سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(86) نماز جنازہ میں بلند آواز سے قرآت اور دعا پڑھنی درست ہے یا نہیں؟

  • 4277
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5123

سوال

(86) نماز جنازہ میں بلند آواز سے قرآت اور دعا پڑھنی درست ہے یا نہیں؟
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز جنازہ میں بلند آواز سے قرآت اور دعا پڑھنی درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ اور اس کے بعد کی سورہ بآواز بلند پرھنا جائز بلکہ سنت ہے، منتقی الاخبار میں ہے۔

((عن ابن عباس انّہ صلّی علٰی جنازہ فقرأ بفاتحۃ الکتب وقال لتعلموا انہ من السنۃ راوہ البخاری و ابو داؤد والترمذی وصححہ النسائی وقال فیہ فقرأ بفاتحۃ الکتاب وسورۃ وجھر فلما فرض قال سنۃ وحق))

’’یعنی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی اور سورہ فاتحہ بآواز بلند پڑھی، اور فرمایا کہ میں نے سورہ فاتحہ کو بلند آواز سے اس لیے پڑھا ہے کہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے، روایت کیا، اس کو ابو داؤد اور بخاری اور ترمذی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اس کی نسائی نے بھی روایت کیا ہے، اور نسائی کی روایت میں کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فاتحۃ الکتاب اور ایک سورۃ پڑھی، اور بآواز بلند پڑھی، اور جب نماز سے فارغ ہوئے، تو فرمای کہ یہ سنت اور حق ہے۔‘‘

واضح رہے کہ اس روایت میں سنت سے مراد سنت نبیو ہے، یعنی نماز جنازہ میں فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ بآواز بلند پڑھنا، رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، فتح الباری میں ہے۔

((وقد اجمعوا علٰی ان قول الصحابی سنۃ))

’’حدیث مرفوع الخ یہ اجماعی مسئلہ ہے کہ صحابہ کا قول سنت ہے، اس لفظ سنت سے مراد حدیث مرفوع (قول رسول اللہ ﷺ) ہے۔‘‘

 علامہ شوکانی نیل الاوطار صفحہ نمبر ۵۳ ج ۳ میں فرماتے ہیں۔

((قولہ وجہر)فیہ دلیل علی الجھر فی قرأہ صلوٰۃ الجنازۃ))

’’یعنی لفظ جہر میں دلیل ہے، بلند قرأۃ پڑھنے کی نماز جنازہ پر۔‘‘

سراج الوہاب صفحہ نمبر ۳۰۰ جلد نمبر ۱ میں ہے،

((بل الحدیث فیہ دلالۃ واضحۃ علی الجھر بالدعاء فی صلوٰۃ الجنازۃ ولا مانع منہ شرعا وعقلا ولا داعی الیہ فیکون الجھر الاسرار فیھا سواء کباقی)) الخ

’’بلکہ اس حدیث میں واضح دلیل ہے، اوپر اونچی دعا پڑھنے کے نماز جنازہ میں اور اس سے کوئی منع کرنے والا نہیں، نہ شرعاً اور نہ عقلاً اور نہ کوئی اس کا دعویٰ کرنے والا ہے۔‘‘

پس جنازہ میں قرأۃ بلند پڑھنی یا آہستہ پڑھنی جنازہ میں دیگر نمازوں کی طرح برابر ہے، جنازہ میں دعا بلند آواز سے پڑھنا رسول اللہ ﷺ سے بھی ثابت ہے۔

مسلم شریف اور نسائی شریف میں ہے۔

((عن عوف بن مالک رضی اللّٰہ عنہ قال سمعت لانبی ﷺ علی جنازۃ یقول اللھم اغفرلہٗ وارحمہ))

یہ دعا لمبی ذکر کر کے حضرت عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

((فتھنیتُ ان لو کنت انا المیت لدعاء رسول اللّٰہ ﷺ لذاالک والمیت))

’’پس آرزو کی میں نے کاش کی یہ میت میں ہوتی یہ رسول اللہ ﷺ کی دعا کی وجہ سے شوق پیدا ہوا۔‘‘

ایک روایت مسلم میں یہ لفظ بھی ہیں۔ ((فحفظت من دعائِہٖ)) ’’پس میں نے رسول اللہ ﷺ کی یہ دعا اسی وقت یاد کر لی،‘‘یعنی رسول اللہ ﷺ نے جب جنازہ پڑھا، بلند آواز سے دعا پڑھی، تو میں نے یاد کر لی، اب تمام احادیث مذکورہ سے ثابت ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور دیگر سورۃ اور دعا رسول اللہ ﷺ نے بھی بلند آواز سے پڑھی۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی بلند آوااز سے پڑھی، جب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، کہ آپ نے بلند آواز سے جنازہ کیوں پڑھا، تو جواب دیا کہ تم جان لو کہ یہ فعل سنت ہے، جس طرح جنازہ میں سورہ فاتحہ و دیگر سورہ اور دعا بلند آواز سے سنت ہے، اسی طرح قرآن شریف بھی بلند آواز سے سنت ہے۔

تنقیح الرواۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے۔ ((رجال اسنادہ مالک رجال الصحیح الخ)) اس حدیث کے تمام راوی صحیح بخاری کے ہیں، اب رسول اللہ ﷺ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، مسور بن مخرمہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایات سے ((قرأۃ بالجہر)) ثابت ہوتی ہے، اور یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں،

عون المعبود شرح ابو داؤد صفحہ نمبر ۱۸۹ جلد نمبر ۳ میں تمام روایات ذکر کر کئے لکھتے ہیں۔

((قلت والظاہر ان الجمہور والاسرار بالدعاء فی صلوٰۃ الجنازۃ جائز ان وکل من الامرین مروی عن رسول اللّٰہ ﷺ وھذا ھو الحق واللہ اعلم))

میں کہتا ہوں جملہ دلائل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنازہ میں قرأۃ بلند آواز یا آہستہ آواز سے پڑھنا دونوں جائز ہیں، اور ہر فعل رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے، یہ بات حق اور درسست ہے، ان تصریحات محققین سے جہری جنازہ کا جواز ثابت ہو گای، لیکن مجھے تعجب ہوا کہ اہل حدیث ہی کے بعض حلقے اس پر ناگواری ظاہر کرتے ہیں، حالانکہ ایک جائز بلکہ بعض کے نزدیک افضل امر پر کم از کم ناگواری ایک غلط رحجان ہے۔

(فتاویٰ ثنائیہ جلد ۱ صفحہ نمبر ۵۴۷) (حافظ احمد صاحب پٹوی اخبار الاعتصام)

 

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 158-160

محدث فتویٰ

تبصرے