سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(72) جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا شرعاً درست ہے؟

  • 4263
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 2717

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(۱) جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا شرعاً درست ہے، یا مکروہ غیر جائز،

(۲) جنازہ سورہ فاتحہ کے ساتھ کسی سورۃ کا پڑھنا درست ہے یا نہیں؟

(۳) جنازہ کی نماز زور سے پڑھنا درست ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

((الحمد للّٰہِ رب العلمین والعاقبة للمتقین والصلوة والسلام علی محمد واٰلِه وصحبه اجمعین))

(۱)      سورۃ فاتحہ کا نماز جنازہ میں پڑھنا مسنون ہے (؎۱) ہے، احادیث مرفوعہ، وموقوفہ و آثار صحابہ سے ثابت ہے، فاضل علامہ عبد الحی لکھنوی راقم امام الکلام صفحہ ۲۳۳ میں فرماتے ہیں۔

(؎۱)      سوال کے مطابق جواب دیا گیا ہے، ورنہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے، بحدیث عبادہ مرفوعاً

((اعلم انه قدم وردت احادیث مرفوعة واٰثار موقوفة دالة علی شرعیة قرأة الفاتحة بعد التکبیرة الاولٰی من صلوٰة الجنازة ووردت بعض الاٰثار یترکھا واختلف الصحابة فی فعلھا وترکھا وتبع ذٰلك اختلاف الائمة فی ذٰلك والمرحج ذلك ھو القرأة علی وجه الاستحباب والسنة لثبوت ذٰلك بالاخبار المتواردة وھی وان کان بعضہا ضعیفة لکن ضم بعضہا الی بعض یعطی الوثاقة والقول بالکراھة مطلقاً۔ او بالکراھة نیة القران لابنیة الثناء لا یدل علیه دلیل باحد وجوہ الدلالة))

’’اچھی طرح معلوم کر لو کہ جنازہ کی نماز میں پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ پڑھنے کی مشروعیت میں مرفوع حدیثیں اور آثار موقوفہ دلالت کند وارد ہیں، بعض آثار صحابہ سے اس کا نہ پڑھنا بھی آیا ہے، صحابہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پڑھنے نہ پڑھنے میں اختلاف کیا ہے، انہی اختلاف کی بنا پر ائمہ کا بھی اختلاف ہوا ہے، ترجیح پڑھنے ہی کو ہے، خواہ استحباب کی بنا پر خواہ مسنونیت کی بنا پر، حدیثوں کے ثابت ہونے کی وجہ سے اس امر میں گو بعض میں ضعف ہے، مگر ایک دوسرے سے مل کر قوت ہو جاتی ہے، رہا مکروہ مطلق کہنا قرآن کی نیت سے پڑھنے کو مکروہ کہنا، سو اس پر کوئی دلیل پائی نہیں جاتی دلالت کی کسی بھی وجوہات سے۔‘‘

التعلیق المجد حاشیہ موطا امام محمد صفحہ ۱۳۱ میں ہے۔

((نفس القرین ثابت فلا سبیل الی الحکم بالکراھة بل غایة الامر ان لا یکون لَازِمًا))

’’نفس قرأۃ سورہ فاتحہ تو ثابت ہے، لہٰذا اسے مکروہ کہنے کا کوئی راستہ نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں، کہ لازم فرض نہ ہو۔‘‘

پس حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث ’’دہلوی حجۃ اللہ البالغہ‘‘ کے صفحہ ۲۸ ج۲ میں فرماتے ہیں۔

((ومن السنة قرأة فاتحه الکتاب لانھا خیر الادعیة واجمعھا علمہا اللّٰہ تعالیٰ عبادہ فی محکم کتابه))

’’سورہ فاتحہ جنازہ نماز میں پڑھنا منسون ہے، چونکہ یہ دعائوں میں بہتر اور جامع دعا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی محکم کتاب میں تعلیم فرمائی ہے۔‘‘

علامہ سندھی حنفی حواشی صحاح ہیں، اور فاضل حسن شرن ہلالی فرماتے ہیں۔ ((ولا وجہ للمنع عنہا)) ’’کوئی وجہ اس کے پڑھنے سے منع کی نہیں۔‘‘

علامہ ترکمانی حنفی الجواہر النقی علی سنن البیہقی کے صفحہ ۳۹ ج ۴ میں فرماتے ہیں۔

((مذھب الحنفیة ان القرأة لا تجب فی صلوٰة الجنازة لا یجب ولا نکرہ ذکرہ القدوری فی تجدیدہ))

’’حنفیہ کا تو مذہب یہ ے کہ پڑھنا جنازہ کی نماز میں نہ ہی واجب ہے، اور نہ ہی مکروہ ۔‘‘

جب حنفیہ کے نزدیک واجب بھی نہیں اور مکروہ بھی نہیں، تو پھر اس کا پڑھنا مسنون یا مستحب اس سے معلوم ہوا کہ مکروہ حنفیہ کا اصل مذہب نہیں یہ پچھلے لوگوں کا مذہب ہے، (جو اس کو مکروہ کہہ دیا، اور پھر مکروہ کو مکروہ تحریمی سے بیان کیا، حالانکہ کسی معتمد فقیہ نے مطلق قرأۃ کو نماز میں مکروہ تحریمی نہیں فرمایا، ہاں اس تفصیل سے تو ضرور لوگوں نے مکروہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ دعا کی نیت سے جائز ہے اور قراۃ کرنے کی نیت سے مکروہ، دیکھو در مختار

((عندنا تجوز بنیة الدعاء (کبیری شرح منیة المصلی ص ۵۴۶ ولو قرأ الفاتحه بنیة الثناء الدعاء جائز))

بحر الرائق میں محیط اور تجنیس صاحب ہدایہ سے ہے۔

((ولو قرأ الفاتحة فیھا بنیة الدعاء فلا باس فی الاشیاء قالو ان المأموم اذا قرأ الفاتحة فی صلوة الجنازة بنیة الذکر لا یحزم علیه))

مقتدی کو بھی ذکر کی غرض سے جنازہ کی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا حرام نہیں، جو مطلق پڑھنے کو مکروہ وہ بھی تحریمی کہے، وہ بڑا ہی جاہل اور مذہب سے ناواقف ہے۔

مالا بدمنہ کے صفحہ ۹۳ میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں، اکثر علماء کرام برانند کہ فاتحہ ہم بخواند، اکثر علماء اس پر ہیں کہ جنازہ میں سورہ فاتحہ بھی پڑھیں۔

قاضی صاحب نے مرتے وقت اپنے وصیت نامہ میں وصیت کی ہے کہ میرے جنازہ میں سورہ فاتحہ بھی پڑھنا، دیکھو ان کا وصیت نامہ مع بالا بدمنہ صفحہ ۱۹۱ وبعد تکبیر اولیٰ سورۃ فاتحہ ہم خوانند ہاں قرأۃ کی ن یت سے جو پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے، شامی اس کوکراہت تحریمی سے تعبیر کرتے ہیں، جو ٹھیک نہیں، بلکہ ملا علی قاری رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ قرأۃ الجوئاز فی صلاۃ الجنائز میں اس کراہت کو کراہت تنزیہی فرمایا ہے جو اولیت کے مدمقابل ہے۔ ((ما تصد ھو محمول علی الکراھیة التزیھیة التی ھی خلاف الاولیٰ کما لا یخفی)) مجھے بڑا ہی تعجب معلوم ہوتا ہے، اُس مدعی علم سے کہ باوجود احادیث نبویہ و آثار صحابہ سے اس کے پڑھنے کے ثبوت ہوتے ہوئے مکروہ کہے وہ بھی تحریمی ہو، نبی ﷺ نے کس نیت سے پڑھی تھی، سورہ فاتحہ،یا ارشاد فرمایا وہ آپ کے بے بتلائے کون کہہ سکتا ہے، اور جو کہے وہ بے دلیل ہے۔ ((لان فیة الثناء امر مبطن لا یعلم الا من الفاعل قال الفاضل حسن الشر نبلالی حکاہ عنه)) فاضل لکھنوی حنفی تعلیق امام الکلام المسمی غیث الغمام میں فرماتے ہیں۔ ((مع انه باطن فی نفسه ایضا فان اختلاف النیة امر باطن لا یطلع علیه اھد الا ببیان من نوی)) لو سنو ہم اب اولاً مرفوع روایتوں کو بیان کرتے ہیں۔

