سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(118) نماز جنازہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟

  • 4308
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 8690

سوال

(118) نماز جنازہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ کا مسنون طریقہ کیا ہے، اور مرد و عورت کے جنازہ کی نماز میں کیافرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سب سے پہلے میت کو نہلا دھلا کر کفن پہنا کر کسی مناسب جگہ چارپائی وغیرہ پر لٹا دیا جائے، کہ سرہانہ اُتر اور پائیتی دکھن اور منہ قبلہ کی طرف ہو، پھر امام میت کو اپنے آگے قبلہ کی طرف رکھ کر کھڑا ہو جائے، اور امام کے پیچھے سب لوگ صف باندھ کر کھڑے ہوں، اگر آدمی زیادہ ہوں، تو تین، پانچ یا سات طاق صفیں بنانا بہتر ہے، اگر میت مرد ہے، تو امام اس کے سر کے مقابلہ میں کھڑا ہو، اور اگر عورت ہے، تو اس کی کمر کے مقابلہ میں کھڑا ہو، الغرض سب قبلہ کی طرف منہ کر کے صفیں خوب درست کر کے کھڑے ہو جائیں، اور اپنے دل میں جنازہ کی نماز کی اس طرح نیت کریں، کہ میں اللہ تعالیٰ کے لے نماز اس متی کی بخشش کے واسطے ادا کرتا ہوں، پھر امام زور سے اور مقتدی آہستہ سے تکبیر کہہ کر دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھا کر سینہ کے اوپر باندھ لیں، پھر وہی دعا آہستہ پڑھیں، جو ہر نماز کی تکبیر تحریمہ کے بعد پڑھتے ہیں، پھر اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھ کر امام سورۃ فاتحہ کو آواز سے پڑھے، مقتدی الحمد کے بعد کوئی دوسری سورت نہ پڑھیں، جب اس قرأۃ سے فارغ ہو جائیں، تو امام آواز سے اور مقتدی آہستہ سے تکبیر کہہ کر دونوں ہاتھ کو کندھوں تک اٹھ اکر پھر سینہ پر باندھ لیں امام آواز سے اور مقتدی آہستہ سے اصلی درود شریف پڑھ جو اور نمازوں میں پڑھتے ہیں، پھر تیسری تکبیر کہہ کر رفع یدین کر کے ہاتھوں کو سینہ پر باندھ لیں، امام آواز سے اور مقتدی آہستہ آہستہ ان دعائوں کو جو نیچے لکھیں ہیں پڑھیں۔

((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِحَیَّنَا وَمَیَّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَغَائَبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاَیْمَانِِ اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنَا اَجْرَہٗ وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَہٗ))

’’رواہ احمد و ابو داؤد: اے اللہ! تو ہمارے زندوں اور مردوں اور حاضروں اور غائبوں اور چھوٹوں اور بڑوں اور مردوں اور عورتوں کو بخش دے، الٰہی ہم میں سے جسے تو زندہ رکھے، تو اسے اسلام پر زندہ رکھیو، اور جسے وفات دے تو اسے ایمان پر ماریو، اے اللہ تو اس کے ثواب سے ہم کو محروم نہ رکھیو، اور اس کے پیچھے ہم کو فتنہ میں نہ ڈالیں۔‘‘

 اور اسی طرح بہت سی دعائیں ہیں، ان دعاؤں کو پڑھ کر سلام پھیر لینا چاہیے، اب ہر ایک کی دلیل سنئے، جنازہ کی نماز میں بھی سورہ فاتحہ کا پڑھنا فرض ہے، جیسے اور نمازوں میں ہے، اس سلسلہ میں چند حدیثیں مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱) ((وَعَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یُکَبِّرُ عَلٰی جِنَائِزِنَا اَرْبَعًا وَیَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فِی التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلٰی)) (راوہ الحاکم فی المستدرک والامام الشافعی فی کتاب الام)

’’یعنی حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔‘‘

(۲) ((وَعَنْ اُمِّ شَرِیْکِ الْاَنْصَارِیَّہِ قَالَتْ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَنْ نَقْرَأَ عَلَی الْجَنَازَۃِ بِفاتحۃ الْکِتَابِ))(رواہ ابن ماجہ)

