سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) جنازہ اٹھاتے وقت باری باری بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھنا جائز ہے؟

  • 4253
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 1718

سوال

(62) جنازہ اٹھاتے وقت باری باری بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھنا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنازہ اٹھاتے وقت باری باری بآواز بلند کلمہ شہادت پڑھنا جائز ہے؟ اس طرح ذکر کا کوئی ثبوت ہے؟ جو کہ بعض شہروں میں رواج پذیر ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ صورت میں کلمہ پڑھنے کا قرون اولیٰ بلکہ زمانہ ٔ اسلاف میں بھی ذکر نہیں ملتا البتہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس میں کچھ حرج نہیں، کیونکہ یہ کلمہ مستحب اذکار میں سے ہے، اور اس میں کسی جگہ وقت کی قید نہیں ہے، صرف بلند آواز سے پڑھنا موجب کراہت نہیں گو اس کا ترک اولیٰ ہے۔

متاخرین میں سے کسی نے اس کے جواز پر مستقل رسالہ رکھا ہے، بعض اوقات اس طرح بآواز بلند پڑھنے کا ایک خاص فائدہ یہ ہوتا ہے۔ کہ لوگ موت کو یاد کرتے ہیں، جبکہ آنحضرت ﷺ کا حکم بھی ہے کہ موت کو زیادہ یاد کرو، مزید براں اس سے جنازہ اٹھانے والے محفوظ ہوں گے، جنازہ اٹھانا بلاشبہ موجب اجر عظیم اور سنت ثابتہ ہے۔ لیکن اہل حرمین شریفین کا شمار اس سلسلے میں بہتر ہے، وہ جنازہ اٹھاتے وقت کہتے ہیں۔ ((کَانَ مِنْ اَھْلِ الْخِیْرِ)) اگرچہ اس طرح کہنے کا ذکر بھی قرون اولیٰ میں ہیں، تاہم اس میں میت کا نیکی کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اور حدیث ہے۔ ((مَنْ شَھِدَ لَه اَرْبَعَةٌ اَوْ ثَلٰثَةٌ اَوْ اِثْنَانِ دَخَلَ الْجَنّةَ))

یعنی جس کی نیکی کی گواہی چار یا تین یا دو آدمیوں نے بھی دے دی وہ جنت میں داخل ہو گیا اس طرح کی اور بھی بہت احادیث ہیں، اسی طرح حدیث میں کہ جس کی نماز جنازہ تین صفوں نے یا چالیس آدمیوں نے پڑھی، وہ بھی اس کی بخشش کے اسباب میں اسے ہو سکتی ہے، معلوم ہی ہوتو ہے کہ اس طرح کرنا جائز ہے، میت کو اس سے فائدہ پہنچنا ممکن ہے۔

اقرب الی الصواب اور اولیٰ یہی ہے کہ تجہیز و تکفین و تشیبع و تدفین اسی طریقہ پر کی جائے کہ جو قرون اولیٰ اور اسلاف سے ثابت ہے، احادیث صحیحہ و سنن ثابتہ پر نہ کمی کی جائے نہ زیادتی۔ ((وَالْمُھْدِیْ مِنْ ھَدَاہُ اللّٰہٗ واللّٰہ اعلم بالصواب))

(الدلیل الطالب علی ارجع المطالب ص ۳۹۷ تا ۳۹۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 132

محدث فتویٰ

تبصرے