نماز جنازہ سے فارغ ہو کر میت کے لیے دعا کرنی ثابت ہے یا نہیں؟
کسی مرفوع روایت یا صحابی کے قول و فول سے نماز جنازہ سے سلام پھیر کر میت کے لیے دعا کرنی ثابت نہیں اس لیے یہ بلاشبہ بدعت ہے۔
(محدث دہلی جلد نمبر ۹ ش نمبر ۸) (مفتی مدرسہ رحمانیہ دہلی)
حضرت مولنا ابو الاعلیٰ مودودی ایک مخصوص مکتب فکر کے موجد اور ہند اور پاکستان کی مشہور شخصیت ہیں۔ جب قید و بند سے آزاد ہوتے ہیں۔ تو مسجد میں درس حدیث بھی دیتے ہیں۔ آپ نے اسی درس میں حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو نجاشی کے مرنے کی خبر اسی روز دی جس روز اس کا انتقال ہوا تھا،الخ کے تحت فرمایا کہ
اس روایت سے پہلا مسئلہ نماز جنازہ غائبانہ کا پیدا ہوتا ہے۔ حضور نے تین مواقع پر نماز جنازہ پڑھی ہے۔ایک نجاشی کی دوسری جعفر تیار کی تیسری ایک اور صحابی معاویہ رضی اللہ عنہ کی۔ اس بنا پر فقہاء کا ایک گروہ اُسے مسنون قرار دیتا ہے۔ احنا ف کے نزدیک یہ طریقہ مسنون اس لیے نہیں ہے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں یہ کثرت صحابہ کا مدینہ سے باہر انتقال ہوا۔ مگر حضور ﷺ نے نماز غائبانہ نہیں پڑھی۔ جن تین صحابہ کی آپ نے غائبانہ نماز پڑھی اس کی کوئی وجہ اور سبب موجود تھا۔ مثلاً نجاشی کہ وہ وہاں اکیلا مسلمان تھا۔ اور کوئی مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھنے والا موجود نہیں تھا۔ اس لیے حضور ﷺ نے اس کی غائبانہ نماز پڑھی۔ دوسرے جعفر طیار رضی اللہ عنہ کہ وہ کفار کے لشکر میں گھر کر شہید ہوئے اور وہاں نماز جنازہ کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ علی لہذا القیاس اس طرح کا کوئی سبب موجود ہوتا تھا۔ جس کی بنا پر حضور ﷺ نے دو تین مرتبہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔ تاہم چونکہ حضور ﷺ کے عمل سے ثابت ہے اس لے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا پڑھانا جائز اور ممنوع نہیں تجلی دیوبند ۴۷، نمبر ۴۸، مئی نمبر ۶۷ئ، اس مقام پر مولنا نے بھی اگرچہ عام علمائے احناف کی روش اختیار کی ہے۔ لیکن اتنا تو انہوں نے صراحتۃً اعتراف فرمایا ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ ممنوع و ناجائز نہیں جیسا کہ علماء نے احناف کی اکثریت ہے فتویٰ دیتی رہے وہ علل و اسباب جن کو مولنا نے بھی ذکر فرمایا ہے تو وہ مہمل و عبث اور غیر ثابت شدہ ہیں حضرت معاویہ کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا۔ اور آپ نے نمازجنازہ تبوک میں ادا فرمائی۔ حالانکہ مدینہ میں اصحاب الرسول ﷺ موجود تھے۔ اور ان ہی لوگوں نے تجہیز و تکفین کی تھی۔ واللہ اعلم۔
(اخبار اہل حدیث دہلی جلد نمبر ۱۷ ش نمبر ۷)