’’یعنی ام شریک انصاریہ فرماتی ہیں، کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جنازہ پر سورہ فاتحہ پڑھیں۔‘‘

(۳) ((وَعَنْ اُمِّ عَفِیْفٍ قَالَتْ بَایَعْنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ حِیْنَ بَایَعَ النِّسَائَ فَاَخَذَ عَلَیْہِ مِنْ اَنْ لَّا یُحَدِّثْنَ الرَّجُلَ اِلَّا مَحْرَمًا وَاَمَرَنَا اَںْ نَقْرَأَ مَیِّتِنَا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))

’’(رواہ الطبرانی فی الکبیر) یعنی ام عفیف نہدیہ فرماتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی، جبکہ آپ نے عورتوں سے بیعت لی تھی، تو آپ نے ان عورتوں سے بیعت میں عہد لیا تھا، کہ تم غیر مردوں سے باتیں چیتیں نہ کیا کرنا، او رہمیں حکم فرمایا تھا کہ ہم جنازو ں کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھیں۔‘‘

(۴) ((وَعَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ عَلَی الْجَنَازَۃِ فَاقْرَأُوْا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ))

(راوہ االطبرانی)

’’یعنی اسماء بنت یزید بن السکن خطیبۃ النساء فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ پر فرمایا سورہ فاتحہ پڑھو۔‘‘

(۵) ((وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ اُتِیَ بِجَنَازَۃِ جَابِرِبْنِ عَتِیْکَ اَوْ قَالَ سَھْلِ بْنِ عَتِیْکٍ وَکَانَ اَوَّلُ مَنْ صَلّی عَلَیْہِ فِیْ مَوْضِعِ الْجَنَازَۃِ فَتَقَدَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَکَبَّرَ فَقَرَأَ بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ فَجَھَرَ بِھَا ثُمَّ کَبَّرَ الثَّانِیَۃِ فَصَلَّی عَلٰی نَفْسِہٖ وَعَلٰی الْمُرْسَلِیْنَ ثُمَّ کَبَّرَ الثَّالِثَۃَ فَدَعَائِ لِلْمَیِّتِ))

’’یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جابر بن عتیک یا سہل بن عتیک (شک کا راوی ہے) کا جنازہ آپ ﷺ کے سامنے لایا گیا، سب سے پہلا یہی جنازہ تھا، جو مخصوص جنازہ پڑھنے کی جگہ میں پڑھا گیا، سو آپ ﷺ آگے بڑھے، اور تکبیر کہی، اور اپنی ذات اور مرسلین دیگر پر درود پڑھا، پھر تیسری تکبیر کہی اور میت کے لیے دعا کی۔‘‘

(الحدیث: رواہ طبرانی فی الاوسط)

یہ تو ہوئیں، صریح مرفوع روایتیں جنازہ پر سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بارے میں، اب ہم وہ روایتیں ذکر کرتے ہیں، جن میں صحابہ نے تورعاً، آنحضرت ﷺ کا نام نہیں ذکر کیا، اور وہ روایتیں مرفوع ہیں، دیکھو صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قرأۃ فاتحہ الکتاب علی الجنازۃ

(۶) ((عَنْ طَلْحَۃَ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَوْفِ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ بْنَ عَبَّاسِ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَقَرَأَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ قَالَ لِتَعْلَمُوْا اَنَّھَا سُنَّۃٌ))(ترمذی)

’’یعنی طلحہ بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورہ فاتحہ بھی پڑھی، بندہ کے دریافت کرنے پر فرمایا کہ تم جانو کہ یہ سنت ہے۔‘‘

(۷) ((عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ بْنِ سَھْلِ بْنِ حَنِیْفٍ وَکَانَ مِنْ کُبَرَاِ الْاَنْصَارِ وَعُلَمَائِ ھِمْ وَاَبْنَائِ الَّذِیْنَ شَھِدُوْ بَدْرًا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہُ ﷺ اَنَّ رَجُلَاً مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیْ ﷺ اَخْبَرَہٗ اَنَّ السُّنَّۃَ فِی الصَّلٰوۃ عَلَی الْجَنَازَۃِ اَنْ یُّکَبَِرّ الْاِمَامُ ثُمَّ یَقْرَأُ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ اخرجہ الطبرانی فی معانیہ الاٰثار والشافعی فی الام وسندہ صحیح البیہقی))

