قبر میں جو سوال و جواب ہوتا ہے، وہ حضرت پیرو مرشد کی دستحط و مہر ہر کر عنایت ہووے۔
قبر میں مومن کامل جو جواب دیتا ہے، وہ موافق احادیث کے لکھا جاتا ہے۔ مہر کی ضرورت نہیں۔ اور یہ جواب وودِ زبان کرنا چاہیے اور پارچہ پاک پر خوشبو لکھوا کر اپنے پاس رکھنا چاہیے وہ جواب یہ ہے:
((اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَّ بِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیَّنَا وَّرَسُوْلًا وَبِالْقُرْاٰنِ اِمَامًا وَّبِالْکَعْبَۃِ قِبْلَۃً وَّبِالْمُؤَمِنِیْنَ اِخْوَانًا وَّبِالصِّدِیْقَ وَبِالْفَارُوْقِ وَبِذِی النَّوْرَیْنَ وَبِالْمُرْتَضٰی آئِمَّۃً رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْھِمْ مَرْحَبَا بِالْمَلْکَیْنِ الشَّاھِدَیْنِ الْحَاضِرَیْنَ وَاَشْھَدُ بِانَّا لَشُھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ عَلٰی ھٰذِہٖ الشَّھَادَۃِ تَحْبِیٰ وَعَلَیْھَا نَمُوْتُ وَعَلَیْھَا نُبْعَثُ اِنْ شَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی))
’’یعنی گواہی دیتا ہوں یہ کہ نہیں کوئی معبود قابل بندگی کے سوا اللہ کے اور گواہی دیتا ہوں یہ کہ محمد ﷺ بندے اللہ کے ہیں اور پیغمبر اللہ کے ہیں راضی ہوں میں اللہ سے ازروئے رب ہونے کے اور اسلام سے ازروئے دین ہونے کے اور راضی ہوں میں محمد ﷺ سے ازروئے نبی ہونے کے اور رسول ہونے کے اور راضی ہوں قرآن سے ازروئے مقتدا ہونے کے اور کعبہ سے ازروزئے قبلہ ہونے اور راضی ہوں میں مسلمانوں سے ازروئے بھائی ہونے کے اور راضی ہوں میں حضرت صدیق اور حضرت فاروق اور حضرت ذی النورین عثمان اور حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہم سے ازروئے امام ہونے کے ان حضرات کی شان میں اللہ تعالیٰ کے رضا مندی رہی اور خوشی ہے دو فرشتوں کے آنے سے کہ گواہ ہیں اور موجود ہیں اور اے تم دو فرشتو گواہ رہو اس پر کہ ہم گواہی دیتے ہیں یہ کہ نہیں ہے کوئی معبود قابل پرستش کے سوا اللہ کے اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اسی شہادت پر ہم زندہ رہے اور اسی پر ہم مریں گے۔ اور اسی پر قیامت میں اٹھائے جاویں گے اگر چاہا اللہ تعالیٰ نے۔‘‘(فتاویٰ عزیزی جلد نمبر ۱ ص ۴۲۰)