چوہدری صاحب فوت ہو گئے ہیں۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کو ایسی جگہ دفن کیا گیا ہے کہ وہ جگہ قبرستان سے علیحدہ ہے، بلکہ ان کے مہمان خانہ کے پاس ایک کونہ میں جگہ ہے۔ صندوق میں بند کر کے ان کو دفن کیا گیا ہے۔ اب ہمارا ارادہ ہے کہ مرحوم کو اس جگہ سے نکال کر مسجد کے قریب دفن کریں تاکہ وہاں ہر نمازی مرحوم کے لیے دعائے مغفرت کرے۔ کیا یہ شرعاً جائز ہے اگر جائز ہے تو کیا جب صندوق نکالیں تو میت کو دوبارہ غسل دیں یا اسی طرح بند کا بند دوسری جگہ میں دفن کریں؟
بہتر تو یہی ہے کہ جس طر ح مرحولم سپرد خاک ہو گئے ہیں اسی طرح رہنے دیں جن کو مرحوم کے ساتھ ہمدردی ہے ان کی دعائیں دور سے بھی پہنچیں گی۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں جہاں کوئی ہو اُس کا درود مجھ تک پہنچتا ہے۔ دعا اور درود کا ایک ہی حکم ہے۔ ہاں اگر نکال کر دوسری جگہ دفن کر دئیے جائیں تو گنجائش ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبد اللہ رضی اللہ عنہ جنگ اُحد میں شہید ہوگئے اور ایک دوسرے شخص کے ساتھ دفن کئے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد نکال کر دوسری جگہ دفن کر دیے گئے اُن کی لاش اُسی طرح صحیح و سالم تھی۔ صرف کان میں ذرا سا اثر تھا۔ یہ حدیث بخاری شریف کتاب الجنائز میں ہے۔ اس سے گنجائش ملتی ہے کہ میت دوسری جگہ دفن کر دی جائے، مگر ایک خطرہ ہے کہ کہیں میت پھٹ نہ گئی ہو۔
صندوق میں دفن کرنے کا رواج ٹھیک نہیں۔ مسنون طریقہ خیر قرون میں براہ راست مٹی میں دفن کرنے کا تھا،خیر ہو چکا سو ہو چکا، آئندہ محتاط رہنا چاہیے۔ غسل، کفن، جنازہ کی دوبارہ ضرورت نہیں۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی روایت میں دوبارہ کفن وغیرہ کا ذکر نہیں۔ ہاں اگر کفن مٹی نے کھا لیا ہو تو پھر دوبارہ ضروری ہے غسل جنازہ ضروری نہیں اگر کوئی غسل دے دے تو منع بھی نہیں، اسی طرح جنازہ کا حکم ہے۔
(عبد اللہ امرتسری روپڑ) (فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر۲ ص ۴۶۸)