’’یعنی ابو امامہ بن سعد بن سہل بن حنیف جو کہ انصار کے بڑوں میں سے ہیں، اور ان کے علماء میں سے ہیں، اور بدریوں کے فرزند انہیں کئی بار نبی اکرم ﷺ کے اصحابہ نے بتایا کہ نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے۔‘‘

(۸) ((عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ بْنِ سَھْلُ حَلِیْفٍِ یُحَدِّثُ سَعِیْدِ بْنَ الْمُسَیِّبِ قَالَ السُّنَّۃَ فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی الْجَنَازَۃِ اَنْ تُکَبَرَ ثُمَّ تُقْرَأُ بِاَمِّ الْقُرْاٰنِ ثُمَّ یُصَلَّی عَلَی النَّبِیْ ﷺ ثُمَّ تُخْلِصُ الدُّعَائِ لِلْمَیَّتِ وَلَا تَقْرَأُ اِلَّا فِی التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلٰی اخرجہ ابن الجارود فی المنتقی ص ۲۶۵))

’’یعنی ابو امامہ مذکور نے سعید بن المسیب سے کہا کہ جنازہ کی نماز میں سنت یہ ہے کہ تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، پھر خالص دعا کرے، قرأت صرف پہلی تکبیر میں کرے، صحابی جب ((من السنۃ)) کہے تو وہ حدیث بھی مرفوع ہی ہوتی ہے، تمام محدثین کے نزدیک اب چند آثار صحابہ رضی اللہ عنہ ملاحظہ فرمائیں۔‘‘

(۹) ((وَعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّبَّاقِ قَالَ صَلّٰی بِنَا سَھْلُ بْنُ حَنِیْفٍ عَلٰی جَنَازَۃٍ فَلَمَّا کَبَّرَ تَکْبِیْرَۃَ الْاُوْلٰی قَرَأَ بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ حَتّٰی اسْمَعَ مَنْ خَلَفَہٗ))

(اخرجہ البیہقی فی السنن ص ۳۹ ج ۴ والدارقطنی ص ۱۹۱ ج۱ و ابن ابی شیبہ فی المصنف فی الجزء الرابع ص ۱۱۳)

’’یعنی عبد اللہ بن سباق فرماتے ہیں، کہ سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں ایک جنازہ کی نماز پڑھائی، پہلی تکبیر کہی تو سورہ فاتحہ پڑھی، اس طرح کہ مقتدیوں کو بھی سنایا۔‘‘

(۱۰) ((رَوٰی بْنُ شَیْبَۃَ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اَنَّہٗ قَرَأَ عَلَی الْجَنَازَۃِ بِالْفَاتِحَۃِ کذا فی المحلی للشیخ سلام اللّٰہ الدھلوی والمحلی لابن حزم ص ۱۲۹ ج د والبیہقی ص ۳۹ وابن المنذور وسعید بن منصور))

’’یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھی۔‘‘

(۱۱) ((اِنَّ الْمِسْوَرَبْنَ مَخْرَمَۃَ صَلّٰی عَلٰی جَنَازَۃٍ فَقَرأَ فِیْ التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلٰی فَاتِحَۃَ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃً قَصِیْرَۃُ وَرَفَعَ بِھِِمَا صَوْتَہٗ))

(اخرجہ بن حزم فی المحلی ص ۱۲۹ ج ۵)

’’یعنی مسور بن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز پڑھی، ایک جنازہ پر پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ اور ایک چھوٹی سورہ پڑھی اُونچی آواز سے۔‘‘

(۱۲) ((عَنْ عَبْدِ بْنِ عَمْرِوْ بْنِ الْعَاصَ اَنَّہٗ کَانَ یَقْرَأُ بِاُمِّ الْقُرْاٰنِ بَعْدَ التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلٰی عَلَی الْجَنَازَۃَ اَخْرَجَہٗ اِمَامُ الشَّافِعِی فِی الْاُمَ وَبَلغَنَا ذٰلِکَ عَنْ اَبِیْ بَکر الصَّدِیْق وَسَھْل بن حنیف وغَیْر ھَما مِنْ اصحَابِ النَّبِیْ ﷺ))

’’یعنی عبد اللہ بن عمرو بن العاص تکبیر اولیٰ کے بعد جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح آیا ہے۔‘‘

