سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(111) نماز جنازہ میں درود شریف کا پڑھنا فرض ہے، یا نہیں؟

  • 4301
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 4143

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ میں درود شریف کا پڑھنا فرض ہے، یا نہیں آیا درود شریف نہ پڑھنے سے نماز جنازہ ہو جاتی ہے، یا نہیں، اگر نہیں ہوتی تو کسی معتبر حدیث کی کتاب کا حوالہ دیا جائے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازہ کی نماز میں درود شریف پڑھنے کا ذکر حدیث شریف سے ثابت ہے، جس کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی قائل و فاعل تھے۔

(الف)            امام بیہقی رحمہ اللہ نے سنن الکبریٰ جلد نمبر ۴ ص نمبر ۴ میں باب الصلوۃ علی النبی ﷺ فی صلوٰۃ الجنازۃ کے تحت حضرت ابو امامۃ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ذکر کی ہے۔

((اخرجہ رجال من اصحاب النبی ﷺ فی الصلوۃ علی الجنازۃ ان یکبر الامام ثم یصلی علی النبی ﷺ)) (الحدیث)

یہی روایت امام بیہقی رحمہ اللہ نے باب القرأۃ فی صلوٰۃ الجنازۃ، میں حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی سند سے ذکر فرمائی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں۔

((ان السنۃ فی الصلٰوۃ علی الجنازۃ ان یکبر الامام ثم بقرأ بفاتحہ الکتاب بعد التکبیرۃ الاولیٰ سِرًّا فی نفسہ ثم یصلی علی النبی ﷺ))الحدیث

متقی ابن الجارود ص نمبر ۲۶۵ طبع ہند میں اسی روایت کے الفاظ یہ ہیں۔

((السنۃ فی الصلوۃ علی الجنازۃ ان یکبر ثم یقرأ بام القراٰن ثم یصلی علی النبی ﷺ ثم یخلص الدعاء للمیت وَلا یقرأ الا فی التکبیرۃ الاولٰی))

اس آخری روایت کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ التلخیص الجیر ص نمبر ۱۶۱ طبع دہلی میں لکھتے ہیں، ((رجال ھذا الاسناد مخرج لہم فی الصحیحین)) نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اسناد صحیح (فتح الباری)صفحہ نمبر ۶۹۰ ج۱ مام حاکم رحمہ اللہ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو صحیھ قرار دیتے ہیں۔ (مستدرک) صفحہ ۳۶۰ ج۱) حافظ ابن القیم رحمہ اللہ جلد االفہام صفحہ نمبر ۳۰۶ میں فرماتے ہیں، وابوا مامہ صحابی صغیر رواہ عن صحابی آکر کما ذکر الشافعی رحمہ اللہ۔

(ب)              صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت نے صراحت کے ساتھ نماز جنازہ میں درود شریف کا ذکر کیا ہے، مثلاً حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نماز جنازہ کی کیفیت میں درود شریف کا پڑھنا بھی بتلایا۔ (سنن بیہقی صفحہ نمبر ۴۱ج۴ وزاد المعاد صفحہ نمبر ۱۴۱ ج۱ وغیرہ، یہی معمول حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا تھا (مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ نمبر ۲۹۵ ج۳ طبع ہند حیدرآباد دکن) حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا معمول مؤطا امام مالک کے نسخہ یحییٰ بن بکیر میں بھی ہے، جلاء الافہام صفحہ نمبر ۳۰۴ ایسے ہی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔ ((کتاب فضل الصلوٰۃ علی النبی ﷺ لا سمٰعیل القاضی ص ۸ طبع دمشق))

نیز حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ((اَلْقَوْل البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع للحافظ السخاوی ص ۱۵۳ وجلا الافھام ص ۳۰۳)) حضرت ابن عباس رضٰ اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ((قال کذا ینبغی ان یکون الصلوۃ علی الجنازۃ (مغنی ابن قدامہ ص ۳۷۰ ج۲)) ’’یعنی نماز جنازہ ایسے ہی ہونی چاہیے۔‘‘تابعین کے آثار بھی اس بارے میں مروی ہیں جو کتاب ((فضل الصلوٰۃ علی النبی ﷺ از قاضی اسمٰعیل)) اور ((انقول البَدیع)) وغیرہ میں موجود ہیں۔

(ج)              حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف کے مشروع ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔

((الموطن الرابع من مواطن الصلوۃ علیہ ﷺ صلوٰۃ الجنازۃ بعد التکبیرۃ الثانیۃ لا خلاف فی مشروعیتھا الخ))(جلاء الافہام ص ۳۰۱)

حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں، نماز جنازہ میں درود کے وجوب، عدم وجوب میں اختلافف ہے، امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک (ان کے مشہور مذہب کی بنا پر) امام و مقتدی دونوں کے لیے ضروری ہے، نہ پڑھنے سے نماز نہیں ہو گی۔

((واختلف فی توقف الصلوٰۃ علھا فقال الشافعی رحمہ اللہ واحمد رحمہ اللہ فی المشہور من مذھبھما انھا واجبۃ فی الصلوٰۃ یعنی علی الامام والمأموم لا یصح الا بھا وھو مووی عن جماعۃ من الصحابۃ۔وقال مالک رحمہ اللہ وابو حنیفہ رحمہ اللہ لیس بواجبۃ انتہی ملخصاً)) (القول البدیع ص ۱۵۱)

حافظ ابن حزم بھی اس کی مشروعیت کے قائل ہیں۔ (المحلی) البتہ امام مالک رحمہ اللہ و ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے ہاں واجب نہیں، حافظ ابن قیم رحمہ اللہ زاد المعاد صفحہ ۱۴۱ ج۱ میں لکھتے ہیں۔

((وذکر ابو امامۃ بن سہل من جماعۃ عن الصحابۃ علی النبی ﷺ فی الصلوۃ علی الجنازۃ))

اور جلاء الافہام صفحہ ۳۰۵ میں لکھتے ہیں۔

((فالمستحب ان یصلی علیہ ﷺ فی الجنازۃ کما یصلی علیہ فی التشھد انتہی))

مولانا عبد الرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ کے الفاظ میں خلاصہ ی ہے کہ پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ پڑھنے، اور دوسری میں درود شریف اور تیسری میں دعا اور چوتھی کے بعد سلام پھیرنے کا ثبوت یہ ہے، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز جنازہ میں سنت کہ سورہ فاتحہ پڑھے، اور رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھے، پھر سلام پھیرے، (کتاب الجنائز)

(الاعتصام جلد نمبر ۲۱ شمارہ نمبر ۷) (حضرت مولیٰنا عطاء اللہ صاحب حنیف بھوجیانی لاہور)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 188-191

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