اہل حدیث کا معمول ہے کہ اکثر ایک جنازہ متعدد بار پڑھتے ہیں، اور احناف اس سے انکار کرتے ہیں، بلکہ دوسری مرتبہ جنازہ پڑھنے سے روکتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ قرون ثلاثہ میں کسی شخص کا جنازہ دوسری دفعہ نہیں پڑھا گیا۔ اور حضور ﷺ کا جنازہ خلافت قائم ہونے کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پڑھا دیا، پھر کسی نے نہیں پڑھا، پس یہ دوبارہ جنازہ پڑھنا بدعت ہے لہٰذا بتایا جائے کہ حضور ﷺ کے زمانہ میں کسی کا جنازہ دو یا تین مرتبہ سامنے رکھ کر پڑھا گیا ہو، جیسا کہ آج کل اہل حدیث کا معمول ہے، کہ جو لوگ جنازہ سے رہ جاتے ہیں، وہ فوراً دوبارہ جنازہ پڑھ لیتے ہیں،نیز رسول اللہ ﷺ کا جنازہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد بھی کسی نے پڑھایا ہے یا نہیں؟
مشکوٰۃ شریف میں ہے۔
((عَنِ ابْنِ عَبََّاسٌ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ مَرَّ بِقَبْرِ دُفِنَ لَیْلًا فَقَالَ مَتٰی دُفِنَ ھٰذَا قَالُوْا الْبَارِحَۃَ قَالَ اَفَلَا اذَنْتُمُوْنِیْ قَالُوْا دَفنَاہُ فِیْ ظُلْمَۃِ اللَّیْلِ فَکَرِھْنَا اَنْ نُوْقَظَکَ فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَہٗ فَصَلّٰی عَلَیْہِ وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللّٰہ عنہ اَنَّ امْرَأَۃٌ سَوْدَائَ کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ اَوْ شَابٌ فَفَقَدَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَسَئَلَ عَنْھَا اَوْ عَنْہُ فَقَالُوْا مَاتَ قَالَ اَفَلَا کُنْتُمْ اٰذَنْتُمُوْنِیْ قَالَ فَکَاَنَّھُمْ صَغَّرُوْا اَمْرَھَا اَوْ اَمْرَہٗ فَقَالَ دُلُّوْنِیْ عَلٰی قَبْرِہٖ فَدَلُّوْہُ فَصَلَّی عَلَیْھَا ثُمَّ قَالَ اِنَّ ھٰذِہِ الْقُبُوْرَ مَمْلُوَّۃٌ ظُلْمَۃٌ عَلٰی اَھْلِہَا وَاِنَّ اللّٰہَ یُنَوِّرُھَا لَھُمْ بِصَلَاتِیْ عَلَیْھِمْ)) (متفق علیہ) ولفظہ لمسلم مشکوٰۃ باب المشی بالجنازۃ
’’یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک میت کی قبر کے پاس سے گذرے جو رات کو دفن کی گئی، آپ ﷺ نے دریافت کیا کہ یہ شخص کب دفن کیا گیا، صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا آج رات، فرمایا: مجھے کیوں نہ خبر دی، صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نے اس کو اندھیرے میں دفن کیاآپ کو جگانا مناسب نہ سمجھ، پس آپ کھڑے ہوئے اور ہم نے بھی آپ کے پیچھے صف باندھی، پس اس پر نماز پڑھی، اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک حبشیہ یا جوان مرد جو مسجد کو جھاڑ دیتا تھا، رسول اللہ ﷺ نے اس کو نہ پایا۔تو آپﷺ نے اس کی بابت پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ مر گیا ہے، فرمایا مجھے تم نے خبر کیوں نہ دی،ا بو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں لوگوں نے گویا اس کا معاملہ چھوٹا سمجھا، رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے اس کی قبر بتائو، انہوں نے قبر بتائی، تو آپ ﷺ قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کی، پھر فرمایا کہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں، میری نماز جنازہ پڑھنے سے خدا ان کو روشن کر دیتا ہے۔‘‘