(ب) ((عُمَرَ لَا یُصَلِّیْ اِلَّا طَاھِرًا وَلَا یُصَلِّیْ عِنْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَلَا عُرُوْبِھَا وَیَرْفَعُ یَدَیْہِ (قَوْلُہٗ یَرْفَعُ یَدَیْہِ) وصلہ البخاری فی کتاب رفع الیدین المفرد من طریق عبید اللّٰہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر انہ کان یرفع فی کل تکبیرۃ علی الجنازۃ وقد روی مرفوعاً اخرجہ الطبرانی فی الاوسط من وجہ اٰخر عن نافع عن ابن عمر باسناد ضعیف))

فتح الباری جلد نمبر ۳ ص ۱۳۸ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جنازہ کی ہر تکبیر میں رفع کرتے تھے، اور رسول اللہ ﷺ سے بھی اس طرح مروی ہے، مگر وہ روایت کمزور (؎۱) ہے۔

(؎۱)      ضعیف حدیث کی تائید اقوال صحابہ یا تعامل امت سے ہو تو اس میں تقویت آ جاتی ہے جیسا کہ اصول حدیث میں مذکور ہے۔ (سعیدی)

(ج)     میت اگر مرد ہے، تو اس کے سر کے مقابلہ میں کھڑا ہونا مستحب ہے، اگر میت عورت ہے، تو اس کے درمیان کے مقابلہ میں کھڑا ہونا سنت ہے، منتقی میں ہے، حضرت حمزہ فرماتے ہیں۔

(۱) ((صَلَّیْتُ وَرَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فِی الصَّلٰوۃِ ﷺ وَسْطَہَا رواہ الجماعۃ))

(۲) ((وَعَنْ اَبِیْ غَالِبِ الْحَنَّاطِ قَالَ شَھِدْتُّ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ صَلّٰی عَلٰٰی جَنَازَۃٍ رَجُلٍ فَقَامَ عِنْدَ رَأٔسِہٖ فَلَمَّا رُفِعَتْ اُتِیْ بِجَنَازَۃِ امْرَأَۃٍ فَصَلّٰی عَلَیْھَا فَقَامَ وَسْطَھَا وَفِیْنَا الْعَلَائُ ابْنُ زِیَادِ الْعَلَوِیُّ فَلَمَّا رأی اِخْتِلَافَ قِیَامِہٖ عَلَی الرَّجُلِ وَالْمَرْأَۃِ قَالَ یَا اَبَا ھَمْزَۃَ ھٰکَذَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْمُ مِنَ الرَّجُلِ حَیْثُ قُمْتَ وَمِنَ الْمَرْأَۃِ حَیْثُ قُمْتَ قَال نَعَمْ)) (رواہ احمد)

تو عورت اور مرد کی نماز میں صرف یہ فرق ہے، او ردعائوں میں جو مرد کے لیے الفاظ ہیں، وہی عورت کے لیے ہیں۔ لیکن ((اَللّٰھُمَّ ھٰذَا عَبْدُکَ)) کی جگہ ((اَمَتُکَ)) کہے تو بھی جائز ہے، چنانچہ علامہ نووی کتاب الاذکار ص ۲۰۲ میں فرماتے ہیں، وہاں عورت کے لیے ((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَھَا)) کہنا چاہیے، اور ابو داؤد معہ شرح عون المعبود جلد نمبر ۳ ص ۱۸۸ میں یہ دعا منقول ہے، جس میں لفظ ((ھا)) باعتبار جنازہ اور میت مؤنت کے ہو سکتاہے۔ دعا یہ ہے۔

((اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبُّھَا وَاَنْتَ خََلَقتَھَا وَاَنْتَ ھَدَیْتَھَا لِلْاِسْلَامِ وَاَنْتَ قَبَضْتَ رُوْحَھَا وَاَنْتَ اَعْلَمُ بِسِرٍّھَا وَعَلَانِیَتِھَا جِئَٔنَا شُفَعَائَ فَاغْفِرْلَہٗ))

اور بعض روایتوں میں ((فَاغْفِرْلَھَا)) ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

(اہل حدیث دہلی جلد نمبر ۹ شمارہ نمبر ۲۴)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 208-213

محدث فتویٰ

تبصرے