اگر میت خسرہ ہو، اُّس کی نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے، یا ناجائز، کیا امام نماز پڑھائے یا نہ، اگر پڑھائے تو امام کیا دعا پڑھے۔
خسرہ دو طرح کا ہوتا ہے، ایک پیدائش اور ایک بناوٹی، بناوٹی اگر اپنے پیشے سے توبہ کرے تو اُس کے نماز جنازہ میں کوئی شبہ نہیں، کیونکہ وہ حقیقت میں مرد ہوت اہے، جس نے عورت کی شکل بنا کر سوال کا پیشہ اختیار کر لیا ہے، اگر بغیر توبہ مر گیا، تو دیکھا جائے، اور معلوم کیا جائے کہ نماز کا پابند تھا، تو اس صورت میں بھی نماز جنازہ ہو جاتی ہے، لیکن تنبیہ کے طور پر نہ پڑھی جائے تو مناسب ہے، جیسے رسول اللہ ﷺ نے مقروض کی اور خود کشی کرنے والے کی اور ماغر کی جس نے زنا کیا تھا، نماز جنازہ نہیں پڑھی، اگر بناوٹی خسرہ نماز نہیں پڑھتا تھا، توپھر بالکل نماز جنازہ نہ پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ بے نماز کافر ہے۔
اگر خسرہ پیدائشی ہو تو اس کی حالت دیکھی جائے کہ مرد سے زیادہ مشابہ ہے یا عورت سے جس سے زیادہ مشابہ ہو اس کا حکم رکھتا ہے، اگر مرد سے زیادہ مشابہ ہو تو مرد والی دعائیں پڑھی جائیں، اور جنازہ پڑھانے کے وقت امام اس کے سر کے برابر کھڑا ہو اس کے درمیان میں اگر خسرہ عورت سے زیادہ مشابہ ہو تو عورت والی دعائیں، اور جنازہ پڑھنے کے وقت امام اس کے درمیان میں کھڑا ہو یا سرین کے برابر، کیونکہ جدھر کو ترجیح ہو، اُدھر ہی کا حکم ہونا چاہیے، اگر مرد عورت والی علامتیں برابر ہوں، تو پھر اختیار ہے، امام جون سی دعائیں چاہے پڑھے کیونکہ دونوں طرف برابر ہیں وراثت کے مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ مرد سمجھا جائے، یا عورت، راجح مذہب یہی ہے کہ آدھا حصہ اس مرد کا دیا جائے،اور آدھا عورت کا چنانچہ کتب وراثت میں اس کی تفصیل ہے۔ (عبد اللہ امر تسری روپڑی۔ فتاویٰ اہل حدیث جلد ۲ ص ۴۵۱)
توضیح:… مرد یا عورت کی دعاؤں میں فرق حدیث صریح سے ثابت نہیں ۔جنازہ اور میت کا اطلاق جب مرد اور عورت دونوں پر صادق آتا ہے، تو خسرہ کی دعاؤں میں تفریق کی کیا ضرورت ہے۔ (سعیدی)