سوال: السلام عليكم و رحمة الله و بركاته میرا سوال یہ ہے کی علامہ البانی رحمه الله نے اپنی کتاب ضعيف سنن النسائى صفحہ ١٠٣ کتاب الطلاق حديث نمبر ٣٤٠١ محمود بن لبيد والى حديث كو ضعيف کہا ہے اور پھر اپنی کتاب غاية المرام صفحہ ١٦٤، ١٦٥ پے اسی حدیث کو صحيح کہا ہے تو
جواب: علامہ البانی رحمہ اللہ کے کلام میں اس قسم کی کچھ چیزیں موجود ہیں جنہیں اخطا یا عثرات یا تناقضات سے تعبیر کیا گیا ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کے اس قسم کے کلام میں کہ جس میں وہ ایک ہی روایت کے بارے دو مختلف قسم کے حکم لگا رہے ہوتے ہیں، دو قسم کے رویے دیکھے گئے ہیں:
ایک رویہ تو ان کے مخالفین کا ہے جیسا کہ حسن بن علی سقاف نے ’تناقضات الالبانی الواضحات‘ کے نام سے ان کی ایسی تمام روایات جمع کر دی ہیں جن میں بظاہر تناقض ہے۔ دوسرا رویہ جسے علامہ رحمہ اللہ کے شاگردوں اور متبعین نے اختیار کیا ہے کہ وہ اس قسم کے اختلافات کی ہر ایسی ممکن توجیہ کرتے ہیں کہ جس سے ان کے بیانات میں جمع ممکن ہو سکے جیسا کہ عبد اللہ بن فہد الخلیفی کی کتاب ’التوفیق الربانی فی الذب عن العلامۃ الالبانی‘ ہے۔
میرے خیال میں دوسرا رویہ بہتر ہے بشرطیکہ اس میں غلو نہ ہو یعنی بعض اوقات معاملہ یہ ہوتا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے شروع میں ایک سند پر اپنی معلومات کے مطابق حکم لگا دیا، بعد میں ان کی معلومات اپ ڈیٹ ہو گئیں تو حکم بھی بدل گیا۔ اسے ہم اپنی زبان میں رجوع کہتے ہیں۔ پس جہاں محسوس ہوتا ہو کہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے آخری حکم کا پہلے حکم کے ساتھ جمع ممکن نہیں ہے تو وہاں رجوع کا قول اختیار کرنا چاہیے اور جمع میں تکلف درست نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں ہے۔ اس بارے 'تراجعات الشیخ الالبانی فی بعض أحکامہ الحدیثیۃ' ایک اچھا کتابچہ ہے۔
مذکورہ بالا روایت کے بارے علامہ البانی رحمہا اللہ کے متفرق اقوال دیکھنے کے بعد راقم کو محسوس ہوتا ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کی تضعیف سے تصحیح کی طرف رجوع کر لیا تھا اور اپنے قول سے رجوع کرنا کوئی عیب نہیں ہے۔ ائمہ اربعہ بلکہ خلفائے راشدین تک علم میں اضافہ کے ساتھ اپنے سابقہ اقوال سے رجوع کر لیا کرتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب