سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(64) خود کشی کر کے مر جانے والے شخص کا جنازہ

  • 4255
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 2050

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین کہ خود کشی کر کے مر جانے والے شخص کا جنازہ ازروئے شریعت پڑھنا چاہیے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خود کشی کرنے والے کے جنازہ پرھنے میں علماء کا اختلاف ہے، حضرت عمر بن عبد العزیز اور امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے، اس نے معصیت کا ارتکاب کیا ہے، اور ایسے شخص پر آنحضرت ﷺ نے نماز نہیں پڑھی، چنانچہ صحیح مسلم میں ہے، ((عن جابر بن سمرة قَالَ اُتِیَ النَّبِیْ بِرَجُلَ قَتَلَ بِمَشَافِضَ فَلم یُصَلّیْ عَلَیْہِ)) ’’یعنی آنحضرت ﷺ کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا، جس نے جسم میں تیر مار کر خود کشی کر لی تھی، آپ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔‘‘ اس کے برعکس امام حسن بصری رحمہ اللہ امام نخعی رحمہ اللہ، امام قتادہ رحمہ اللہ، امام مالک رحمہ اللہ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور جنہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے پر نماز جنازہ پڑھنی چاہیے، اور اس کو جنازہ کے بغیر دفن نہیں کرنا چاہیے، ان علماء کے نزدیک خود کشی کرنے والے پر آنحضرت ﷺ کا جنازہ نہ پڑھنا، زجراً و تنبیہ پر محمول ہے تاکہ لوگ اس قسم کے فعل کا ارتکاب نہ کریں ورنہ صحابہ نے اس کا جنازہ پڑھا تھا، (نووی شرح مسلم) امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں لکھتے ہیں۔

((اَجَابُوْا عَنْ حَدِیْثِ جَابِرٍ بِاَنَّ النَّبِیَّ اِنّمَا لَمْ یُصَلّوعَلَیْهِ بِنَفْسِه زَجْرًا لِلنَّاسِ وَصَلَّتْ عَلَیْهِ الصَّحَابَةُ وَیؤیّده مَا عِنْدَ النسائِیْ بلفظ اَمَّا فَلَا اُصَلِّیْ عَلَیْهِ))(ج۴ ص ۴۱)

’’یعنی علماء نے جابر کی مذکورہ بالا حدیث کا جواب یہ دیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے زجر و توبیخ کے لیے اس کا جنازہ نہیں پڑھا ورنہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھ کر اس کو دفن کیا تھا، چنانچہ نسائی شریف کے ان الفاظ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا میں اس کا جنازہ نہیں پڑھوں گا۔‘‘

صاحب سبل السلام لکھتے ہیں کہ آپ نے صحابہ کو اس کا جنازہ پڑھنے سے منع نہیں فرمایا عام احادیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خودکشی کرنے والے اور اسی قسم کے دیگر فساق فجور کا جنازہ پڑھنا چاہیے اور بغیر جنازہ کے دفن نہیں کرنا چاہیے۔ ابو داؤد میں ہے۔

((عَنْ اَبِیْ ھُرِیْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ َالصَّلٰوةُ وَاجِبَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا کَانَ اَوْ فَاجِرًا وَاِنْ عَمِلَ الْکَبَائِرِ))

’’یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہر مسلمان نیک یا بد پر نماز جنازہ واجب ہے، خواہ وہ زندگی میں کبیرہ گناہوں کا ہی ارتکاب کرتا رہا ہو۔‘‘ (مشکوٰۃنمبر۱)

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

((صَلُّوْا عَلٰی مَنْ قَالَ لَا اِلٰهَ الَّا اللّٰہُ))(رواہ الدارقطنی)

’’یعنی ہر مسلمان کا جنازہ پڑھو۔‘‘

((وانظر التفصیل فی النیل باب امامة الفاسق من ابواب الصلوٰة)) (مشکوٰة شریف)

’’ہاں تنبیہ اور عبرت کے لیے، اہل علم اور مقتداء حضرات نماز جنازہ نہ پڑھائیں۔‘‘

عام لوگ پڑھ لیں، بغیر جنازہ کے دفن نہ کریں اور یہی مسلک صحیح ہے۔

(حافظ محمد اسحاق صحاب صدر مدرس تقویۃ الاسلام) (الاعتصام، جلد نمبر ۱۹، شمارہ نمبر ۱۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 135

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