(۱) ((عن جابر رضی اللہ عنه قال کان رسول اللّٰہ ﷺ یکبر عَلٰی جنائز اربعاً و یقرأ بفاتحة الکتاب فی التکبیرة الاولیٰ راوہ الحاکم فی المستدرك والامام الشافعی فی کتاب الام قلت فیه محمد بن عبد اللّٰہ بن عقیل قال الترمذی فی جامعه فی باب مفتاح الصلوة الطھور ھو صدوق وقد تکلم فیه بعض اھل العلم من قبل حفظه وسمعت محمد بن اسمٰعیل یقول کان احمد بن حنبل و اسحٰق بن ابراہیم والحمیدی یحتجون بحدیث عبد اللّٰہ بن محمد بن عقیل قال محمد ھو مقارب الحدیث))

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ہم لوگوں کے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے، اور پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔‘‘

(۲) ((عن ام شریك الانصاریة الت امرنا رسول اللّٰہ ﷺ ان نقرأ علی الجنازة بفاتحة الکتاب راوہ ابن ماجة قلت فیه شھر بن حوشب قال ابن الھمام فی فتح القدیر ص ۱۱ الصحیح فی شہر التوثیق وثقه ابو زرعة واحمد ویحییٰ و یعقوب بن شیبة قلت وکذا رحج توثیقه العلامة الترکمانی الجواهر المتقی۔ والزیلعی فی نصب الرایة له وحماد بن ضعفر العبدی البصری قال ابن معین ثقة وذکرہ ابن حبان فی الثقات علٰی ما فی تھذیب الحافظ))

ام شریک انصاریہ فرماتی ہیں۔ رسول خدا ﷺ نے ہمیں حکم فرمایا ہے کہ ہم جنازہ پر سورہ فاتحہ پڑھیں۔

(۳) ((وعن ام عفیف قالت بایعنا رسول اللّٰہ ﷺ حین بایع النساء فاخذ علیھن ان لا یحدثن الرجل الا محرما وامرنا ان نقوأ علی میتنا بفاتحة الکتاب رواہ الطبرانی فی الکبیر وفیه عبد المنعم ابو سعدید وھو ضعیف کذا فی مجمع الزوائد فی المجلد الثا نی ﷺوذکر ھذا الحدیث ایضاً الحافظ ابن حجر فی الاصاب جلد ۴ ص ۴۷۷ لفظ الاصابة علی جنائنا))

 ام عفیف نہدیہ فرماتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی، جبکہ آپ نے عورتوں سے بیعت لی تھی، آپ نے ان عورتوں سے بیعت میں عہد لیا تھا کہ تم غیر محرم مرد سے باتیں نہ کرنا اور ہمیں حکم فرمایا تھا کہ ہم اپنے جنازوں میتوں پر سورۃفاتحہ پڑھیں۔

(۴) ((وعن اسماء بنت یزید قالت قال رسول اللّٰہ ﷺ علی الجنازة فاقرأ والبفاتحة الکتب رواہ االطبرانی فی الکبیر وفیه مولٰی بن حمران ولم اجد من ذکرہ وبقیة رجاله موثقون فی بعض ھم کلام کذا فی مجمع الزوائد))

’’اسماء بنت یزید بن السکن خطیبہ النساء فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک جنازہ پر فرمایا پڑھو، سورہ فاتحہ کو۔‘‘

