السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شیعہ عالم فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام کا جنازہ صرف نو آدمیوں نے پڑھا تھا، یہ کہاں تک صحیح ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شیعوں کے مشہور قبل وکعبہ جناب سید ذاکر حسین جعفر لکھنوی نے بقول ا ن کے پچاس سے زیادہ مستند عربی، فارسی، انگریزی اور اردو تاریخوں کو پیش نظر رکھ کر اپنی کتاب ’’تاریخ اسلامی‘‘ تصنیف کی ہے، وہ جلد اول صفحہ ۲۰ پر حضور ﷺ کے انتقال کے متعلق لکھتے ہیں، ۲ ربیع الاول، یوم دو شنبہ (سوموار) کو بوقت دوپہر انتقال فرمایا، دوسرے دن منگل کا دن گذر کر شب چہار شنبہ آدھی رات کو جس حجرہ میں وفات پائی وہیں دفن ہوئے، دفن میں تاخیر (جنازہ) کی وجہ سے ہوئی، کیونکہ جوق در جوق لوگ دس دس کی تعداد سے حجرہ میں جا کر نماز پڑھتے تھے، یہ کچھ شیعہ امام طبری جلد اول صفحہ ۱۳۲ مطبوعہ حیدر آباد دکن لکھتا ہے کہ آپ ﷺ پر کئی روز تک نماز پڑھی گئی، لوگ آتے تھے، اور علیحدہ علیحدہ نماز پڑھتے تھے، آپ شب چہار شنبہ میں کچھ رات گذرنے پر دفن کیے گئے، آپ کے نیچے آپ کے چار جامہ کا ایک ٹکڑا ڈال دیا گیا، آپ کی قبر ہموار بنائی گئی، کوہان شیر کی طرح نہیں بنائی گئی، اب جوق در جوق دس دس جانے والوں کو حساب کم از کم ۳۶ گھنٹہ میں زیادہ سے زیادہ ۳ منٹ فی باری لگایا جائے، تو جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد سات ہزار دو سو بتیس ہے، آپ سات کی بجائے چھ، پانچ حد چار ہزار کر لیویں، نہ کہ صر ف نو آدمیوں نے جنازہ کی نماز پڑھی معلوم ہوتا ہے، سید ذاکر حسین کے پچاس مؤرخ اور طبری سب سے چھوٹے تھے، اصل بات رام چندر نے کرشن کو بدھ کو اور بدھ نے اپنے گرو کے ذریعہ کسی افسانہ نویس کے کان ڈال دی، اور چپکے سے سائل کو کہہ دی۔ (اہل حدیث سوہدرہ جلد نمبر ۱۵ شمارہ نمبر ۱۸)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب