کیا نماز جنازہ مسجد میں ناجائز ہے۔
بردران احناف کا دعویٰ ہے کہ ہم عامل بالقرآن والحدیث ہیں۔اور ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاصْحَابِیْ)) کے مصداق ہیں۔ ہمارا دین وہی دین ہے۔ جو صحابہ کرام کا تھا، ہمارا مذہب اعلیٰ و ارفع ہے اور یہ فرقہ ناجیہ میں داخل ہیں، ان احناف کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ہم ہی حق پر ہیں۔ باقی سب مردود و باطل ہیں، ان کو یہ دعویٰ مبارک ہو۔ لیکن ہر دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اپنے دعویٰ کو دلائل سے ثابت کریں، یوں تو احناف اپنے ہر طرز عمل کو ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ)) کا مصداق بتاتے ہیں۔ لیکن ہم جب ان کے اعمال کا جائز ہ لیتے ہیں تو ان کو احادیث کے خلاف پاتے ہیں، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے آثار و طرز عمل کے بھی خلاف پاتے ہیں۔ آج ہم صرف مسجد میں میت کی نماز جنازہ پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔ ((اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ)) احناف کا عمل یہ ہے کہ ہو جنازہ کو مسجد میں لانے اور رکھنے سے منع کرتے ہیں، اور مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھنے کو بھی ناجائز کہتے ہیں، اس مسئلہ کی تحقیق کے لیے کتب احادیث کی ورق گردانی کی تو معلوم ہوا کہ محدثین نے اس مسئلہ کے لیے ایک مستقل باب بایں الفاظ منعقد کیا ہے۔ ((بَابُ الصَّلٰوۃ الْجَنَازَۃِ فِی الْمَسْجِدْ)) پھر بطور استدلال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کو پیش کرتے ہیں جس کے الفاظ یہ ہیں۔
((عَنْ عَائِشَۃََ کَمَّا تُوُفِّیْ سَعْدُ بْنُ اَبِیْ وَقَّاسٍِ قَالَتْ اُدْخُلُوْا بِہِ الْمَسْجِدِ حَتّٰی اُصَلِّی عَلَیْہِ فَاُنْکِرَ ذَالِکَ عَلَیْھَا فَقَالَتْ وَاللّٰہِ لَقَدْ صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَلٰی اِبْنِیْ بَیْضَائَ سُھَیْلٍ وَاَخِیْہِ فِی الْمَسْجِدِ رواہ مسلم فِیْ باب جواز الصَّلٰوۃِ عَلَی الْمَیَّتِ فی المسجد ج ۱ ص ۳۱۳ وفی الباب احادیث کَثِیرَۃ مِنق طُرُقِ عَدِیْدَۃٌ تُبْلُغُ دَرَجَۃَ التَّواتِرُ کَمَا لَا یَخْفٰی عَلٰی مَاھِرِ الْحَدِیْثِ انتہیٰ))
’’یعنی جب سعد بن ابی وقاص کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے لوگوں سے کہا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لائو تاکہ ہم مستورات بھی جنازہ کی نماز پڑھیں، اس پر بعض ناواقف لوگوں نے جن کو نماز جنازہ فی المسجد کے بارے میں علم نہ تھا، انکار کیا، تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بطور استدلال ایک حدیث پیش کی اور فرمایا کہ حضور ﷺ نے اپنے صحابی سہلیل بن بیضاء اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان کو تمام صحابہ کرام نے بلا چوں چراں قبول کیا پھر دوبارہ کسی کو انکار کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔پس مذکورۃ بالا روایت ہی اس بات کے لیے کافی و دانی ثبوت ہے کہ مسجد میں جنازہ کو رکھا جاسکتا ہے اور مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھی جا سکتی ہے، مگر حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے، کیونکہ اعتکاف کی وجہ سے آپ نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی ہو گی، یا پہلے جائز تھا بعد میں منسوخ (؎۱) ہو گیا کما سیاتی بیانہ اس حدیث کے علاوہ ہمیں اپنے دعویٰ کے ثبوت میں اور دلائل بھی ملتے ہیں۔ مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جنازہ کی نماز حضرت عمر نے (تمام صحابہ کرام کے سامنے) مسجد میں پڑھائی (کسی نے منسوخ نہ کہا) پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی۔ جیسا کہ مؤطا امام مالک میں مذکور ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے۔ کہ ((وَوُضِعَتِ الْجَنَازَۃُ تِجَاہُ الْمِنْبَرِ)) (رواہ ابن ابی شیبۃ وزرقانی جلد نمبر ۲ ص ۱۵) ’’یعنی جنازہ منبر کے سامنے رکھا گیا اور پھر نماز پڑھی گئی۔‘‘ اس روایت سے اس خیال کی بھی تردید ہو گی کہ جنازہ کی نماز مسجد کے کسی کونے میں ادا کی جا سکتی ہے۔ وسطہ مسجد میں نہیں۔ عون المعبود شرح ابو داؤد جلد نمبر ۳ ص ۱۸۲ میں درج ہے۔
((وَقَدْ ثَبَتَ اَنَّ اَبَا بَکْرٍ وَعُمَرَ صُلِّیْ عَلَیْھَا فِی الْمَسْجِدِ وَھُوَ مَعْلُوْمٌ اَنَّ عَامَۃَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ شَہِدُوْا الصَّلٰوۃَ عَلَیْھَا فَفِی تَرْکِھمْ اِنْکَارَہٗ دَلِیْلٌ عَلٰی جَوَازِہِ))
’’یعنی یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی، اور یہ ظاہر ہے کہ ان دونوں کی نماز جنازہ میں عام مہاجرین و انصار نے شرکت کی اور کسی نے بھی اس کو برا نہ کہا۔پس ثابت ہوا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔‘‘
((وھکذا قال فی المؤطا وفی البیھقی ایضاً وَقَدْ رَأَیْتُ فِی الْمَکَّۃِ کُلَّ یَوْمٍ غَیْرَ مَرَّۃِ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ الْفَرِیْضَۃِ فَلَمَّا سَلَّمَ الْاِمَامُ قَامَ الْمُوْذِّنُ فَقَالَ الصَّلٰوۃُ عَلٰ مَیَّتِ الْحَاضِرِ الصَّلٰوۃُ رَحِمَ اللّٰہُ ثُمَّ وُضِعْتَ الْجِنَازَۃُ عَنْدَ الْبَیْتِ، مُقَدِّمَۃٌ وَدُوْنَ الْاِمَامِ فَصَلَّی الْاِمَامُ صَلٰوۃ الجِنَازَۃَ عَلٰی مَیِّتِ الْحَاضِرِ عِنْدَ الْبَیْتِ وَالنَّاسُ خَلْفَہٗ وَلَا نَعْلَمُ فِیْ ذٰلِکَ مِنْھُمْ فِیْہِ اِخْتِلَافًا))
’’یعنی (امسال جو حج کرنے کے لیے مکہ معظمہ گیا تو) میں نے دیکھا کہ ہر روز فرض نماز کے بعد جب امام سلام پھیرتا تو مؤذن کھڑے ہو کر اعلان کرتا کہ جنازہ حاضر ہے نماز جنازہ پڑھ لیجئے۔ اللہ آپ پر رحم کرے۔ پھر جنازہ بیت اللہ میں امام کے آگے رکھ گیا جاتا، اور وہ نماز پڑھاتا اور لوگ اس کے پیچھے ہوتے، میں بھی شریک جماعت ہو کر نماز جنازہ پڑھا کرتا تھا، اگر کسی میت کا جنازہ فرض نماز سے پہلے یا بعد میں لایا جاتا تو بھی امام صاحب اس وقت حرم میں موجود چند مقتدیوں کے ساتھ نماز جنازہ حرم ہی میں پڑھا دیتے تھے۔‘‘