(۵) ((وعن ابن عباس قال أتی بجنازة جابر بن عتیك او قال سھل بن عتیك وکان اول من صلی علیه فی موضع الجنازہ فتقدم رسول اللّٰہ ﷺ فکبر فقرأ بام القرأن فجہر بھا ثم کبر الثانیة فصلی علی نفسه وعلی المرسلین ثم کبر الثالثة فدعا للمیت الحدیث راوہ الطبرانی فی الاوسط وفیه یحییٰ بن یزید بن عبد الملك النوفلی وھو ضعیف کذا فی مجمع الزوائد))

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جابر بن عتیق یا سہل بن عتیق (شک راوی کا) کا جنازہ آپ کے سامنے لایا گیا، سب سے پہلے جنازہ تھا، جو مخصوص جنازہ پڑھنے کی جگہ میں پڑھا گیا، سو آپ آگے بڑھے، اور تکبیر کہی، پھر سورہ فاتحہ زور سے پڑھی، پھر دوسری تکبیر کہی، اور اپنی ذات پر اور تمام رسولوں پر درود شریف پڑھا، پھر تیسری تکبیر کہی اور میت کے لیے دعا کی۔‘‘

 یہ تو ہوئیں، صریح مرفوع روایتیں جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھنے میں اب ہم وہ روایتیں ذکر کرتے ہیں جنہیں صحابہ نے تورعاً حضرت ﷺ کا نام نہیں ذکر کیا اور وہ روایتیں مرفوع ہیں۔

(۱)      دیکھو صحیح بخاری کتاب الجنائز باب قرأۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ ((عن طلحة بن عبد اللّٰہ بن عوف قال صلیت خلف ابن عباس علی جنازة فقرأ بفاتحه الکتٰب قال لتعلموا انھا سنة قلت لھذا لحدیث الفاظ وقد رفعه صریحاً بعض الرواة عنه الا ان الترمذی قال فی الجامع الصحیح عن ابن عباس قوله من السنة)) ’’طلحہ بن عبد اللہ کہتے ہیں میں نے ابن عباس کے پیچھے ایک جنازہ کی نماز پڑھی، تو انہوں نے سورہ فاتحہ بھی پڑھی بعد میں دریافت کرنے پر کہا کہ تم معلوم کر لو کہ یہ سنت ہے۔‘‘

(۲)      ((عن ابی امامة بن سہل بن حنفی وکان من کبراء الانصار وعلماء ھم وابناء الذین شہداوا بدرا مع رسول اللّٰہ ﷺ ان رجلا من اصحاب لانبی ﷺ اخبرہ ان السنة فی الصلوٰة علی الجنازة ان یکبر الامام ثم یقرأ بفاتحة الکتاب اخرجه الطحاوی فی معانی الاٰثار والشافعی فی الام ومسندہ والبیہقی وسند الحطاوی لا مطعون فیه وکذ االبیہقی الا ان فی روایة البیھقی اخبرہ رجال من اصحاب النبی ﷺ بدل رجل وقال قال الزھری وحدثنی بذلك ابو امامة وابن المسیب لیسمع فلم ذلك علیه ابن شہاب فذکرت الذی اخبرہ ابو امامة من السنة فی الصلوٰة علی المیت لمحمد بن سوید فقال وانا سمت الضحاك بن قیس یحدث عن حبیب بن مسلمة فی صلاة صلھا عل المیت مثل الذی حدثنا ابو امامة رضی اللہ عنه))

’’ابو امامہ اسعد بن سہل بن حنیف جو کہ انصار کے بڑوں میں سے ہے، اور ان کے علماء میں سے ہیں، اور بدریوں کے فرزند انہیں کئی ایک نبی ﷺ کے اصحاب نے بتایا کہ نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ کہ تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے۔‘‘

(۳)      ((عن ابی امامة بن سہل بن حنفی یحدث السعید ابن المسیب قال الفتح فی الصلوة علی الجنازة ان تکبر ثم تقرأ بام القرأن ثم تصلی علی النبی ﷺ ثم تخلص الدعاء للمیت وَلَا تتقرأ الا فی التکبیرة الاولٰی اخرجه ابن الجارود فی المنتقی ص ۲۶۵ قال الحافظ فی فتحه بعد ان اخرجه من کتاب عبد الرزاق والنسائی اسنادہ صحیح قلت اخرجَه ایضًا ابن ابی شیبة فی مصنفة فی الجزء الرابع ص ۱۱۱ وابن حزم فی المحلی جلدہ ص ۱۳۰))

