سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(93) خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ

  • 4284
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1340

سوال

(93) خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک حاجی پانچوں وقت کا نمازی ہے، جماعت کا پابند، شکل و صورت میں پورا مذہبی انسان اُس نے خود کشی کے خیال سے لٹک کر جان دے دی، کیا اُس کی نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اُس کے متعلق چند احادیث درج ہیں، مسلم میں ہے۔

(۱) ((عَنْ جَابِرِبْنِ سَمْرَۃَ قَالَ اُتَیِ النَّبِیُّ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَہٗ بِمَشَاقِصْ فَلَمْ یُصَلِّ عَلَیْہِ۔ فصل رابع مشکٰوۃ باب المشی بالجنازۃ))

’’جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص کا جنازہ لایا گیا، جس نے تیر کے پھل سے یا چاقو سے خود کشی کر لی،آپ ﷺ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا۔‘‘

(۲) ((عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صَلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ تَرَدّٰی مِنْ جَبَلٍ قَتَلَ نَفْسَہٗ فَھُو فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ یَتَرَدَّی فَیْھَا خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْھَا اَبَدًا وَمَنْ تَحَسَّی سَمًّا فَقَتَلَ نَفْسَہٗ فَسَمُّہٗ فِیْ یَدِہٖ یَتَحَسَّاہُ فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْھَا اَبَدًا وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَہٗ بِحَدِیْدَۃٍ فَحَدِیْدَتُہٗ فِیْ یَدِہٖ یَتَوَّجَّأُ فِیْ بَطْنِہٖ فِیْ نَا بِجَھَنَّمَ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْھَا اَبَدًا))(متفق علیہ مشکوٰۃ کتاب القصاص)

’’یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو پہاڑ سے گر کر خود کشی کرے، وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں (پہاڑ) سے گرے گا، جو زہر پی کر خود کشی کرے، اُس کا زہر اُس کے ہاتھ میں ہو گا، ہمیشہ جہنم میں اس کو گھونٹ گھونٹ پئے گا، اور جو شخص کسی ہتھیارسے خودکشی کرے وہ ہتھیار اُس کے ہاتھ میں ہو گا، ہمیشہ جہنم میں اپنے پیٹ میں گھونپے گا۔‘‘

(۳) ((وَعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ الَّذِیْ یَخْنِقُ نَفْسَہٗ یَخْنِفُھَا فِی النَّارِ وِالَّذِیْ یَطْعَنُہَا فِی النَّارِ))

حوالہ مذکور:’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو اپنا گلا گھونٹ کر خودکشی کرے، وہ جہنم میں اپنا گلا گھو نٹے گا، اور جو برچھی وغیرہ گھونپ کر خود کشی کرے، وہ جہنم میں برچھی وغیرہ گھونپے گا۔‘‘

(۴) ((وعن جند بن عبد اللّٰہ قال قال رسول اللّٰہ کَانَ فِیْمَنْ کَانَ فِیْکُمْ رجل بہ جرح فجذع فَاَخَذَ سکینا فَخَّرَّبِھَا یَدَہٗ فَمَارَقَأ الدَّمُ حتی مَاتَ قَالَ اللّٰہُ بَادَرَنِیْ عَبْدِیْ بِنَفْسِہٖ، فَحَرَّمْتُ علیہ الْجَنَّۃَ)) (متفق علیہ۔ مشکوٰۃ کتاب القصاص)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا گذشتہ لوگوں میں سے ایک شخص کے زخم تھا، اس سے بے قرار ہو گیا، چاقو لے کر اپنا ہاٹھ کاٹ دیا، خون بند نہ ہوا، یہاں تک کہ ہو مر گیا، اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘

(۵) ((وعن جابر ان الطفیل بن عمرو الدوسی لما ھاجرا النبی ﷺ الی المدینۃ ھاجرا الیہ وھاجرو معہ رجل من قومہ فمرض فجزع فاخذ مشاقص لہ قطع بھا براھمہٗ فشخبت یداہ حتی مات فراہ الطفعیل بن عمر وفی منامہ و ھیئۃ حسنۃ وراہ مغطیا یدیہ فقال مَا صنع بلک ربک فقال غفرلی ھجرتی الی النبی ﷺ فقال ما لی اراک مغطیا یدیک قال قیل لی لن نصلح منک ما افسدت فقصہا الطفیل علی رسول اللّٰہ ﷺ فقال رسول اللّٰہ ﷺ اَللّٰھُمَّ ولیدیہ فاغفر)) (راوہ مسلم۔ حوالہ مذکور)

’’جابر فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ نے ار اس کے ساتھ ایک اور شخص نے بھی ہجرت کی وہ بیمار ہو کر بے چین ہو گیا، چاقو لے کر اپنی انگلیاں جوڑوں سے کاٹ دیں، خون نے جوش مارا، یہاں تک کہ وہ مر گیا، طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اُس کو خواب میں اچھی ہیئت میں دیکھا، پوچھا خدا نے تیرے ساتھ کیا گیا، کہا میرے ہجرت کی برکت سے خدا نے معافی دے دی، طفیل بن عمرو نے کاہ، تو نے اپنے ہاتھ کیوں ڈھانپے ہوئے ہیں، کہا خدا کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ جو تو نے خود بگاڑا ہے، اُس کو ہم ٹھیک نہیں کریں گے، طفیل نے یہ خواب رسول اللہ ﷺ کے پاس بیان کی رسول اللفہ ﷺ نے فرماای اے اللہ اُس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔‘‘

یہ پانچ احادیث میں پہلی چار سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے لے بخشش نہیں، نہ اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے، پانچویں حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی معافی ہو سکتی ہے، اس بناء پر اس کی نماز جنازہ بھی درست ہے، کیونکہ نماز جنازہ میں میت کے لیے معافی وغیرہ کی درخواست ہوتی ہے، ہاں اس میں شبہ نہیں کہ گناہ بہت بڑا ہے، جس کی سزا یہ ہے کہ ہمیشہ جہنم میں اس عذاب میں مبتلا رہے، جس سے اس نے اپنی جان تلف کی ہے، اللہ تعالیٰ کسی عمل کی برکت سے معافی دے دے، تو علیحدہ بات ہے، ورنہ سزا یہی ہے اور اس تنبیہ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، چنانچہ پہلی حدیث میں مذکور ہے، حالانکہ وہ مسلمان ہے اسلام سے خارج نہیں، اور مسلمان پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے، مگر تنبیہ کے لیے آپ ﷺ نے نہیں پڑھیی، اس طرح جس مقروض نے ادائیگی قرض کے لیے مال نہ چھوڑا ہو، جس سے اس کا قرض ادا نہ ہو سکے، اس کی بھی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ حالانکہ وہ بھی بالاتفاق مسلمان ہے، پس جو شخص مذکورۃ فی السوال پر بڑا آدمی پرہیز گار، متقی عالم فاضل جس کے نماز جناہ پڑھنے تنبیہ ہو جائے، نماز جنازہ نہ پڑھے، اور باقی لوگ پڑھ لیں، یا کوئی بھی نہ پڑھے، تاکہ زیادہ تنبیہ ہو جائے، اس طرح مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ کرنا، یہ بھی نماز جنازہ کی طرح بطور تنبیہ ہو تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ آخر مسلمان ہے، چنانچہ اور معلوم ہو چکا ہے۔

(فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد نمبر ۲ ش نمبر ۴۴۸) (عبد اللہ امر تسری مدیر تنظیم اہل حدیث روپڑ)


فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 163-166

محدث فتویٰ

تبصرے