سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) نماز جنازہ میں بعد تکبیر اولیٰ کے سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں۔

  • 4293
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1149

سوال

(103) نماز جنازہ میں بعد تکبیر اولیٰ کے سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں۔
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ میں بعد تکبیر اولیٰ کے سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حسن شرنبلالی نے ص ۲۰۳ حاشیہ درر میں لکھا ہے۔

((قولہ لا قرأۃ فیھا الخ وقال فی (؎۱) الو لوالجیۃ ان قرأ الفاتحۃ بنیۃ الدعاء لا بَأسَ بِہٖ واَن قرأھا بنیۃ القرأۃِ لَا یَجُووزُ اٰہ اقول نفی الجواز فیہ تأمل لِاَنَّا رَأَیْنَا فی کثیر من مَوَاضع الخلاف استحباب رِعَایتہ کاعادہ الوضوء من مس الذکر والمرأۃ فیکون رعایت صحت الصلوۃ بقرأۃ الفاتحۃ علی قصد القراٰن کذالک بل اولیٰ لان الامام الشافعی رحمہ اللہ یفرضھا فی الجنازہ فتأمل))

’’والوالجیہ میں لکھا ہے کہ سورہ فاتحہ بہ نیت دعا کے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور اگر اس کو پڑھے گا، بہ نیت قرأۃ کے جائز نہ ہو گا۔ الخ۔ میں کہتا ہوں کہ جوز کی نفی میں تامل ہے، ہم نے خلاف کے بہت سے مقامات میں خلاف کی رعایت کو مستحب دیکھا ہے، جیسا کہ اعادہ وضو ذکر اور عورت کے چھونے سے پس روایت صحت نماز کی سورۃ فاتحہ پڑھنے میں اوپر قصداً قرأن کے اسی طرح ہو گا بلکہ بہتر ہو گا، اس لیے کہ امام شافعی فرض کہتے ہیں، سورۃ فاتحہ پڑھنے کو نماز جنازہ میں پس تامل کر۔ ۱۲۔‘‘

عمدۃ الرعایہ میں ہے۔

((قولہ خلاف فاللشافعی فان عندہ یقرأ الفاتحۃ بعد التکبیرۃ الاولیٰ وھو الا قویٰ دلیلا وھو الذی اختارہ الشر نبلالی من اصحابنا والف فیہ رسالۃ))

’’یہ خلاف امام شافعی کے اس واسطے کے پڑھنا چاہیے، سورہ فاتحہ ان کے نزدیک بعد تکبیر اولیٰ کے اور قوی تر ہے، ازروئے دلیل کے اور یہ وہ ہی ہے، جس کو اختیار کیا ہے، شر نبلالی نے ہمارے اصحاب سے اور تالیف کیا ہے رسالہ۔۱۲۔‘‘

اور تعلیق المجمد میں ہے۔

((قالوا لو قرأھَا بنیۃ الدعاء لا باس بہ ویحتمل ان یکون نفیا للزومہ فلا یکون فیہ نفی الجواز والیہ مال حسن الشر نبلالی من متاخری اصحابنا حیث صنّف رسالۃ سما ھا بالنظم المستطاب بحکم القرأۃ فی صلوۃ الجنازۃ بام الکتاب ورد فیھا علی من ذکر الکراھۃ بلا لائل شافیۃ وھذا ھو اولٰی لثبوت ذلک رسول اللہ ﷺ واصحابہ الخ))

’’کہا فقہا نے اگرچہ پڑھا سورہ فاتحہ کو بہ نیت دعاء کے تو مضائقہ نہیں، اور احتمال رکھتا ہے یہ کہ اس واسطے لزوم اس کے پس نہ ہو گی، اس میں فی نجواز کی اور اس کی طرف میلان کہا ہے، حسن شر نبلالی نے متاخرین اصحاب ہمارے سے چنانچہ تصنیف کیا، شرنبلالی نے ایک رسالہ نام رکھا، اس کا نظم المستطاب لحکم القرأۃ فی صلوٰۃ الجنازہ بام الکتاب ادرر کیا ہے، اس میں شخص پر جس نے ذکر کیا ہے، کراہت کو ساتھ دلیلوں شافعی کے اور یہ بہتر ہے، واسطے ثابت ہونے اس کے رسول اللہ ﷺ اور اصحاب رضی اللہ عنہ سے۔ ۱۲۔‘‘

قاضی محمد ثناء اللہ حنفی مجددی پانی پتی اپنے وصیت نامہ میں ارشاد فرماتے ہیں، وبعد تکبیر اولیٰ سورۃ فاتحہ ہم خوانند و بعد مردن من رسول دینوی مثل دہم و بستم وچہلم وششماہی و برسی ہیچ نکنند آہ (فتاویٰ مفید الاحناف صفحہ نمبر ۱۶)

 


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 182

محدث فتویٰ

تبصرے