’’ابو امامہ،مذکور نے سعید بن المسیب سے کہا، جنازہ کی نماز میں سنت یہ کہ تکبیر کہے، پھر سورہ فاتحہ پڑھے، پھر درود پڑھے، پھر خالص دعا کرے، قرأۃ صرف پہلی ہی تکبیر میں پڑھے۔ (شیبہ)‘‘

صحابی جب من السنۃ کہے، تو وہ حدیث بھی مرفوع ہی ہوتی ہے، تمام محدثین کے نزدیک امام نووی مقدمہ شرح صحیح مسلم صفحہ ۱۷ میں فرماتے ہیں۔

((واما اذا قال الصحابی امرنا بکذا اونھینا عن کذا او من السنة کذا فکله مرفوع علی المذهب الصحیح الذی قاله الجمهور من اصحاب الفنون قال ابن الہمام فی الفتح قول الصحابی من السنة حکمه الرفع عنه الجمھور ذکرہ فی الحج))

علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ ظفر الاصانی فی شرح مقدمہ جرجانی صفحہ ۱۱۳ میں بعد طویل بحث کے فرماتے ہیں۔

((اقول والاحسن عندی فی ھذا المبحث مذھب ائمة الحدیث وعلیه اعتمادی))

’’میری اس مبحث میں ائمہ حدیث کا مذہب بہت اچھا ہے، اسی پر میرا عتماد بھی ہے۔‘‘

اب چند آثار صحابہ کو ملاحظہ فرما دیں۔

(۱) ((عن عبید بن السباق قال صلی بنا سھل بن حنیف علی جنازة فلما کبر التکبیر الاولیٰ قرأ بام القرأن حتی اسمع من خلفه اخرجه البیہقی فی السنن ج ۴ ص ۳۹ والدرقطنی ج ۱ ص ۱۹۱ و ابن شیبة فی المصنف فی الجزء الرابع ص ۱۱۳))

’’عبید بن سباق فرماتے ہیں کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے ہمیں ایک جنازہ پڑھایا، پہلی تکبیر کہی تو سورہ فاتحہ پڑھی، اس طرح کہ مقتدیوں کو بھی سنایا۔‘‘

(۲) ((روی ابن ابی شیبة عن ابن مسعود انه قرأ علی الجنازة بالفاتحة کذا فی المحلی للشیخ سلام اللّٰہ الدھلوی والمحلی لابن حزم ج۵ ص ۱۲۹ والبیھقی ج ۴ ص ۳۹ وابن المنذر وسعید بن منصور))

’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ پڑھی۔‘‘

(۳) ((ان المسور بن فحرمة صلی علی جنازة فقرأ فی التکبیرة الاولیٰ فاتحة الکتاب وسورة تصیرة ورفو بھما صوته اَخْرَجَه ابن حزم فی المحلی ج ۵ ص ۱۲۹))

’’مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے نما زپڑھی ایک جنازہ پر پہلی تکبیر میں سورہ فاتحہ اور ایک چھوٹی سی سورت پڑھی اونچی آواز سے۔‘‘

(۴) ((عن عبد اللّٰہ بن عمرو بن العاص انه کان یقرأ بام القراٰن بعد التکبیر الاولیٰ علی الجنازة اخرجه الامام الشافعی فی کتاب ام ج ۱ ص ۲۶۶ والمسند ایضاً قال الامام الشافعی وبلغنا ذٰلك عن ابی بکر الصدیق وسھل بن حنیف وغیرھما من اصحاب النبی ﷺ))

’’عبد اللہ بن عمرو بن العاص تکبیر اولیٰ کے بعد جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے، ابو بکر صدیق اور سہل بن حنفی اور دیگر صحابہ سے بھی اسی طرح آیا ہے۔‘‘