میں چاشت کے وقت طواف کی حالت میں مسجد حرام میں جاتا تھا تو دو ایک دفعہ جنازہ کی نماز میں شریک ہونے کا مجھے اتفاق ہوا۔ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ مسجد حرام میں مشرق و مغرب سے آئے ہوئے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی تمام فرقوں کے لوگ مسجد حرام میں نماز پڑھتے ہیں۔ اور جنازہ کی نمازمیں بھی بلا چوں چراں شریک ہوتے ہیں۔ کبھی کسی نے اعتراض نہیں کیا کہ جنازہ مسجد میں کیوں لایا گیا۔ اور منبر و محراب کے پاس رکھ کر امام نے کیوں اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ میں نے بعض حنفی بزرگوں سے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھنا منع ہے۔ اس کے باوجود آپ مسجد حرام میں اور مسجد نبوی میں جنازہ کے سامنے کھڑے ہوکر نماز جنازہ کیوں پڑھتے ہیں۔ تو جواب ندارد۔ معلومات حج ۱۹۶۵ھ میں لکھا ہے۔
((وھٰکَذَا رَأَیْتُ فِی الْمَدِیْنَۃِ کُلَّ یَوْمٍ غَیْرَ مَرَّۃٍ اِذ سَلَّمَ الْاِمَامُ قَامَ الْمُوْذِنُ فَقَالَ الصَّلٰوۃُ عَلٰی مَیِّتِ الْحَاضِرِ الصَّلوٰۃُ رَحِمُکُمُ اللّٰہُ ثُمَّ وُضَعَتْ الجِنَازَۃ فِی جَوْفِ الْمَسْجِدِ عِنْدَ الْمَحْرَاب فَصَلّٰی الْاَمَامُ الْجِنَازَۃ والنَّاسُ خُلْفَہٗ بِلَا اِخْتِلَافِ وَھٰذَا یَقْتَضِیْ الْاِجْمَاعِ عَلٰی جَوَازِ ذَالِکَ))
’’مطلب یہ ہے کہ مؤلف رسالہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایک دن میں کئی کئی مرتبہ امام کو نماز جنازہ پڑھاتے دیکھا اس حال میں کہ جنازہ مسجد کے بیچ میں محراب کے پاس رکھا ہوتا تھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کے جواز پر اجماع ہے۔‘‘
خیر یہاں تک تو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے ((اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ)) صحابہ کرام کے عمل اور اہلحدیث کے مسلک کا بیان کیا گیا ۔ اب حنفیہ کی خبر لیجئے۔ جو ((مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ)) کے دعویدار ہیں۔
تفصیل میں اگر آپ جائیں گے تو جگہ جگہ آپ کو حنفیوں کے اس دعوے اور عمل میں تضاد نظر آئے گا۔ ملاحظہ فرمائیے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نماز جنازہ فی المسجد کے متعلق یوں فرماتے ہیں۔ ((لَا تُصِحُّ الصَّلٰوۃُ عَلَیْہِ فِی الْمَسْجِدِ کَمَا وَرَدَ (؎۱) فِیْ کُتُبِ الْحَنْفِیَّۃِ الخ)) بحواہ نووی جلد اول ص ۳۱۳
(؎۱) یہ قول بلا سند امام صاحب کی طرف منسوب کرنا مناسب نہیں، بلکہ اس قول کو مؤلفین کتب فقہ کی طر ف منسوب کرنا مناسب ہے کتب فقہ میں امام صاحب کا یہ قول بھی مشہور ہے۔ ((اِذَا صَحَّ الْحَدِیْثُ فَھُوَ مَذْھَبِیْ)) اس قول کے مطابق امام صاحب بری الذمہ ہیں۔ یہ مؤلفین کتب فقہ کے سر پر سہرا ہے۔ (سعیدی)
یعنی جنازہ پر مسجد میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے، ملاحظہ فرمائیے۔ حنفیہ کی چوٹی کی کتاب ہدایہ جو ان کے خیال میں قرآن کے مثل ہے۔ اس میں صاحب ہدایہ لکھتے ہیں۔
((وَلَا یُصَلّٰی عَلٰی مَیِّتٍ فِیْ مَسْجِدِ جَمَاعَۃٍ لِقَوْلِ النَّبِیَّ ﷺ مَنْ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدَ فَلَا اَجْرَ لَہٗ وَلِاَنَّہٗ بُنِیَ لِاَدَائِ الْمَکْتُوْبَۃِ وَلِاَنَّہٗ یَحْتَمِلُ تَلْوِیْثَ الْمَسْجِدِ الخ)) (ہدایہ جلد اول ص ۱۶۱)