اس قسم کی کئی روایتیں آئیں ہیں، جن میں قبر پر نماز جنازہ کا ذکر ہے، اور بعض روایتوں میں مہینہ کی مدت بھی آئی ہے، یعنی ایک ماہ بعد قبر پر نماز جنازہ پڑھا، (منتقی فتح الباری جلد نمبر ۵) پس جب قبر پر نماز جنازہ ثابت ہو گیا، تو جب میت قبر سے باہر ہو اس وقت بطریق اولیٰ ثابت ہو گیا، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کا خاصہ ہے، اور دلیل اس کی یہ پیش کرتے ہیں، کہ آپ ﷺ نے فرمایا میری نماز جنازہ پڑھنے سے خدا ان کی قبروں میں نور کر دیتا ہے، مگر یہ اُن لوگوں کی ڈبل غلطی ہے، یہ تو ایسا ہے، جیسے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ جس مسلمان کے جنازہ میں چالیس آدمی توحید والے شریک ہو جائیں،خداان کی سفارش ان کے حق میں قبول کرے گا (مشکوٰۃ باب المشی بالجنازۃ) تو کیا اس حدیث کا یہ مطلب ہے کہ چالیس سے کم جنازہ نہ پڑھیں، نیز زکوٰۃ کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ {خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً} ’’ا ن کے مالوں سے صدقہ لے۔‘‘ ((تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِھَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنَّ لَھُمْ)) ’’تاکہ اس صدقہ کے ذریعہ تو ان کا ظاہر و باطن پاک کرے، اوران کے لیے دعا کر بے شک تیری دعا ان کے لی تسلی ہے۔‘‘
تو کیا اس کا مطلب یہ ہے، کہ زکوٰۃ لینا آپ ﷺ ہی کا خاصہ ہے، کیونکہ آپ ﷺ کی دعا ان کے لیے تسلی ہے، کسی اور کی نہیں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جو لوگ زکوٰۃ کے منکر ہو گئے تھے، انہوں نے بھی یہی آیت پیش کر کے کہا تھا کہ زکوٰۃ کا حکم رسول اللہ ﷺ کی حیات تک تھا، اب نہیں، اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تلوار اٹھائی سو اس قسم کے دلائل سے خاصہ ثابت نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ کوئی واضح دلیل چاہیے، پھر رسول اللہ ﷺ کا خاصہ نہیں بلکہ عام ہے، اب رہا یہ استدلال کہ رسول اللہ ﷺ کا جنازہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد کس نے نہیں پڑھا۔ اول تو نہ پڑھنے سے یہ لازم آتا کہ دوبارہ جنازہ جائز نہیں، کیونکہ جنازہ فرض کفایہ ہے، جب کچھ لوگ پڑھ لیں تو قرض ذمہ سے اُتر گیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ دوبارہ منع ہے، جب مذکورہ بالا روایتوں سے دوبارہ ثابت ہو گیا، تو جو پڑھنا چاہے پڑھ سکتا ہے۔
دوسرے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے جنازہ پڑھانے کی روایت قابل استدلال نہیں، کیونکہ یہ روایت صحت کو نہیں پہنچی نیل الاوطار میں ہے، کہ اس میں اختلاف ہے کہ نبی ﷺ کے جنازہ میں امام کون بنا یا گیا، پس کہا جاتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ امام تھے، یہ روایت ایسی سند سے مروی ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ وہ صحیح نہیں، اور اس کی اسناد میں ایک راوی حرام ہے، جو بہت ضعیف ہیں اور اسناد بھی منقطع ہے، یعنی اسناد میں راوی گراہوا ہے، نیز دحیہ نے کہا ے کہ بات صحیح یہ ہے کہ مسلمانوں نے اکیلے اکیلے نماز جنازہ پڑھی، امام شافعی رحمہ اللہ نے یہی فیصلہ کیا ہے، یہ بھی کہا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر امام نہ بننے کی وجہ آپ کی عظمت اور بزرگی ہے، نیز ہر ایک اس چیز کی رنجت رکھتا تھا، اس لیے کسی ایک کو امام نہیں گیا، دحیہ کہتے ہیں کہ آپ پر تیس ہزار اشخاص نے نماز پڑھی، اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امامت کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ آپ ﷺ پر کسی نے امامت نہیں کرائی متقی میں ہے۔