(۵) ((عن مجاهد رحمه اللہ قال سألت ثمانیة عشر رجلا من اصحاب رسول اللّٰہ ﷺ عن الصلوة علی الجنازة فتکلھم یقول کبر ثم اقرأ فاتحة ثم کبر ثم صلّی علی النبی ﷺ کذا فی غنیة الطالبین للشیخ عبد القادر الجیلانی فی فصل صلوٰة الجنازة ج ۲ ص ۱۴۸ ورواہ الاثرم ذکرہ الشرنبلالے نقلا عن اسنادہ عن قاسم بن قطلوبغا علی م فی التعلیق الممجد))

’’مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں اٹھارہ حضرت ﷺ کے صحابیوںسے جنازہ کی نماز کے متعلق دریافت کیا، سب نے یہی کہا کہ تکبیر کہہ پھر سورۃ فاتحہ پڑھ،ج پھر تکبیر کہہ، اور درود پڑھ اور بھی صحابہ کے آثار ہیں، جنہیں اختصار کی غرض سے ترک کیے دیتا ہوں۔‘‘

امام ابن حزم نے جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے والوں میں ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ، ابو داؤد رضی اللہ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو محلی صفحہ ۱۳۰ ج ۵ میں بیان کیا ہے، تابعینوں میں سے بھی بہت سے افراد ایسے ہیں، جو جنازہ میں سورہ فاتحہ کو مسنون جانتے ہیں، خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ سے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح میں نقل فرمایا ہے۔

((قال الحسن یقرأ علی الطفل بفاتحة الکتاب ویقول اَللّٰھُمَّ اجْعَلْه لَنَا سَلَفًا وَفَرَطًا وَاَجْرًا))

’’خواجہ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، بچے پر سورۃ فاتحہ اور ((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا)) اخیر تک پڑھا جائے۔‘‘

 غرضیکہ سورہ فاتحہ جنازہ کی نماز میں پڑھنا نبی ﷺ اور صحابہ و تابعین سے ثابت ہے، جو یہ کہے کہ کسی صریح مرفوع حدیث سے ثابت نہیں وہ محض لغو کہتا ہے، اس نے ان حدیثوں کو یا تو دیکھا ہی نہیں، یا اگر دیکھا بھی ہے تو نفسانیت و عصیبت کے نقاب نے بصارت قلبی پر پورا قبضہ کر رکھا ہے، بھلا کوئی ان صحاح صراع کا انکار ذوی البصارت کر سکتا ہے ۔اللہ میاں اُسے نیک سمجھ دے، فاضل ابن الہمام سے بھی ایک ایسی ہی غفلت ہو گئی ہے کہ انہوں نے بھی لکھ دیا کہ ((لم یثبت القرأة عن رسول اللّٰہ ﷺ کام فی الفتح)) اس قدر واضح بات کا انکار کرنا ان جیسے محقق کی شان سے بعید ہے۔ ہم نے تھوڑی دیر کے لیے تسلیم بھی کر لیا، تب بھی ان کے اس کہنے سے سورہ فاتحہ کے پڑھنے کی حرمت ثابت نہیں ہو سکتی، ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ صلوٰۃ الجوائز میں فرماتے ہیں۔ ((اذا کل ما لم یثبت فعل علیہ السلام لم یلزم من ان یکون حراماً او مکروھاً بل یتوقف حکمھا علٰی نہی قطعی او ظن)) اس لیے کہ جس چیز کا کرنا آپ سے ثابت نہ ہو، اس سے یہ لازم نہیں آیتا، کہ ہو چیز حرام یا مکروہ ہے، بلکہ ان دونوں کے حکم کے لیے قطعی ممانعت یا ظن کا ثبوت چاہیے، اس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ سے یعنی جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی ممانعت کسی ایک حدیث میں بھی ثابت نہیں، اس مسئلہ میں رسول اللہ ﷺ سے یعنی جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی ممانعت کسی ایک حدیث میں بھی ثابت نہیں صرف حدیث ((اَخْلِصُوْا لَهُ الدُّعَاءِ)) سے استدلال کیا ہے یہ بھی بڑی جدوجہد کے بعد انہیں دلیل ملی ہے، فاضل علامہ عبد الحئی لکھنوی رحمہ اللہ غیث الغمام صفحہ ۸۳۸ میں فرماتے ہیں، ((وغایة ما استدل به اصحابنا ھو حدیث ابی ھریرة رضی اللہ عنه مرفوعاً اذاز صلیتم علی المیت فاخلصوا له الدعاء وھولاء یثبت منع القرأة بل الغرض منه الاکثار فی الدعاء للمیت والاخلاص فیه یستجاب فافھم واستقم)) بہت بہت کر کے جانفشانی سے اگر ہمارے حنفیوں کو دلیل ملی جس سے انہوں نے مذہب کی دلیل پکڑی ہے، وہ صرف ابو ہریرۃ کی حدیث ہے، مرفوع کہ تم جب میت کے لیے نماز پرھو، تو خلاصیت سے اس کے حق میں دعا کرو، سو اس سے پڑھنے کی ممانعت نہیں ثابت ہو سکتی، بلکہ اس سے تو صرف اسی قدر غرض ہے، کہ خوب خلاصیت کے ساتھ میت کے حق میں دعا کرنا چاہیے تاکہ دعا قبول ہو، آسان بات کو سمجھو، سیدھی راہ چلو۔

