۔ اس میں نام یا صفت کا اندازہ ہونا ضروری ہے۔ جیسے ((رجل یقال لہ محمد مَا ھُوَ)) سوم: ((مَنْ)) کے ساتھ جیسے ((مَنْ نَبِیُّکَ)) یا ((من الرسول الذی بعث الیکم))، چہارم: شہادت کے ساتھ جیسے ((مَا شَھَادَتُکَ)) تفسیر اب کثیر ص ۲۹۵، ۲۹۶ جلد ۵، یہ چار صورتیں الگ الگ ہیں۔

          اگر میں ان میںسے ((مَنْ نَبِیُّکَ)) وغیرہ محکمات سے ہو تو اس سے یہ کس طرح ثابت ہوا کہ ہذا کی صور ت میں کشف نہیں، پھر ہذا کو تشابہ کہنا بھی ٹھیک نہیں، کیوں کہ تشابہ وہ ہے جس کے معنی میں اشتباہ ہو اور اس کی تعیین نہ ہو۔ اور ہذا کا معنی معلوم ہے۔ اس میں کوئی اشتباہ نہیں چانچہ اوپر تفصیل ہو چکی ہے۔

نمبر۴:             اس کا جواب نمبر۲ می آ گیا کہ آپ قبر میں نہیں لائے جاتے۔ پس ہم نے بدعتیوں کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار نہیں دیا۔ آپ کو مولوی عبد الجلیل کی طرح غلطی لگی ہے ورنہ ہماری کلام کا مطلب واضح ہے چنانچہ مولوی عبد الجلیل کے اغلاط نمبر ۶ میں تفصیل ہو چکی ہے۔

نمبر۵،۶: ہمارا مردوں کو، چاند کو خطاب کرنا دنیوی معاملہ ہے۔ اور فرشتوں کا ہذا کے ساتھ میت سے سوال کرنا اُخری معاملہ ہے۔ اس لیے اس کا قیاس مردوں کے یا چاند کے خطاب پر صحیح نہیں۔ چنانچہ مولوی عبد الجلیل کے اغلاط نمبر۲ میں اسکی تفصیل ہو چکی۔

نمبر۷:   قبر میں رسول اللہ ﷺ کے پھیرنے کے ہم قائل نہیں، چنانچہ ابھی نمبر ۴ میں گزرا ہے۔

نمبر۸:   بعض میتوں کو آپ کے چہرہ مبارک پر نظر پڑنے سے کچھ تردد رہتا ہے۔ تو ان کے لیے اوصاف کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ ابن مردویہ وغیرہ کی حدیث کے ذیل میں بیان ہو چکا ہے۔

نمبر۹، ۱۰:        ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ ہذا کا معنی لینے میں کون سے عقائد اسلام اور اجماع صحابہ رضی اللہ عنہ اور ضروریات دین فوت ہوتے ہیں۔ اور ضمیر غائب سے غائب سمجھنا یہ مولوی عبد الجلیل کی طرح آپ کی ڈبل غلطی ہے۔ چنانچہ اوپر گذر چکا ہے اسی طرح اشارہ بعید کے بعد ہونے سے غائب سمجھنا ڈبل غلطی ہے۔ دیکھئے آفتاب کتنی دور ہے مگر دن کو سامنے ہے غائب نہیں پھر ہذا کو ذلک کے معنی میں لینا مجاز ہے۔ اس کے لیے آپ نے اس جگہ کوئی قرینہ بیان نہیں کیا۔ اگرچہ ہمارا خیال نہیں، کہ رسول اللہ ﷺ واقعہ میں قریب ہوتے ہیں،ہاں یہ خیال ہے کہ میت کو قریب معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہذا کو ((ذَالِکَ)) کے معنی میں لینے پر کوئی قرینہ ہو تو ہم بعید کے قائل ہو جائیں گے۔ مگر اس سے غیب کا ثبوت کس طرح نہیں ہوتا۔

نمبر۱۱:            ((ذَالِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ)) کا جواب وہی ہے جو ((اَمَّنْ ھَذَا الَّذِیْ ھُوَ جُنْدُ لَّکُمْ)) کا ہے۔ جس کا بیان اوپر ہو چکا ہے۔

نمبر۱۲:  تہذیب کے حاشیہ میں جو کچھ لکھا ہے وہ مجازی معنی ہے۔ جس کے لیے قرینہ کی ضرورت ہے۔ حدیث میت میں کوئی قرینہ پھر بلا قرینہ کیوں کر مراد ہو سکتا ہے۔ پس درجن بھر دلیلیں نام ہی کی ہیں، کام کی نہیں۔والسلام

(عبد اللہ امر تسری روپڑی) (فتاویی اہل حدیث جلد نمبر ۲، ص ۴۷۴ تا ۴۹۰)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 259-274

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