سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(99) غائبانہ جنازہ

  • 4289
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1579

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نجاشی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور شخص کا بھی جنازہ غائب پڑھا گیا ہے، اگرپڑھا گیا ہے، تو کس شخص کا، کیونکہ حضور ﷺ کے زمانہ میں کئی صحابہ رضی اللہ عنہ بھی تو دیگر ممالک میں فوت ہوئے تھے، تو ان کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا گیا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازہ غائب کی بابت بہت اختلاف ہے، حنفیہ وغیرہ کے علاوہ بہت اہل حدیث بھی اس کے قائل نہیں، نجاشی کی حدیث کی بابت کہتے ہیں، کہ وہ غیر ملک میں فوت ہوا، اس کے والی وارث کفار تھے، ظاہر یہی ہے کہ وہاں اس کا جنازہ نہیں پڑھا گیا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کا جنازہ مدینہ میں پڑھا، خطابی رحمہ اللہ نے اس کو اختیار کیا، اور رویانی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے، ابو داؤد نے اس پر باب باندھا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور محقق مقبلی نے بھی اسی کو پسند کیا ہے، اور ایک روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، ابن ماجہ، مسند احمد طیالسی،ابن قانع، طبرانی، ضیاء مقدسی میں حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

((ان اخاکم مات بغیر ارضکم فقوموا فصلوا علیہ))

’’یعنی تمہارا بھائی تمہاری غیر زمین میں مر گیا، اٹھو اس کی نماز جنازہ پڑھو۔‘‘

اس حدیث میں تمہاری غیر زمین میں مرنے کا ذکر اس طرف اشارہ ہے، کہ وہاں اس کا جنازہ نہیں ہوا، اس لیے تم پڑھو، اور قوموا کی فنا بھی اس پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ یہ فا تصریح کی ہے، یعنی غیر ملک مرنا یہ اس جنازہ کا سبب ہے۔ اسی بنا پر کہ وہاں جنازہ نہیں ہوا، نجاشی کے واقعہ کے تین اور بھی جواب دیئے گئے ہیں۔

(۱)                ایک یہ کہ آپ کے لیے زمین لپیٹی گئی، یہاں تک کہ میت آپ کے سامنے ہو گی، یہ جواب ابن عربی نے مالکیہ سے نقل کیا ہے، مگر اس کا ثبوت کوئی نقل نہیں کیا۔

(۲)               دوسرا یہ جواب دیا گیا ہے کہ درمیان سے پردہ اٹھایا گیا، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کو میت سامنے نظر آ گئی، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے، شاید اس جواب کی بنا ء ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت پر ہو جوواحدی نے اسباب النزول میں بلا سند ذکر کی ہے، اُس کے الفاظ یہ ہیں۔

((کشف للنبی ﷺ عن سریر النجاشی حتی راہ وصل علیہ))

’’یعنی نبی ﷺ کے لیے نجاشی رضی اللہ عنہ کی چارپائی سے پردہ دور کیا گیا، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اس کو دیکھا اور جنازہ (؎۱) پڑھا۔‘‘

(؎۱) ان تاویلات کا دروازہ کھولنے کی اس وقت ضرورت ہے، جب کہ پہلے غائبانہ جنازہ کی ممانعت پر کوئی نص تصریح موجود ہو، جب نص ہی موجود نہیں، تو تاویلوں کی کیا ضرورت ہے، میت سامنے آئی یا نہ آئی، نبی ﷺ نماز جنازہ پڑھائی، جب تک ممانعت ثابت ہو ہو، واقعہ نجاشی ہمارے لیے حجت ہے۔ (الراقم علی محمد سعیدی)

ابن حبان نے بھی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے، اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں۔

((فقاموا او صفواخلف وھم لا یظنون الا ان جنایۃ بین یدیہ))

’’یعنی صحابہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، اور رسول اللہ ﷺ کے پیچھے صف باندھی اور وہ یہی گمان کرتے تھے کہ جنازہ آپ کے سامنے ہے۔‘‘

اور ابی عوانہ نے بھی بطریق ا بان وغیرہ سے اس نے یحییٰ سے اس قسم کی ایک روایت کی ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں۔

((فصلینا خلفہ ونحن لا نری الا ان الجنازۃ قدامنا))

’’یعنی ہم نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے جنازہ پڑھا، اور ہم یہی دیکھتے تھے کہ جنازہ ہمارے سامنے ہے۔‘‘

(۳)               تیسرا جواب نجاشی کے واقعہ کا یہ دیا جاتا ہے کہ یہ نجاشی کا خاصہ ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ نجاشی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور کا جنازہ نہیں پڑھا، حالانکہ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ مختلف جگہ فوت ہوتے رہے، اگر جنازہ غائب عام طور پر جائز ہوتا تو کسی نہ کسی کا ضرور نقل ہوتا، لیکن اس پر اعتراض پڑتا ہے، کہ معاویہ بن معاویہ لیثی کا جنازہ غائب رسول اللہ ﷺ نے پڑھا، وہ مدینہ میں فوت ہوا، آپ اس وقت تبوک میں تھے، ابن عبد البر نے اس کو استیعاب میں ذکر کیا ہے، نیز ابن عبد البر نے ابو امامہ باہلی سے معاویہ مقرن کی بابت اور انس رضی اللہ عنہ سے معاویہ بن معاویہ مزنی کی بابت اس قسم کی روایتیں کی ہیں، پھر کہا ہے کہ ان سب کی سندیں قوی نہیں اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی نجاشی کا خاصہ کہنے والوں پر اعتراض کیا ہے، کہ معاویہ بن معاویہ لیثی کاجنازہ آپ نے پڑھا، اور مجموعہ طرق کے لحاظ سے اس واقعہ کو قوی بتایا ہے، اور ذہبی رحمہ اللہ کا جنازہ آپ نے پڑھا اور مجموعہ طرق کے لحاظ سے اس واقعہ کو قوی بتایا ہے، اور ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہ میں معاویہ بن معاویہ ہم کوئی شخص نہیں جانتے۔ اور ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ معاویہ بن معاویہ کے جنازہ کی روایت صحیح نہیں، اس کی اسناد میں علاء بن یزید راوی ہے، جس کی بابت ابن المدینی نے کہا ہے کہ یہ کذاب ہے، غرض جنازہ غائب کی بابت اس قسم کے اختلافات ہیں، میری کسی طرف تسلی نہیں، اس لیے میں نہیں پڑھا کرتا، ہاں پڑھنے والوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا، کیونکہ معاملہ بین بین ہے، اس لیے جو جانب کسی کو راجح معلوم ہو، اس پر عمل کر سکتا ہے او رجو کچھ میں نے تفصیل کی ہے، یہ نیل الاوطار صفحہ ۲۸۵ جلد ۲ میں موجود ہے، اور دیگر شروحات و متون میں بھی اس کی کافی تفصیل ہے، مگر خلاصہ سب کا یہی ہے، جو ہم نے ذکر کیا ہے۔

(فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر۲ ص نمبر ۴۵۷) (عبد اللہ امر تسری مقیم روپڑ)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 172-174

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