امام ابن حزم محلی صفحہ ۱۳۰ میں فرماتے ہیں۔

((واحتج من منع من قرأة القراٰن فیھا بان قالوا اروی عن النبی ﷺ اَخْلِصُوا لَهُ الدعاء وقال ابو محمد ھٰذا حدیث ساقط ما روی قط منم طریق یشتغل بھا ثم لسو صح لما منع من القرأة لانه لیسن فی اخلاص الدعاء المیت عن القرأة ونحن نخلص له الدعاء وفقرأ کما اُمِرْنَا))

جنازہ کی نماز میں پڑھنے والوں نے حدیث ((اَخْلِصُوْا لَهُ الدُّعَاء)) سے استدلال کیا ہے، امام ابن حزم کہتے ہیں اولاً تو یہ حدیث بھی قابل حجت نہیں، اور نہ ہی ایسے طریق سے وارد ہے کہ اس کے جواب میں مشغولتی کی جائے، ثانیاً اگر اس کی صحت کو تسلیم بھی کر لیا جائے، تب بھی پڑھنے کی ممانعت نہیں ہو سکتی، اخلاص دعاء مانع قرأۃ نہیں، ہم اخلاص بھی دعا میں کرتے ہیں، اور پڑھتے بھی ہیں، جس طرح ہمیں شارح علیہ السلام کا حکم ہوا، علامہ فاضل لکھنوی تعلیق المجد صفحہ ۱۳۱ میں فرماتے ہیں، حسن شرنبلای صاحب مراقی الفلاح نے ایک رسالہ بنام ((النظم المستطاب الحکم القرأة فی صلوة الجنازة بام الکتاب تصنیف)) کیا ہے۔ ((وفیھا علی من ذکرا لکراھة بدلائل شافیة و ھذا ھوالاء لی لثبوت ذٰلك عن رسول اللہ ﷺ)) اس میں کراہیت کہنے والوں پر کافی شافعی دلیلوں سے رد کیا ہے، اور یہ اولیٰ ہے، حضرت ﷺ اور آپ کے اصحاب سے ثابت ہونے کی وجہ ہے،۔ واللہ اعلم۔

