ہمارے ہاں ایک مولوی صاحب نے نماز جنازہ پر مقتدیوںکو ہر دعائیہ فقرہ پر آمین کہنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ عام لوگوں کو دعا نہیں آتی، اس لے آمین کہنے سے و ہ دعا میں شریک ہو جاتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ فتح الباری میں تین مقامات پر دعا جنازہ میں آمین کہنے کا ثبوت ہے، الاعتصام میں اس پر روشنی ڈالی جائے۔
نماز جنازہ کی دعاؤں پر مقتدیوں کے آمین کہنے کا ثبوت، جہاں تک راقم کو معلوم ہے، آنحضرت ﷺ، اور عہد صحابہ و تابعین سے نہیں ملتا، بنا بریں اس امر کو خلاف سنت کہا جائے گا، فتح الباری میں راقم کو اس کا ذکر نہیں مل سکا۔ ((بحکم طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم)) (مشکوٰۃ)نماز جنازہ کا پورا طریقہ سیکھنا عام لوگوں کے لیے ضروری ہے، ایسی مصلحتوں کے لیے عمومات سے استدلال بدعات کے ایجاد کی گنجائش پیدا کرتا ہے، کیونکہ بدعات کی ابتداء کسی دینی مصلحت کے وسوسے سے ہوتی ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی بے نظر کتاب اقتفاء الصراط المستقیم صفحہ نمبر ۲۷۰ میں لکھتے ہیں۔
((ان کل ما یبدیہ المحدث لھذا من المصلخۃ او یستدل بہ من الادلۃ قد کان ثابتاً علی عہد رسول اللّٰہ ﷺ ومع ھذا لم یفعلہ رسول اللہ ﷺ فھذا الترک سنۃ خاصۃ مقدمۃ علی کل عموم وقیاص الخ))
اہل حدیث کو خصوصاً اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ہذا ماعندی واللہ اعلم (ع ج)
(الاعتصام جلد نمبر ۲۱ شمارہ نمبر ۹)
… نماز کے اندر جو قنوت کی شکل میں دعائیں پڑھی جاتی ہیں، خواہ قنوت نازلہ ہو، قنوت وتر یا قنوت فجر مومنین کے حق میں دعا ہو یا کفار کے لیے بدعا ہو، سب ہی میں امام دُعا پڑھتا ہے، اور تمام مقتدی آمین آمین کہتے ہیں کہ یا الٰہی جو کچھ ہمارے امام نے آپ سے مطالبہ کیا ہے، اس کو پورا کر دے، یہی صورت شکل، نماز جنازہ کی ہے، کہ امام مع مقتدیوں کے نحن شفعاء وغیرہ جمع کا صیغہ استعمال کرتا ہو، اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے، کہ یا الہی کہ ہم سب ہی امام اور مقتدی متی کے لیے شفارشی ہو کہ تیرے دربار میں حاضر ہوئے، یا الہی ہمارے شفارش قبول فرما، اور مقتدی امام کے مطالبہ کی تائید کرتے ہوئے آمین کہتے ہیں، اور اگر امام اور مقتدی دونوں پڑھیں، تو مالی انازع القرأن والی صورت شکل بن جائے گی، جو خشوع او خضوع کے منافی ہے، باقی رہا یہ سوا ل کہ عہد رسالت مآب ﷺ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے زمانہ میں اس کا ذکر نہیں، لہٰذا یہ خلاف سنت اور بدعت ہے، جواب یہ ہے کہ عدم ذکر، عدم جواز کے لیے مستلزم نہیں ہوتا، بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کا ذکر خیر القرون یا حدیث میں نہیں ہے، صرف عموم اولہ یا تعامل امت کی وہ سے اس کو کیا جاتا ہے، جو خلاف سنت بھی نہیں،اور بدعت بھی نہیں جیسا کہ رکوع کے بعد ہاتھوں کی کیفیت مجہول ہے کہ رکوع سے اٹھ کر ہاتھ کہاں رکھے جائیں، خلافت راشدہ اور زمانہ خیر القرون رکوع کے بعد ہاتھوں کی کیفیت سے خالی ہے، حالانکہ محدثین نے ہر مسئلے پر باب باندھا ہے، لیکن ہاتھوں کی کیفیت بعد از رکوع کے لیے نہ بخاری رحمہ اللہ اور مسلم رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے، اور نہ دیگر محدثین نے تبویب فرمائی، ہر قائل اور فاعل نے عمومات اولہ یا تعامل امت کے پیش نظر اپنا اپنا پہلو اختیار کیا، رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والے بھی تعامل امت کے پیش نظر اپنا اپنا پہلو اختیار کیا، رکوع کے بعد ہاتھ باندھنے والے بھی تعامل امت (اگرچہ قلیل) اور استنباطی دلائل موجود ہیں، اور ارسال الیدین کرنے والوں کے پاس بھی استنباطی دلائل اور جم غفیر امت کا تعامل موجود ہے، ہم نے اپنے اساتذہ کو یوں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، اور انہوں نے اپنے اساتذہ کو دیکھا، حتی کہ محدثین کی کثیر جماعت کے ذریعہ یہ سلسلہ جم کثیر اسانیہ کے ساتھ تابعین اور صحابہ کرام سے ہوتا ہوا نبی ﷺ تک جا پہنچا۔ ((صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ اُصَلِّیْ)) کے مطابق باسند حدیث سے ثابت ہو گیا، پھر اس کو بدعت یا خلاف سنت کہنا بہت بڑی جسارت ہے، حال تعامل امت کا وہ پہلو جس کا سلسلہ محققین محدثین کے ذریعہ صحابہ کرام اور خیر القرون تک نہ پہنچے، بلکہ بادلائل تاریخی لحاظ سے زمانہ خیر القرون کے بعد اس کا ایجاد ہونا ثابت ہو، تو وہ تعامل امت حجت نہیں ہو گا، بلکہ بدعت ہی ہو گا۔ جیسا کہ تیجا، ساتواں چہلم وغیرہ رسومات پر تعامل امت ہے، اور میت کے لیے صدقہ خیرات کرنے پر قرآن اور حدیث کے عمومات دال ہیں، لیکن امت کا یہ تعامل راستہ میں مفقود اور گم ہوتا ہے، جس سلسلہ خیر القرون تک نہیں جاتا، حالانکہ خیر القرون میں بھی اموات کثیرہ ہوتے رہے تا تاریخی لحاظ سے اس کا تعلق جستجو کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ تعامل ہندوستان کے ہندوؤں اور برہمنوں سے لیا گیا، اس سلسلہ کی تحقیق کے لیے مولانا عبید اللہ رحمہ اللہ صاحب کی مشہور کتاب تحفۃ الہند مفید رہے گی، اور مفتی صاحب نے جو امام تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب اعتقاد الصراط سے عبارت نقل کی ہے، اس تعلق بھی آخری صورت کے ساتھ ہے، ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب وعندہ علم الکتاب۔
(حررہ العاجز الفقیر الی اللہ ابو الحسنات، علی محمد سعیدی جامعیہ سعیدیہ خانیوال، پاکستان ۹۵/۳۔۱۸ مطابق ۱۹۷۵ء ۷۵/۵۔۱)