’’یعنی جس مسجد میں نماز باجماعت پڑھی جاتی ہو۔ اس میں جنازہ پر نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے جنازہ پر مسجد میں نماز پڑھی اس کو کچھ اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ دوسری وجہ ہے کہ مسجد فرض نماز کے لیے بنائی گئی ہے، تیسری وجہ یہ ہے کہ مسجد میں جنازہ کو رکھنے سے اندیشہ ہے کہ بول و براز خارج ہونے سے مسجد گندی ہو جائے۔‘‘
حنفیوں کی عادت ہے، جب امام صاحب کے قیاس اور رائے کو صحیح حدیث رد کر رہی ہو بلبلا جاتے ہیں، حواس باختہ ہو کر عقل و خر د کو بالائے طاق رکھ کر طرح طرح کی تاویلیں گھڑنے لگتے ہیں۔ تاکہ امام صاحب کے قول و فتویٰ کا صحیح محل و مصداق نکل آئے، کبھی حدیث کی سند میں کیڑے نکالتے ہیں، کبھی کہتے ہیں یہ حدیث منسوخ ہے، کبھی کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے غرضیکہ امام صاحب کے فتویٰ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے، عام حدیث کو خاص کرنے، خاص کو عام کرے، ضعیف حدیث کو مشہور و متواتر اور متواتر کو ضعیف کہنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس سے بھی مقصد برآری نہیں تو حدیث کے الفاظ کھڑ کر پیش کر دیتے ہیں۔ اس مرض میں حنفیون کے چھوٹے بڑے سب علماء مبتلا ہیں۔ ان لوگوں کی حدیث دانی اس قسم کی تاویلات کے اردگرد گھومتی رہتی ہے۔
مذکورہ بالا سطروں میں ہدایہ کی جو عبارت نقل کی گئی ہے، اس میں صاحب ہدایہ نے امام صاحب کے مذہب کو ثابت کرنے کے لیے یہ حدیث نقل کی ہے۔
((مَنْ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدٍ فَلَا اٰجِرَ لَہٗ))
’’یعنی جس نے جنازہ پر مسجد میں نماز پڑھی اس کے لیے کوئی اجر نہیں ہے۔‘‘
صاحب ہدایہ نے اس حدیث کی نہ کوئی سند بیان کی اور نہ حدیث کی کسی کتاب کا حوالہ دیا۔ دیتے بھی کہاں سے جب کہ یہ حدیث ہی من گھڑت ہے۔
صاحب ہدایہ پر یہ بہت بڑا دھبہ ہے کہ انہوں نے امام صاحب کے قول کو صحیح ثابت کرنے کے لیے گھڑی ہوئی حدیث پیش کر دی۔ صاحب ہدایہ تو گذر گئے۔ ان کے بعد آنے والے حنفی علماء کو خیال آیا کہ اس دھبہ کو دور کرنا چاہیے۔ اور طالبان حق کا یہ خلجان دور کرنا چاہیے کہ اس حدیث کی نہ سند ہے نہ حوالہ۔ چنانچہ مولیٰنا احمد علی صاحب سہارنپوری حنفی نے بخاری شریف کے حاشیہ پر اسی طرح مشکوۃ کے محشی نے جب اس مسئلہ کے موافق و مخالف پہلوؤں کو واضح کیا تو اپنا مذہب بایں الفاظ بیان کیا۔
((فَعِنْدَنَا مَکْرُوْہٌ لِحَدِیْثِ الَّذِیْ رَوَاہُ اَبُوْ دَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ عَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَنْ صَلّٰی عَلٰی مَیَّتٍ فِیْ الْمَسْجِدِ فَلَا اَجْرَلَہٗ وَفِیْ رَوَایَۃ اُخْریٰ مَنْ صَلّٰی مَیِّتٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَا صَلوٰۃَ لَہٗ انتہی))
’’یعنی ہمارے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے، کیونکہ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنازہ پر مسجد میں نماز پڑھے گا، اس کو کوئی اجر نہیں ملے گا اور دوسری روایت میں ہے کہ اس کی نماز جنازہ ہی ادا نہ ہو گی۔‘‘
اس حاشیہ کو پڑھنے کے بعد حنفی طالب علم مطمئن ہو جاتا ہے کہ ہمارا مذہب برحق ہے۔ ان بے چاروں کو کیا معلوم کہ غلط تلقین کی گئی ہے۔
حنفی علماء کو چیلنج ہے کہ وہ بتائیں یہ حدیث ٹھیک ان ہی الفاظ کے ساتھ ابو داؤد اور ابن ماجہ میں کہاں اور کس باب میں وارد ہے۔ حنفیہ کے تمام بزرگ قیامت تک کوشش کریں تو صحت نقل کی ذمہ داری سے سبک دوش نہیں ہو سکتے۔ ابو داؤد اور ابن ماجہ کجا ساری صحاح ستہ اور تمام کتب حدیث میں یہ الفاظ نہیں دیکھا سکتے۔ اس لیے کہ یہ حدیث بالکل بناوٹی۔ جھوٹی اور موضوع ہے۔
((قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبِرَّ رِوَایَۃِ فَلَا اَجْرَلَہٗ خَطَائٌ فَاحِشٌ وَقَالَ مُلَّ عَلِیْ قَارِیْ اَیْضًا فِیْ کِتَابِہٖ مَوْضُوْعَاتِ کَبِیْرِ حَدِیْثِ مَنْ صَلّٰی عَلٰی جَنَازۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَا اَجَرَ لَہٗ خَطَائٌ فَاحِشٌ وَالصَّوَابُ رِوَایَۃُ فَلَا شِیْئَ لَہٗ قُلْتُ وَھُوَ مَحْمُوْلٌ عَلٰی رِوَایَۃِ فَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ))
’’یعنی علامہ عبد البر فرماتے ہیں۔کہ ((فَلَا اَجْرَ لَہٗ)) والی حدیث بالکل بے بنیاد ہے۔ اور علی قاری رحمہ اللہ نے بھی یہی کہا ہے کہ ((فَلَا اَجْرَلَہٗ)) کو فرمان رسول قرار دینا کھلی خطا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ((فَلَا شَیْئَ عَلَیْہ)) یعنی جو شخص جنازہ پر مسجد میں نماز پڑھے گا اس پر کوئی برائی نہیں لادی جا سکتی۔‘‘
ابو داؤد میں جو روایت ہے اس میں ((فَلَا اَجْرَ لَہٗ)) کی بجائے ((فَلَا شَیْئَ لَہٗ)) ہے جس کے معنی ہیں۔ ((فَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ)) اسی طرح عنایہ ص ۱۶۱ ج۱ میں مذکور ہے۔ کہ ((قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ وَاَیَۃُ فَلَا اٰجْرَلَہٗ خَطَائٌ فَاحِشٌ وَالصَّحِیْحُ فَلَا شَیْئَ لَہٗ لفظ فَلَا اَجْرَ لَہٗ)) اور ((فَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ)) کے مفہوم میں تضاد ہے۔ دونوں کی حقیقت جدا جدا ہے۔ حنفی علماء نے ((فَلَا شَیْئِ)) کو ((فَلَا اَجْرَ)) سے اس لیے بدل دیا۔ تاکہ امام صاحب کا مذہب ثابت ہو جائے، آپ نے دیکھا اندھی تقلید کا تماشہ سچ ہے۔ ((حُبُّکَ الشَّیْئَ یُعْمِیْ وَیَصُمْ)) یہ لوگ امام صاحب کے قول کو ثابت کرنے کے لیے قرآن و حدیث میں ردو بدل کرنے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں ان لوگوں نے شریعت کو موم کی گڑیا سمجھ رکھا ہے جس طرف چاہا موڑ دیا۔ ان کے نزدیک اصل حجت و دلیل امام صاحب کا قول ہے۔ اور قر آن و حدیث کو امام صاحب کے قیاس و رائے کے تا بع بنا رکھا ہے۔ کتنی ہی صحیح ترین حدیث ان کے سامنے رکھ دی جائے اگر وہ امام صاحب کے فتویٰ کے خلاف ہے تو کبھی نہیں کہیں گے کہ امام صاحب نے اجہتاد کرنے میں غلطی کی اور اگر صحیح کے مقابلہ میں ضعیف حدیث سے امام کی تائید ہوتی ہو تو فوراً دلیل میں پیش کر دیں گے۔ کیونکہ یہ لوگ اپنے کو امام صاحب کے قول کا مکلف سمجھتے ہیں اور قرآن و حدیث کی باتیں ذیلی جانتے ہیں۔ جب یہ لوگ چاروں طرف کے دلائل سے گھر جاتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ((عَنْدَنَا اَوْ عِنْدَ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ رحمہ اللہ اَوْ عَنْدَ اَصْحَابِنَا ھکذا)) ’’یہ مسئلہ ہمارے نزدیک یا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یا ہمارے اصحاب کے نزدیک اسی طرح ہے ۔‘‘ ہم اُسی کو مانیں گے اور اسی پر عمل کریں گے۔ کیونکہ ہم ان کے مقلد ہیں مذکورہ بالا حدیث کو پھر ملاحظہ فرمائیں ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کا ایک ٹکڑا یہ ہے ۔ ((فَلَا شَیْئَ لَہٗ)) محدثین نے اس کے معنی ((فَلَا شَیْئَ عَلَیْہِ)) کے بیان کیے ہیں جس کی رو سے اس حدیث میں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی مذکورہ بالا حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔
یہاں ((لَہٌٗ)) کے لام کو علی کے معنی میں لینا ہی درست ہے اور اگر لام کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ تو انصاف کا تقاضہ ی ہے کہ حنفیہ کو یہ حدیث امام صاحب کے قول کی تائید میں پیش نہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی اسباب ہیں جن کی بناء پر یہ حدیث قابل حجت و قابل عمل نہیں ہو سکتی۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
((قَدْ اَجَابُوْا مِنْ حَدِیْثِ سُنَنِ اَبِیْ دَاؤدَ بِاَحْوِبَۃٍ اَحَدُھَا اَنَّہٗ ضَعِیْفٌ لَا یُصِحُّ الْاِحْتِجَاجُ بِہٖ وَقَالَ اَحْمَدَ بْنُ حَنْبَلٍ ھٰذا حَدِیْثٌ ضَعِیْفٌ))
((تَفَرَّدَ بِہٖ صَالِحٌ مَوْلٰی التؤمَۃَ وَھُوَ ضَعِیْفٌ ایضًا))
……… نووی ص ۳۱۳ ج ۱، امام نووی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، دونوں کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور یہ کسی مسئلہ کے لیے دلیل نہیں بن سکتی۔ پس ثابت ہو گیا کہ حنفیہ کا یہ مسئلہ بلا دلیل اور بے بنیاد ہے کہ جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھنا جائز نہیں اس کے باوجود حنفیہ یہی فتویٰ دیتے ہیں رہیں گے۔ کیونکہ فقہ کی کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں شرح وقایہ جلد اول ص ۲۵۵ میں ہے کہ ((کرہت فی مسجد جماعتہ ان کانت المیت فیہ)) اور عنایہ جلد اول ص ۱۶۱ میںیہ مسئلہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
((قولہ فی مسجد جماعۃ اذا کانت الجنازۃ فی المسجد فالصلوۃ علیھا مکروھۃ باتفاق اصحابنا))
اور اسی طرح کنز الدقائق او ررد المختار اور فتاویٰ عالمگیری میں بھی مذکور ہے۔ یہ حنفیہ کی ہٹ دھرمی کا ادنیٰ نمونہ ہے۔ شروع میں مسلم شریف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نقل کی جا چکی ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں متعددسندوں سے اتنی حدیثیں آئی ہیں۔ جو درجہ تواتر کو پہنچتی ہیں۔ حنفیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا یہ جواب دیا کہ اعتکاف کی وجہ سے آنحضرت ﷺ نے مسجد کے اندر نماز جنازہ پڑھی ہو گی یا پہلے پڑھی جاتی ہو گی بعد میں منسوخ ہو گی۔ یہ دونوں باتیں اٹکل سے کہی گئی ہیں۔ کوئی ثبوت نہیں کہ آپ معتکف تھے۔ اعتکاف کی حالت میں نماز جنازہ پڑھنا ضروری تھا تو آپ رضی اللہ عنہ جنازہ کی نماز پڑھنے کے لے مسجد سے باہر بھی تشریف لا سکتے تھے۔ غیر ضروری تھا تو نماز کے لیے جنازہ کو مسجد میں کیوں داخل کیا گیا۔ جب کہ بقول احناف مکروہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کی کئی واقعوں کی طرف اشارہ کیا ہے کیا ہر دفعہ آپ اعتکاف کی حالت میں تھے۔
((سُبْحَانَ اللّٰہِ ھٰذَا بُھْتَانٌ عَظِیْمٌ)) اگر اعتکاف کی وجہ سے مکروہ مباح ہوگیا۔ تو صحابہ رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہونا چاہیے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سن کر صحابہ رضی اللہ عنہ خاموش کیوں ہو گئے۔ رہا یہ کہ پہلے جائز تھا۔ بعد میں منسوخ ہو گیا۔ تو ناسخ و منسوخ قرار دینے کے لیے ضروری ہے کہ ایک درجہ کی دو متعارض حدیثیں موجود ہوں اور ان کی تاریخ بھی معلوم ہو کہ منسوخ حدیث پہلی کی ہے اور ناسخ بعد کی اگر صحیح حدیث اور ضعیف حدیث میں تعارض ہو تو ناسخ و منسوخ کہہ کر تعارض کو دفعہ نہیں کیا جائے گا۔ اگ چہ مقدم و مؤخر معلوم ہو یہاں ناسخ ومنسوخ کی کوئی شرط نہیں پائی جاتی۔ اس مسئلہ میں ایک ہی طرح کی حدیثیں ہیں جو تواتر کے درجہ کو پہنچتی ہیں کہ مسجد میں نماز جنازہ جائز ہے اس کے خلاف ایک حدیث بھی نہیں ہے اگر یہ حکم منسوخ ہوتا تو آپ ﷺ کے انتقال کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہ اس کے خلاف نہ کرے حالانکہ اوپر گذر چکا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے کے بعد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی۔ پھر حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی البتہ اس حدیث متواتر اور امام صاحب رحمہ اللہ کے قول میں تعارض ہے۔ کیا آپ امام صاحب کے قول ناسخ او ر حدیث متواتر کو منسوخ قرار دیتے ہیں۔
صاحب ہدایہ کا کہنا کہ مسجد فرضوں کے لیے ہے۔ اور مسجد میں جنازہ رکھنے سے مردہ کی گندگی ٹپکنے اور مسجد کے ملوث ہو جانے کا اندیشہ ہے محل نظر ہے احادیث کا مطالعہ کیجئے۔ معلوم ہو جائے گا کہ قرون اولیٰ میں مسجد وں میں کیا کیا امر انجام پاتے رہے ہیں۔ اس کی بھی فہرست ملے گی۔ اگر مسجد میں صرف فرضوں کے لیے ہے تو آپ اس میں سنت و نفل کیوں پڑھتے ہیں۔ کیا نماز جنازہ فرض نہیں ہے۔ فرض عین نہ سہی۔ فرض کفایہ تو ہے تلویث مسجد کا احتمال زندوں سے بھی وابستہ ہے۔ ایسی اضطراری کیفیت پیدا ہو سکتی ہے۔ جس سے بو ل و براز خطا ہو جائے اس لیے مردوں اور عورتوں کو مسجد میں جانے سے روک دیجئے۔ یہ سب قباحتیں محض اس لیے پیدا ہو رہی ہیں کہ آپ امام صاحب کے غلط فتویٰ کو صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیں حنفیہ سے شکایت ہے کہ وہ امام صاحب رحمہ اللہ سے اس درجہ عقیدت رکھتے ہیں کہ اگر امام صاحب رحمہ اللہ کے قول کے خلاف کسی صحابی نے حدیث بیان کی ہے تو اس صحابی کی تنقیص کرنے لگتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر صحابی ہیں۔ اور ان کی روایت کردہ حدیثیں حنفی مسلک سے ٹکراتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو غیر فقیہ کہنا شروع کر دیا۔ ابو داؤد کی یہ روایت ((لَا شَیْئَ لَہٗ)) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور مولیٰنا احمد علی سہارنپوری کے کہنے کے مطابق ((لَا اَجْرَ لَہٗ)) اور ((لَا صَلوٰۃ لَہٗ)) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں۔ پہلی حدیث ضعیف اور دوسری موضوع ہے۔ ایک حنفی بزرگ کہنے لگے کہ جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت جھوٹی اور موضوع ٹھہری اسی وجہ سے برایہ و نہایہ اور اکثر تفسیروں میں لکھا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جھوٹی حدیثیں بیان کرتے تھے اس لیے ہر مسئلہ میں ہم ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو نہیں مانتے ناظرین یہ صریح بہتان ہے ہدایہ و نہایہ اور ابن کثیر وغیرہ کیا دنیا کی تمام کتب رجال اور اسماء الرجال میں کہیں نہیں ہے کہ ابو ہریرہ مہتم بالکذب تھے یہ منکرین حدیث کذب بیان کرتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتے سنئے علامہ عجاج الخطیب اپنی کتاب اعلام العرب ص ۱۴۹ میں یوں فرماتے ہیں۔
((قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ اَنْتَ یَ اَبُوق ھُرَیْرَۃٌَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ وَاَحْفَظُنَا لَحَدِیْثِہٖ))
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے ابو ہریرہ تم ہم سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کی حدیثوں کو جانتے ہو اور تمہیں ہم سے زیادہ حدیثیں یاد ہیں۔‘‘
البدایہ والنہایہ جلد ۸ ص ۱۰۹:
((وقال حافظ المغرب یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبد البر ان ابو ہریرۃ مِنق اَحْفَظِ اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ وکان یحضر ما لا یحضر سائر المہاجرین والانصار لا شتغال الماجرین بالتجارۃ والانصار بحوائطہم الخ الاستیعاب ص ۷۷۱ ج، وقال ابن الایثر ابو ہریرۃ الدوسی صاحب رسول اللّٰہ واکثرھم حدیث عنہ الخ۔ اُسد الغابہ ص ۳۱۵ ج ۲ وابن عساکر ص ۸۱، وقال الشافعی ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ احفظ من روی الحدیث فی دہرۃ الخ اعلام العرب ص ۱۹۴، قال البخاری روی عنہ نحوثمان مائۃ من اھل العلم وکان احفظ من رویٰ الحدیث فی عمرہٖ، تہذیب التہذیب ص ۲۶۵ ج ۱۲ والبدایہ والنہایہ ص ۱۰۳ ج۸، وقیل لا بن عمر ہل تنکر مما یحدث بہ ابو ہریرۃ شیاء فقال لا ولکنہ اجترأ وجینا الخ، اعلام النبلاء ص ۴۳۷ ج۲ وفی تاریخ دمشق ص ۴۹۲ ج۴۷، وقال طلحۃ بن عبید اللّٰہ لا نشک انہ سمع فالم نسمع الخ اعلام النداء نمبر ۴۳۶ ج۲ واصَابہ ص ۲۰۴ ج۷، وفی الباب احادیث کثیرۃ کما رواہ البخاری واقوال کثیرۃ کما لا یخفی علی ماہر الحدیث والفنون من یرید الاطلاع فلیر اجع الیہ ومن ادعیٰ خلافہ فعلیہ البیان بالبرھان واقول ھذا مختصراً بخوف الطول ھٰذا ما عندی واللّٰہ اعلم بالصواب))
(اخبار اہل حدیث دہلی جلد نمبر ۵ ش نمبر ۱۹۰۱۸) (حبیب الرحمن مالدہی مقام کڑیا ڈاکخانہ کمار گنج ضلع مالدہ)