سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(143) قبروں پر پھول چڑھانے کی رسم قبیح کے بارے میں

  • 4333
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1195

سوال

(143) قبروں پر پھول چڑھانے کی رسم قبیح کے بارے میں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبروں پر پھول چڑھانے کی رسم قبیح کے بارے میں


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مخدومنا حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب گوجرانوالہ کے رساہ ’’زیارت قبور‘‘ میں ہے۔

ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ حضرات کی ذہنی کیفیت عجیب ہے، جو چیز یورپ سے آئے اُسے تو آنکھیں بند کرکے مان لیتے ہیں اور اسلام کے مسائل سامنے آجائیں تو سر تا پا بحث بن جاتے ہیں۔ یورپ میں رواج ہے کہ قبروں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ ان حضرات میں دینی شعور تو کم ہے مگر یہ حضرت اہل مغرب کی تقلید بغیر سوچے سمجھے کر رہے ہیں، جہاں جائو پھول چڑھ رہے ہیں۔ حالاں کہ معلوم ہے کہ اس سے میت کو کوئی فائدہ نہیں۔ جیسے چراغ کی روشنی سے میت کو روشنی نہیں مل سکتی۔ پھول کی خوشبو سے میت کو کوئی فائدہ نہیں۔ لیکن یہ رسم یورپ سے آئی ہے، اس لیے بابو لوگ اس پر ضرور عمل کریں گے۔ عقل ودانش کا تقاضا ہے کہ ان رسوم کو جذبات سے بالا ہو کر دانش مندی سے ان پر غور کیا جائے ۔اب بڑھتے بڑھتے یہ رسم یہاں تک عام ہو گئی ہے۔ کہ بادشاہوں اور وزراء کے درودوں میں مرنے والوں کی قبروں پر پھول چڑھنا خیر سگالی کا ایک جز قرار دیا گیا ہے۔ اب یہ رسم ان حلقوں میہں خاص دنیا داری بن چکی ہے۔ لیکن خانقاہی حلقوں میں اسے دین او رشریعت سمجھا جاتا ہے۔ (رسالہ زیارت قبور ص ۱۲۴)

اس پر میں نے حضر ت کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا کہ : بریلوی حضرات بزرگوں کی قبروں پر پھول چڑھانے کے لیے اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ جس میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دفعہ قبروں پر سبز ٹہنیاں رکھی تھی اور فرمایا تھا کہ ان کے خشک ہونے تک ان کے عذاب میں تحفیف رہے گی ذیل کا مکتوب گرامی اسی کے جواب میں ہے جس پر ۳،۲، ۱۹۶۱ء کی تاریخ درج ہے۔ محمد عصمت اللہ لاہور۔

محترم مکرم زاد مجدکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

مکتوب گرامی ملا۔ آپ نے ایک دینی معاملہ میں یاد رفرمایا۔ اس کے لیے شکریہ قبول فرمائیں۔ اصل مسئلہ کے متعلق گذارش ہے کہ قبور کے متعلق قطعی صحیح علم وحی سے ہو سکتا ہے اور یہ پیغمبر ﷺ کی خصوصیت سے ہے، اس کے علاوہ جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں یا تک بندی ہے یا دکانداری۔ اس لیے اس کا علاج بھی پیغمبر ﷺ ہی کا کام ہے۔ ہمارا اور آپ کا کام نہیں اپنے بزرگوں کے متعلق یوں ہی فیصلہ کر لینا کہ وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے ذہن نہیں (۲) یہ علاج آنحضرت کا معجزہ ہے نہ تو ا سکی ہر ایک کو اجازت دی جا سکتی ہے نہ پیغمبر کے سوا کسی کو معجزات عطاء کیے جاتے ہیں۔ اس لیے جو بھی اس قسم کا دعویٰ کرے اس کا دعویٰ صحیح نہیں ہو گا۔ (۳) معجزات پر قیاس کرنا شرعاً درست نہیں کیوں کہ معجزات انسانی عقل و فکر سے بالا ہوتے ہیں جس کی وجہ ہمیں خود بھی معلوم نہیں۔ اس پر ہم دوسری چیز کو کیسے قیاس کر سکتے ہیں؟ (۴) آنحضت ﷺ سے ی عمل ساری عمر میں ایک دفعہ ثابت ہوا ہے دوبارہ کسی جگہ آنحضرت ﷺ نے اس پر عمل نہیں فرمایا۔ اگر یہ عمل قیاسی اور عام طور پر مفید ہوتا تو آنحضرت ﷺ رحمۃ للعالمین تھے مگر آپ سے یہ حکم دوسری دفعہ ثابت نہیں ہوا۔ پس آنحضرت کے عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ ان دو قبروں کے لیے تھا۔ عام نہیں، ورنہ یہ عمل اُمت میں بطور سنت جاری رہتا۔