((عن ابن عباس قال دخلا لناس علی رسول اللّٰہ ﷺ ارسالًا یصلون علیہ حتی اذا فرغوا ادخلوا النساء حتّٰی اذا فرغنا دخلوا الصبیان ولم یؤمن النّاس علی رسو اللّٰہ ﷺ عَلَیْہِ وسلم احد رواہ ابن ماجۃ))
’’یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر لوگ تھوڑے تھوڑے داخل ہوتے، اور نماز پڑھتے، جب مراد فارغ ہو گئے، تو انہوں نے عورتوں کو داخل کیا، جب عورتیں فارغ ہو گئیں، تو لڑکوں کو داخل کیا، اور رسول اللہ ﷺ پرکسی نے امامت نہیں کرائی۔‘‘
اس حدیث کو بیہقی رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی اسناد کو ضعیف کہا ہے، کیونکہ اس میں حسین بن عبد اللہ بن ضمیر راوی ضعیف ہے، نیل الاوطار میں ہے کہ اس بارہ میں مسند احمد میں بھی روایت ہے، ابی عُسیب کہتے ہیں، میں رسول اللہ ﷺ کے جنازہ کو حاضر ہوا، (آخر وقت) رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ آپ پر نماز جنازہ کس طرح پڑھیں، فرمایا تھوڑے تھوڑے داخل ہوں، اس طرح تلخیص میں ہے، جابر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے طبرانی میں بھی اس طرح مروی ہے، اس کی اسناد میں عبد المنعم بن ادریس ایک راوی ہے، جو کذاب ہے، اور بزار نے کہا ہے کہ حدیث موضوع ہے، اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مستدرک حاکم میں کمزور اسناد کے ساتھ،ا ور نبیط بن شریط سے بیہقی میں بھی (اسی طرح) مروی ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ نے اس کو بصیغہ بلغنی (مجھے پہنچا) ذکر کیا ہے، شمائل ترمذی میں ہے۔
((قالوا یا صاحب رسول اللّٰہ ﷺ ایصلّی علٰی رَسُوْل اللّٰہ ﷺ قال نعم قالوا وکیف قال یدخل قوم فیکبرون یصلون ویدعون ثم یخرجون حتی یدخل الناس ربَابُ مَا جَاء فی وفات رَسُول اللّٰہ ﷺ))
’’یعنی لوگوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کہا کیا، رسول اللہ ﷺ پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، فرمایا: ہاں! لوگوں نے کہا، کس طرح فرمایا: ایک قوم داخل ہو کر تکبیر کہیں نماز پڑھیں، دعا کریں، پھر نکل جائیں، یہاں تک کہ اس طرح سارے لوگ داخل ہوں۔‘‘
ملا علی قاری فرماتے ہیں، آپ پر کوئی امامت نہ کرائے، کیونکہ آپ حسین حیات اور حسین ممات دونوں حالتوں میں امام ہیں، اور بعض روایتوں میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس طرح وصیت کی، اور اسی وجہ سے کہ آپ ﷺ کے دفن میں تاخیر ہوئی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی قبر پر نماز جنازہ جائز نہیں، تاکہ یہ سلسلہ جاری ہو کر آپ کی پوجا تک نوبت نہ پہنچ جائے اور ایک روایت میں ہے کہ پہلے متفرق طور سے آپ ﷺ پر فرشتوں نے نماز جنازہ پڑھی، پھرپ کے اہل بیت نے پھر متفرق لوگوں نے پھر آخیر میں، امہات المؤمنین نے، شرح مواہب میں خصائص کے بیان میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اوپر کی روایتیں ذکر کر کے بعد لکھتے ہیں۔
((فکان الناس یدخل رسلاً فرسلاً فیصلون صفاً صفاً لسی لہم امام رواہ ابن سعد))
’’یعنی تھوڑے تھوڑے لوگ آپ پر داخل ہوتے، پس قطار باندھ کر بغیر امام کے نماز پڑھتے، روایت کیا اس کو ابن سعد نے۔‘‘
