سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(96) مردہ بچہ کے جنازہ کا حکم

  • 4286
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 4853

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بچہ مرا ہوا پیدا ہو تو اُس بچہ کی نما زجنازہ پڑھنی جائز ہے، یا نہیں، ایسے بچہ کو کفن دینا، غسل دینا چاہیے، یا نہیں، ایسے بچہ کو قبرستان میں دفن کرنا چاہیے، یا قبرستان سے باہر دفن کرنا چاہیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مشکوٰۃ میں ہے۔

((عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ شُعْبَۃَ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ قَالَ الرَّاکِبُ یَسِیْرُ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ وَالْمَاشِیْ یَمْشِیْ خَلْفَھَا وَاَمَا وَعَنْ یَمِیْنِھَا وَعَنْ یَسَارِھَا قَرِیْبًا مِنْھَا وَالسِّقْطُ یُصَلّٰی عَلَیْہِ وَیُدْعٰی لِوَالِدَیْہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ رواہ ابو داؤد فی روایۃ اَحْمد والتّرْمِذِیْ والنِّسَائِی وَاِبن ماجۃ قال الراکب خَلْفَ الْجَنَازَۃِ وَالْمَاشِیْ حَیْثُ شَائَ مِنْھَا وَالطِّفْلِ یُصَلّٰ عَلَیْہِ وِفِیْ الْمُصَابِیْحِ عَنِ الْمُغِیْرَۃِ بْنِ زِیَادٍ مشکوٰۃ باب المشی بالجنازۃ الخ))

’’یعنی مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا سوار جنازہ کے پیچھے چلے، اور پیادہ کو اختیار ہے، خواہ پیچھے چلے آگے، یا دائیں یا بائیں نزدیک اور کچھ بچہ جو پورے دنوں سے پہلے گر جائے، اس پر نماز پڑھی جائے، اور اُس کے والدین کے لیے بخشش و رحمت کی دعا کی جائے، اور ابو داؤد نے اس کو روایت کیا ہے، اور مسند احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے، کہ سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیادہ جہاں چاہے، اور لڑکے پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔‘‘

یہ حدیث بظاہر عام معلوم ہوتی ہے کہ بچہ خواہ زندہ پیدا ہو یا مرا ہوا ہر صورت میں اُس پر نماز پڑھی جائے، لیکن دوسری حدیث میں شرط آئی ہے کہ آواز کرے تو نماز جنازہ پڑھی جائے، چنانچہ مشکوٰۃ کے اسی باب صفحہ ۱۴۰ میں ہے۔

((عَنْ جَابِرٍ اَنَّ النَّبِی ﷺ قَالَ الطِّفْلُ لَا یُصَلَّی عَلَیْہِ وَلَا یَرِثُ وَلَا یُوْرَثُ حَتّٰی رواہ الترمذی وابن ماجۃ اِلَّا اَنَّہٗ لَمْ یَذْکَرْ وَلَا یُوْرَثُ))

’’جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، لڑکا جب تک آواز نہ کرے، نہ اُس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، نہ وہ کسی کا وارث ہو گا، نہ اس کا کوئی وارث ہو گا۔‘‘

نیل الاوطار میں ہے۔

((وَیَدَلُّ عَلٰی اِعْتِبَارِ الْاِسْتِہْلَالِ حَدِیْثُ جَابِرِ عِنْدِ التِّرْمَذِیْ وَالنِّسَائی وَابْنَ مَاجَۃَ وَالْبَیْھَقِیْ بِلَفْظِ اِذَا اسْتَھَلَّ السِّفْطُ صُلِّیَ عَلَیْہِ وَوَرِثَ)) (نیل الاوطار ص ۳ ص۲۸۰)

’’یعنی آواز کے شرط ہونے پر جا بر رضی اللہ عنہ کی حدیث دلالت کرتی ہے جس کو ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، اور بیہقی نے روایت کیا ہے، اُس کے الفاظ یہ ہیں کہ جب کچھ بچہ آواز کرے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے، اور وہ وارث ہو بھی ہوگا۔‘‘