جواب نمبر (۲):… سورہ فاتحہ کے ساتھ کسی ایک سورت کا ملانا شرعاً درست ہے، حدیث مسور بن مخرمہ نمبر ۱ آثار صحابہ میں دیکھو، نیز ((عن طلحة بن عبد اللّٰہ بن عوف قال صلیت خلف ابن عباس علٰی جنازة فقرأ بفاتحة الکتاب وسورة وجھر حتی اسمعنا فلما فرغ اخذت بیدہ فسألته فقال سنة وحق اخرجه النسائی وابن الجارود فی المنتقی ص ۳۶۴ وسنادھما صحیح وذکر السورة ابن الجارود باسانید کلھا صحاب جیاد وما قله البیہقی ذکر السورة غیر محفوظ فقد تعقب علیه العلامة الترکمانی فی الجواھر النقی ج۴ ص ۳۸ وقال بَل ھو محفوظ رواہ النسائی عن الھیثم بن ایوب عن ابراهیم بن سعد بسندہ))

’’طلحۃ بن عبد اللہ بن عوف نے کہا میں نے ابن عباس کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی، انہوں نے سورۃ فاتحہ اور ایک سورۃ زور سے پڑھی، سلام کے بعد میں نے اُن کا ہاتھ پکڑ لیا، اور دریافت کیا تو مجھے جواب دیا کہ یہ سنت اور حق ہے، واللہ اعلم۔‘‘

جواب نمبر (۳):… نماز جنازہ کو زور سے پڑھنا شرعاً درست ہے، دیکھو مستورد بالا حدیثیں، نیز متقی لابن الجارود ص ۲۶۴ میں ابن عباس رضی اللہ عن کی روایت کے لفظ یہ ہیں۔ ((انما جھرت لا علمکم انھا سنة والامام کَفاھا)) زور سے پڑھنا درست نہ ہوتا تو یہ روزے پڑھ کر یہ نہ فرماتے۔ نیز جنازہ زور سے پڑھنا نبی ﷺ سے بھی ثابت ہے۔ دیکھو فتح القدیر صٖحہ ۱۹۱۰۲ ج ۱ ((روی ابو داؤد عن واثلة بن الاسقع قال صلی بنا رسول اللہ ﷺ علی رجل من المسلمین فسمعة یقول اَللّٰھُمَّ ان فلان بن فلان فی ذمتك وحبل جوارك الحدیث وروی ایضاً حدیث ابی ھریرة سمعہت من النبی ﷺ یقول اَللّٰھُمَّ رَبُّھَا وَاَنْتَ خَلَقْتَهَ اَنْتَ ھدیتھما للاسلا))’واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، نماز پڑھائی ہمیں رسول الہ ﷺ نے ایک مرد مسلمان کی میں نے سنا، آپ کو کہتے ہوئے، ((اَللّٰھُمَّ ان فلان بن فلان)) اس جگہ اس کا اور اس کے باپ کا نام لے ((فی ذمتك وحبل جوارك)) اخیر تک اور نیز مروی ہے، ابو ہریرۃ سے انہوں نے کہا میں نے نبی ْﷺ کو کہتے سنا ((اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبُّھَا)) اخیر تک۔‘‘

ان حدیثوں سے صاف اور واضح طورسے ثابت ہوا کہ جنازہ زور سے پڑھنا، حضرت ﷺ سے ثابت ہے، اسے مکروہ کہنا عصیبت سے خالی نہیں، جو کام نبی ﷺسے ثابت ہو، اُسے برا کہنا برا جاننا مکروہ کہنا ایک مسلم انسان کا دل کیونکر گوارا کر سکتا ہے، اُس نے تو اپنے نبی کے فعل پر حرف گیری کی، اللہ میاں نیک توفیق دے، ماحصل اس کا یہ ہے کہ جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورۃکا پڑھنا اور نیز جنازہ کی نامز آواز سے پڑھنا شرعاً ثابت ہے، مکروہ یا حرام کہنا بے علمی و بے خبری کا ثمرہ ہے، واللہ اعلم، ((وعلمه اتم واحکم هزا ما سخ ببالی الفاتر وانا الراجی رحمة اللہ ربه،)) ابو عبد الکبیر محمد، عبد الجلیل السامرودی کان اللہ لہٗ، حررہ ثمان و عشرین من رجب المرجب احد من شہور سنۃ اثنین و خمیس وثلاثما بعد الالف وصلی اللہ النبی وآلہٖ واصحابہٖ وسلم،

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 140-151

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