(۵) معجزات کو امت نے کبھی بھی سنت یا استحباب کا مرتبہ نہیں دیا۔صحیح مسلم میں ہے ایک دفعہ کھانا کم تھا، اور کھانے والے زیادہ، آنحضرت ﷺ نے کھانے میں لب مبارک ڈالا۔ اللہ تعالیٰ نے برکت فرمائی۔ مگر صحابہ نے اسے وہیں تک محدود رکھا۔ آٹے اور ہانڈی میں تھوکنا سنت نہیں سمجھا۔ آنحضرت ﷺ نے انگشت سے چاند کے دو ٹکڑے فرمائے لیکن اُمت نے اسے بطور ثواب کبھی نہیں کیا کہ رات کو انگشت سے چاند کو اشارہ کریں۔ حدیبیہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت ﷺ کے تھوک کو منہ اور ہاتھوں پر ملا۔ مگر یہ آنحضرت ﷺ کی خصوصیت تھی۔ آج ہمارے یہ بریلوی دوست کسی فقیر یا عالم کا تھوک منہ پر نہیں ملتے۔ پس تمام معجزات کا یہی حال ہے، وہ پیغمبر ﷺ کی خصوصیت ہوتے ہیں۔ اُمت کے لیے سنت نہیں ہوتے نہ ان پر قیاس کیا جاتا ہے۔ وہ وہیں تک محدود ہوتے ہیں جہاں تک شریعت نے انہیں محدود رکھا۔ آپ اس پر غور فرمائیں۔ آنحضرت ﷺ کا صرف ایک دفہ عمل صحاہب اور تابعین کا پورا دور اس سے خالی ہے۔ اُمت نے پورے تیرہ سو سال اس پر عمل نہیں کیا یہ عمل چودہویں صدی میں شروع ہوا جب کہ یورپ نے پھول چڑھانا شروع کیا۔ اگر کسی نے اس پر عمل کرنا ہو تو انگریز کی سنت سمجھ کر کرے۔ حدیث سے استدلال مخمل پر ٹاٹ کے پیوند کی طرح ہو گا۔

اُمید ہے کہ یہ مختصر گذارش مسئلہ سمجھنے کے لیے کافی ہو گی۔ اگر مزید وضاحت کی ضرورت ہو تو بلا تکلف فرمائے۔ (۶) اگر یہ قیاسی مسئلہ ہو اور بریلوی ذہن سے اسے سمجھا جائے تو جن قبرستانوں میں سایہ دار درخت ہیں پھلواڑیاں لگی ہوئی ہیں ان کو عذاب قبر نہیں ہونا چاہیے نہ ٹہنیاں خشک ہوں اور نہ ان کو عذاب، ویسے بھی عذاب صرف خزاں میں ہو، موسم بہار میںتو ہر قبرستان میں سبزی ہو جاتی ہے۔ اس لیے عذاب کے فرشتے بالکل فارغ رہنے چاہیئیں، گویا خدا تعالیٰ کا سار کارخانہ سزا اور جزا چند درختوں اور پھلوں نے روک دیا یہ نظریہ کس قدر مضحکہ خیز ہو گا۔

 والسلام محمد اسمٰعیل چاہ شاہاں گوجرانوالہ (الاعتصام جلد نمبر ۲۱ ش نمبر ۸)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 252-254

محدث فتویٰ

تبصرے