السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
یہاں بعض شیعہ بھائی اس امر کا پروپیگنڈا کر رہے ہیں، کہ اصحابہ ثلاثہ نے آنحضرت ﷺ کا جنازہ نہیں پڑھا، نہ ہی اس کا ثبوت کسی کتاب سے ملتا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھے، منافق تھے، ازراہ کرام اس کا ضرور جواب دیجئے اور مدلل جواب دیجئے، ورنہ سارے علاقہ پر اس کا بہت برا اثر پڑے گا۔ (عبد الحق ضلع جھنگ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلی بات یہ ہے، کہ یہ سوال بالکل بے قاعدہ ہے، اصل اس مسئلہ میں شیعہ مدعی ہیں، بار ثبوت ان پر ہے، کیونکہ وہ اسی بات کے قائل ہیں جو بظاہر حال کے خلاف ہے حضرات خلفاء کا جنازہ پڑھنا تو ایک معمولی بات ہے، ایسی معمولی باتوں کے ذک رکی بھی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ نہ پڑھنا ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، اس کے لیے یقینا بہت زبردست ثبوت کی حاجت ہے لہٰذا شیعوں کا فرض تھا، کہ وہ روایات میں صریح تصریح اس بات کی دکھاتے کہ ان تینوں نے جنازہ نہیں پڑھا۔ بلکہ اتنے بڑے اہم معاملہ کے لیے ایک دو روایاۃ بھی کافی نہیں ہو سکتیں جو واقعہ ایسی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہو اس کے ثبوت کے لیے جم غفیر کی شہادت ہونی چاہیے، مگر شیعوں نے اب تک نہ کوئی روایت پیش کی نہ اب کر سکتے ہیں۔ اور الٹا ثبوت ہم سے مانگتے ہیں، یہ سوال ابھی چند روز سے اُٹھایاگیا ہے، اگر اس کی کچھ اصلیت ہوتی تو اُن کے مقلدین مطا عن اصحابہ ثلاثہ میں سب سے پہلے اسی کو پیش کرتے، بہرحال ہم شیعوں کی معتبر کتابوں سے اس کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔
(۱) اصول کافی میں جو اقدم اصول اربعہ ہے اور سب سے زیادہ معتبر ہے۔ صفحہ ۲۸۶ مطبوعہ لکشور میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَلَیْهِ السَّلَام قَالَ اَتَی الْعَبَّاسُ اَمِیْرُ الْمَؤَمِنِیْنَ فَقَالَ اِنَّ النَّاسَ اِجْتَمِعُوْا اَنْ یَدْفَنُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ فِیْ بَقِیْعِ الْمُصلٰی وَاَنْ یَؤُمَّھُمْ رَجُلُ مِنْھُمْ فَخَرْجَ اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ اِلَی النَّاسِ فَقَالَ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ اِمَامٌ حَیًّا وَمَیِّتًا وَقَالَ اِنِّیْ اُدْفَنُ فِیْ الْبُقْعَةِ الَّتِیْ اُقْبَضُ فِیْھَا ثُمَّ قَامَ عَلَی الْبَابِ فَصَلّٰی عَلَیْهِ ثُمَّ اَمرَ النَّاس عَشْرَةَ عَشْرَة یُصَلُّوْنَ عَلَیْهِ ثُمَّ یَخْرُجُوْنَ))
(۲) پھر اسی صفحہ میں ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں۔
((عَنْ اَبِیْ جَعْفَرٍ عَلَیْهِ السَّلَامَ قَالَ لَمَّا قُبِضَ النَّبِیُّ ﷺ صَلَّتْ عَلَیْهِ الْمَلَائِکَةُ وَالْمُھَاجِرُوْنَ وَالْاَنْصَارُ فَوْجًا فَوْجًا))
’’جب آنحضرت ﷺ کی روح پرواز کر گئی تو آپ پر ملائکہ، مہاجرین، اور انصار کی فوج در فوج ہو کر نماز پڑھی۔‘‘