اس حدیث میں اسمٰعیل بن مسلم ایک راوی ضیعف ہے، لیکن اس کے ساتھ اور بہت سے شامل ہیں، چنانچہ تلخیص الجیر کے صفحہ ۱۵۷ میں حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے نیل الاوطار صفحہ نمبر ۲۸۰ ج۳ میں امام شوکانی نے بحوالہ ترمذی وغیرہ ذکر کیا ہے، اس لیے اس کا ضعف نقصان نہیں دیتا، اور اسی لیے حاکم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری، مسلم کی شرط پر صحیح ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص الجیر کے صفحہ نمبر ۱۵۷ میں کہا ہے کہ یہ حاکم رحمہ اللہ کا وہم ہے، کیونکہ اسمٰعیل بن مسلم کے ساتھ روایت کرنے میں اگرچہ اور بہت سے شامل ہیں، لیکن اسمٰعیل بن مسلم کا اُستاد ابو الذبیر مکی اس میں بخاری کی شرط پر نہیں، کیونکہ یہ تیسرے درجہ کامدلس ہے، چنانچہ طبقات المدلیس کے صفحہ نمبر۱ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی تصریح کی ہے، اور اس نے جابر رضی اللہ عنہ سے کلمہ عن کے ساتھ روایت کی ہے۔ یعنی جابر (روایت کرتا ہوں، میں جابر سے کہا ہے اور ((سَمِعْتُ جَابِراً)) (سنا میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے) نہیں کہا، اور مدلس جب عن کے ساتھ روایت کرے تو وہ معتبر نہیں ہوتی، پس اس بناء پر یہ روایت معبر نہ ہوئی، مگر بعض اور احادیث سے اس کی تاکید ہوتی ہے، اس لیے یہ لائق استدلال ہو گی، چنانچہ نیل الاوطار صفحہ ۲۷۹ ج۳ اور تلخیص الجیر کے صفحہ نمبر ۱۵۷ میں ہے۔

((وفی الباب عن علی اخرجہ ابْنُ عَدِیْ فِی نرحمۃ عمرو بن خالد وھو متروک ومن حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ اخرجہ ابن عِدِّیٍّ من روایۃ شریک عن ابن اسحاق عن عطاء عنہ وقوّاہ ابن طاھر فی الذَّخِیْرَۃ وقد ذکرہ البخاری من قول الزھری تعلیقاء وفی باب اذا استعمال الصبی فمات۔ ھل یُصَلَّی علیہ ووصلہ ابن ابی شیبۃ))

یہ عبارت تلخیص الجیر کی ہے، اور نیل الاوطار کی عبارت بھی اسی کے قریب ہے،ترجمہ اس کا یہ ہے، کہ اس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ابن عدی نے اس کو عمرو بن خالد رضی اللہ عنہ کے حالات میں ذکر کیا ہے، لیکن عمرو بن خالد متروک ہے، یعنی بہت ضعیف ہے، اور اس بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی ہے، اس کو بھی ابن عدی نے شریک کی روایت سے اس نے ابن اسحاق سے اس نے عطا سے اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا ہے، اور ابن طاہر نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ذخیرہ میں قوی کہا ہے، اور بخاری نے بھی اس کو زہری کا قول بنا کر بغیر اسناد کے ذکر کیا ہے۔ اور ابن ابی شیبہ نے اس کو باسناد ذکر کیا ہے، ان احادیث کے علاوہ بعض احادیث بھی ہیں۔ جن سے یہ مسئلہ پختہ ہوتا ہے، کہ بچہ آواز کرے، تو اس کا جنازہ پڑھایا جائے، چنانچہ نیل الاوطار کے صفحہ نمبر ۲۸۰ اور تلخیص الجیر کے صفحہ ۲۵۷ میں ہے۔

((وقد اخرج البزار عن ابن عمر مرفوعاً استہلال الصبی العطاس اِسنادہٗ ضعیف))

’’یعنی بچہ کی آواز چھینک ہے، اس کی اسناد ضعیف ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی اسناد کو اگرچہ ضعیف کہا ہے، لیکن اُوپر کی احادیث کو اس سے تقویت ہو گئی، کیونکہ ضعیف مل کر حسن کے درجے کو پہنچ جاتی ہے، چنانچہ کتب اُصول شرح نخجہ وغیرہ میں اس کی تصریح کی ہے، اور چھینک سے مرا د آواز کا ادنیٰ درجہ ہے، ورنہ کسی اور طرح آواز ہو وہ بھی کافی ہے، اور جمہور کا مذہب ہے وہ کہتے ہیں جب بچہ آواز کرے، تو اس کا جنازہ پڑھا جائے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری کے صفحہ ۶۹۸ ج ۵ ((باب اذا اسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ)) میں اس کی تصریح کی ہے، او رنیل الاوطار کے علاوہ دوسرے علماء نے بھی کہا ہے، کہ مقصود آواز سے علامت حیات ہے، آواز چونکہ اکثر اور واضح ہے اس لیے اس کا ذکر کر دیا، پس جب کوئی ایسی علامت پائی جائے، جس سے بچہ کی حیات معلوم ہو تو اس کا جنازہ پڑھنا پڑے گا، اور وہ وارث بھی ہو گا، پھر اس کی وراثت اس کے وارثوں میں تقسیم ہو گی، پس جب اس کا جنازہ بھی ہوا اور وہ وارث بھی ہوا، تو باقی کفن دفن بھی اس کا بڑوں کی طرح ہونا چاہیے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں، صرف سعید بن جبیر، عبد اللہ بن عباس کے شاگرد کہتے ہیں کہ لڑکا جب تک بالغ نہ ہو، اس وقت تک اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے، او رکہا گیا ہے کہ جب تک بچہ نماز نہ پڑھے، اس وقت تک اس کی نماز جنازہ نہیں، حافظ ابن حجر رضی اللہ فتح الباری صفحہ نمبر ۶۹۸ ج ۵ ((باب اذا اسلم الصبی فما تسھل یصلی علیہ)) میں یہ دونوں قول ذکر کیے ہیں، مگر یہ صریح احادیث کے خلاف ہیں، اوپر کی احادیث کے عالوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں، جن سے بچوں کا جنازہ ثابت ہوتا ہے۔ مشکوٰۃ میں سعید بن مسیب سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں، میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے معصوم بچہ کی نماز جنازہ پڑھی، میں نے ان سے سنا کہ وہ اس کے حق میں عذاب قبر سے پناہ کی دعا کرتے۔ ((الرحمۃ المھداۃ)) فصل رابع مشکوٰۃ صفحہ ۸۷ میں ہے عمار مولیٰ، حارث بن نوفل کہتے ہیں، میں ایک عورت اور اس کے بچے کے جنازہ کو حاضر ہوا، بچہ امام کے نزدیک رکھا گیا، اور عورت بچہ سے قبلہ کی جانب رکھی گئی، پس دونوں پر نماز جنازہ پڑھی گئی، اور لوگوں میں ابو سعید رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ( یہ جلیل القدر صحابہ موجود تھے) میں نے ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اسس طرح متعدد ہستیوں کو آگے پیچھے رکھ کر اگر مردوں کے ساتھ عورت ہو تو اس کو مردوں کے آگے قبلہ کی جانب رکھ کر اکٹھے نماز جنازہ پڑھنا سنت ہے، یعنی ارشاد نبوی رضی اللہ عنہ ہے، نسائی اور ابو داؤد نے اس کو روایت کی ہے۔ نیز ((الرحمۃ المھداۃ)) کے اسی صفحہ میں ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کافر زند ارجمند ابراہیم جب فوت ہوئے، تو آپ نے ان پر نماز جنازہ پڑھی، اور فرمایا ان کے لیے جنت میں دایہ دودھ پلانے والی ہے، یہ رضاعت کے دنوں میں فوت ہو گئے، اور ان کے ماموں یعنی قبطی لوگ آزاد ہوجاتے، اور آئندہ کو قبطی غلام نہ بنایا جاتا، روایت کیا اس کو ابن ماجہ نے غرض اس قسم کی روایتیں بہت ہیں جن میں بچوں پر نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے، پس سعید بن جیر کا قول اور اس کے ساتھ کا قول دونوں غلط ہیں، اور بعض کہتے ہیں، جب بچہ پیٹ میں چار ماہ کا ہو جائے، تو پھر خواہ مردا ہوا پیدا ہو تو اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے، کیونکہ جب چار ماہ کے بعد بچہ میں جان پڑھ جاتی ہے، اس کے بعد اگر وہ مرا ہوا پیدا ہو تو وہ میت شمار ہو گا پس اس کا غسل (نماز جنازہ وغیرہ) باقاعدہ ہونا چاہیے۔ امام شافعی وغیرہ کا یہی مذہب ہے۔ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مصنف متنقی نے اسی کو اختیا رکیا ہے، کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے، مگر ترجیح اسی کو ہے کہ جب زندہ باہر نکلے تو، تب نماز جنازہ وغیرہ ہونی چاہیے، ورنہ نہیں چنانچہ اوپر کی روایت سے واضح ہو چکا ہے، تفصیل، نیل الاوطار وغیرہ میں ملاحظہ ہو۔ (فتاویٰ اہل حدیث جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۴۵۲) (حافظ محمد عبد اللہ امر تسری روپڑ، ضلع انبالہ)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 167-171

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