شیخ عبد الرؤف مناوی شرح شمائل میں لکھتے ہیں، جس اردو ترجمہ یہ ہے، یعنی حاکم نے مستدرک میں اور بزار نے روایت کیا ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اپنے اہل کو حضرت عائشہ رضی اللہ عن کے گھر جمع کیا،تو اہل نے کہا آپ پرکون جنازہ پڑھے گا، تو فرمایا جب تم مجھے غسل دے کر میرے چارپائی پر رکھو،تو اندر سے نکل جائو، کیونکہ پہلے مجھ پر جبرائیل نماز پڑھائیں گے، پھر میکائیل علیہ السلام پھر اسرافیل علیہ السلام پھر ملک الموت (عزرائیل) پھر تم فوج فوج داخل ہوؤ اور نماز پڑھو، اور سلام بھیجو، اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں، صرف عبد الملک مجہول ہے، اس قسم کی روایتیں بے شمار ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے جنازہ پر امامت نہیں ہوئی بلکہ ویسے ہی تھوڑے تھوڑے داخل ہو کر نماز جنازہ پڑھتے رہے، ان کا کوئی امام نہیں تھا، اگرچہ بعض روایتوں میں کچھ ضعف ہے، مگر کثرت طرق کی وجہ سے حسن کے درجہ کو پہنچ سکتی ہیں، بلکہ شمائل ترمذی حدیث اکیل ہی حسن کے درجہ کی ہے، اور شرح مواہب میں ابن کثیر سے نقل کیا ہے، ((ھذا امر مجمع علیہ)) ’’یعنی اس پر اجماع ہے۔‘‘ پس جب اجماع ہوا تو کوئی شبہ نہ رہا۔
نیل الاوطار کے صفحہ ۲۷۴ ج۳ میں ابن عبد البر سے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے، اگرچہ نیل الاوطار میں اس کے بعد ابن دحیہ کا اس پر اعتراض نقل کیا ہے، کہ ابن عبد البر کا اس کو جامع کہنا صحیح نہیں، کیونکہ ابن القصار نے اس پر اختلاف ذکر کیا ہے، کہ آپ ﷺ پر نماز جنازہ پڑھی گئی، یا صرف دعا کی گئی، پھر اکیلے اکیلے پڑھی گئی، یا باجماعت لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اختلاف اقل قلیل ہے، قریباً سارے مؤرخین نے آپ پر نماز جنازہ نقل کی ہے، نہ فقط دعاء اور نماز جنازہ بھی اکیلے اکیلے بغیر امام کے اور اوپر کی روایت سے بھی نماز جنازہ ہی ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ تکبیر کا ذکر ہے، اور لوگوں کا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے دریافت کرنا: ((اَیصلی عَلیٰ رَسُوْل اللّٰہ ﷺ)) ’’کیا آپ پر صلوٰۃ پڑھی جائے؟‘‘اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نماز جنازہ ہی مراد ہے، کیونکہ ویسے تو التحیات وغیرہ میں ہمیشہ آپ ﷺ پر درود پڑھا جاتا ہے، یہ کوئی شبہ کی شئی نہیں، شبہ جنازہ میں ہی ہو سکتا ہے، جیسے آپ کے ننگا کر کے غسل دیتے ہیں، اور آپ ﷺ کے مقام دفن میں شبہ ہوا، اس طرح جنازہ میں شبہ ہوا، آکر غسل آپ کو کپڑوں سمیت دیا گیا، اور دفن آپ ﷺ وہیں ہوئے اور جنازہ اکیلے اکیلے پڑھا گیا۔
اُوپر کی روایات اور سب مؤرخین کا اتفاق یہ دونوں مل کر اس بات کا کافی ثبوت ہے، اول تو اوپر کی روایات کافی تھیں، لیکن مؤرخین کا قریباً اتفاق ان کا مؤید ہو گیا، پس رسول اللہ ﷺ کے جنازہ سے اس بات پر استدلال کرنا کہ متعدد جنازہ جائز نہیں یہ بالکل غلط ہے، بلکہ اس واقعہ سے متعدد جنازہ ثابت ہوتے ہیں، اور اسی واسطے ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے اس واقعہ کو متعدد جنازہ کے ثبوت میں پیش کیا ہے، چنانچہ شرح شمائل صفحہ مذکور میں ملا علی قاری لکھتے ہیں۔ ((قال ابن حجر فیہ ان تکریر الصلوۃ علی المیت لا باس بھا)) ’’یعنی اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ میت پر متعدد جنازہ کا کوئی حرج نہیں۔‘‘ اگرچہ اس کے بعد ملا علی قاری نے کہا ہے، کہ یہ آپ ﷺ کا خاصہ ہے، کیونکہ باوجود جماعت ہو سکنے کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جماعت کی اجازت نہیں دی، اور اکیلے اکیلے پڑھنے کا ارشاد فرمایا، بلکہ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی آخیر وقت اس کی وصیت فرمائی، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ خاصہ ہے۔(فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ ص نمبر ۴۶۰) (حافظ محمد عبد السلام امر تسری مقیم روپڑ)