(۳) احتجاج طبرسی کہ وہ بھی شیعہ کی معبر کتاب ہے، اور اس کے مصنف شیخ احمد بن ابی طالب طبرسی نے دیباچہ میں تصریح کی ہے، کہ نہایت صحیح روایاۃ اس کتاب میں ہیں، یہ روایت موجود ہے،اور اس روایت کے آخر میں یہ جملہ ہے۔
((حَتّٰی لَمْ یَبْقُ مِنَ الْمُھَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ اَحَدٌ اِلَّا صَلَّی عَلَیْهِ))
’’یعنی مہاجرین، اور انصار میں سے کوئی باقی نہ رہا، جس نے جنازہ نہ پڑھ لیا ہو۔‘‘
(۴) حیاۃ القلوب شیعہ حضرات کی ایک نہایت مستند اور معتبر کتاب ہے جس کی تعریف میں وہ خود رطب اللسان رہتے ہیں، اس میں آنحضرت ﷺ کے جنازہ کی کیفیت بایں الفاظ قلمبند کی گئی ہے بسند حسن حضرت صادق علیہ السلام روایت کردہ اند کہ عباس بخدمت حضرت امیر المؤمنین مدد گفت کہ مردم اتفاق کردہ اند کہ حضرت رسول ﷺ رادر بقیع دفن کنند و ابو بکر پیش بایستد وجہ آنحضرت نماز جنازہ کند چوں حضرت امیر المومنین داسنت کہ آن منافقان ارادہ فساد دارند، از خانہ بیروں آمددد فرمود کہ یا اَیہا الناس بدرستیکہ رسول خدا ﷺ امام پیشوائے ماست در حیات و بعد از وفات خود مفرمود کہ من دفن یشوم در بقعہکہ آنجا قبض روح من میشود دچوں ایشان در غصب خلافت مطلب خود را بعمل آور دہ بدند، درین باب بآنحضرت ﷺ مضائقہ نکردند، وگفتند آنچہ میدان بکن پس حضرت در پیش در ایستاد و خود برادر نماز کرد، و بعد ازان صحابہ رافرمود کہ وہ نفردہ نفر داخل میشدند وایشاں بردر آنحضرت ﷺ مے ایستاوند و حضرت امیر المؤمنین درمیان ایشاں مے ایستاد و این آیت رامے خواند۔
﴿اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَه یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِی یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْ عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمَا﴾
پس ایشان آیت رامے خواند ند و صلوات فرستادند و شیخ طبرسی از حضرت امام باقر علیہ السلام روایت کردہ است کہ وہ نفردہ نفر داخل مے شد ند و چنین بر آنحضرت نماز میکروند بے امام در روز دو شنبہ تا شام آنکہ خرد و بزرگ و مرد و زن از اہل مدینہ و اہل اطراف مدینہ ہمہ برآنجناب چنین نماز کردند، وکلینی بسند معتبر از امام محمد باقر رواتی کردہ است کہ چوں حضرت رسالت مآب رحلت فرمود نماز کردند براو جمیع ملائکہ و مہاجرین و انصار فوج، فوج۔
(حیات القلوب جلد نمبر۲ ص ۸۶۶، اور دوسرے مقام پر اسی واقعہ کو بایں الفاظ قلمبند کیا گیا ہے۔
پس دہ نفردہ نفر مہاجران و انصار را داخل حجرہ میگردانند، دایشاں بر آنحضرت ﷺ ہماں بود کہ در اول واقعہ شد،
(حیات القلوب جلد دوم صفحہ ۷۶۷ اب غالباً اہل سنت کی روایت تو نقل کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی، ہماری روایات میں جس واقعہ کو شیعوں نے ’’اصول کافی‘‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مکررہ کیا ہے، ہو سب حضرت صدیق اکبر سے مروی، یعنی حضور پر نور ﷺ کے جنازہ پر دفن کفن کا سارا انتظام حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو (ازالۃ الخفا جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر۲۵)
(اہل حدیث سوہدرہ جلد نمبر ۶ شمارہ نمبر ۲۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب