دیو بند اور اہل حدیث بعد نماز جنازہ میت کی چارپائی اٹھانے سے پہلے کی دعا درست نہیں جانتے، بلکہ بدعت کہتے ہیں، بریلوی حنفی اس پر اصرار کرتے اور کہتے ہیں کہ ہاتھ اُٹھا کر دعا مانگنا تو فرض نمازوں کے بعد بھی ثابت نہیں ہے، لیکن تمام اسلامی فرقوں کا یہ معمول ہے، سو جہاں یہ درست ہے، وہاں وہ بھی درست ہے، لہٰذا اس مسئلے کی مدلل حیثیت بیان فرما دیں۔
نماز جنازہ کے بعد چارپائی اُٹھانے سے پہلے دعا مانگنا بدعت ہی کے دائرے میں آتا ہے، بدعت کی تعریف یہ ہے، دین میں ایسا نیا کام ایجاد کرنا، جس کی قرآن مشہو د لہا بالخیر میں ضرورت موجود ہو، اور اس کا شرعی مانع (رکاوٹ) بھی کوئی نہ ہو، بدعت کہلاتا ہے، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے، کہ خیر القرون میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں فوت ہوئے، لیکن جہاں تک ہمارے استقراء کا تعلق ہے، نہ تو رسو ل اللہ ﷺ سے نہ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم سے اور نہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور نہ پھر حضرات ائمہ دین سے کسی ایک صحابی تابعی امام کے جنازہ پر چارپائی اٹھانے سے پہلے مروجہ دعا کا ذکر صحیح تو کیا کسی ضعیف روایت میں بھی نہیں، نہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے اثر یا اس کے عمل سے ثابت ہے، اورنہ ائمہ دین سے یہ امر ثابت ہے، حالانکہ اس دعا کے اسباب اور وداعی (میت کی خیر خواہی اور اس کے لیے طلب مغفرت) اس زمانہ میں بھی موجود تھے، لہٰذا اگر اس دعا کا دین سے کچھ تعلق ہوتا تو اس کا ثبوت (صریح نص سے ) ضرور ملتا اور یہ بات بھی پوری طرح عیاں ہے کہ جو کام اس وقت (زمان سلف) میں دین نہ تھا، وہ آج بھی دین نہیں ہو سکتا، حضرت امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
((فَمَا لَمْ یَکُنْ یَوْمَئِذٍ دِیْنًا فَلَا یَکُوْنُ الْیَوْمَ دِیْنًا)) (کتاب الاعتصام شاطبی ص ۲۸ جلد نمبر ۱)
’’کہ جو چیز اس وقت دین نہ تھی، وہ آج بھی دین نہیں۔‘‘
امام موصوف رضی اللہ عنہ کے ارشاد کی بنیاد اس حدیث شریف پر ہے۔
((عَنْ عَائِشَۃَ رَضِِیَ اللّٰہُ عَنْہَا قَالَ النَّبِیّ ﷺ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌ)) (صحیح بخاری جلد نبر ۱ ص ۳۷۱)
’’کہ جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، وہ مردود ہو گی۔‘‘
اور ((اَمْرُنَا ھٰذَا)) سے امر دین اور شریعت مراد ہے، جیسے کہ حضرت شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ((وَالْمُرَادُ بِہٖ اَمْرُ دِیْنٍ)) (فتح الباری) یہ بات بھی واضح رہے کہ نماز ایسی اہم عبادت کی مسنون ہیئات کذائی تبدیل کر کے اس کو خاص وقت اور خاص کیفیت (جو کہ نبی ﷺ سے ثابت نہ ہو) کے ساتھ ادا کرنے کو بھی حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بدعت قرار دیتے تھے۔ جیسا کہ صحیحین میں ہے۔
((عَنْ مُجَاہِدٍ رحمہ اللہ قَالَ دَخَلْتُ اَنَا وَعُرْوَۃُ بْنُ الزُّبَیْرِ الْمَسْجِدَ فَاِذَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عُمَرَ جَالِسٌ اِلیٰ حُجْرَۃِ عَائِشَۃِ وَالنَّاسُ یُصَلُّوْنَ الضُّحٰی فِی الْمَسْجِدِ فَسَألْنَاہُ فَقَالَ بِدْعَتٌ))
(صحیح بخاری جلد نمبر ۱ ص ۲۳۸ و صحیح مسلم ص ۴۰۶ جلد نمبر۱)
’’حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروۃ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے، تو دیکھا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرے کے پاس تشریف فرمائیں، اور کچھ لوگ چاشت کی نماز پڑھ رہے ہیں، ہم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ان لوگوں کی نماز کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اس کو بدعت کہا۔‘‘
امام نووی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں۔
((ھٰذَ قَدْ حَمَلَہُ الْقَاضِیْ وَغَیْرہٗ عَلٰی اِنَّ مُرَادَہٗ اِنَّ اِظْہَارَھَا فِی الْمَسْجِدِ وَالْاِجْتِمَاعِ لَھَا ھُوَ الْبِدْعَۃُ لَا اِنَّ صَلٰوۃَ الضّحٰی بِدْعَۃٌ)) (نووی ص ۴۰۹ جلد نمبر ۱)
’’کہ قاضی عیاض وغیرہ نے کہا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ چاشت کی نماز کا مسجد میں اظہار کر کے پڑھنا، اور اس کے لیے خاص اہتمام اور اجتماع کرنا بدعت ہے، نہ کہ خود چاشت بدعت ہے