سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(61) مقروض کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟

  • 4252
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4932

سوال

(61) مقروض کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مقروض کی نماز جنازہ کا کیا حکم ہے؟ اس سلسلے میں جو احادیث وارد ہیں، وہ کسی ہیں؟ مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مقروض کے جنازہ کے متعلق حدیث صحیح ہے، مسند احمد، صحیح بخاری، اور سنن نسائی میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

((قَالَ کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَاُتِیَ بِجَنَازَةٍ فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺَ صَلِّی عَلَیْھَا قَالَ ھَلْ تَرك شَیْئًا قَالُوْا لَا قَالَ عَلَیْهِ دَیْنٌ قَالُوْا ثَلٰثَةٌ دنَانیر قَالَ صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ فَقَالَ اَبُوْ قِتَادَةَ صَلِّ عَلَیْهِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَعَلَیَّ دَیْنُه فَصَلّٰی عَلَیْهِ))

’’یعنی ایک میت پر آپ ﷺ کو نماز جنازہ پڑھانے کی درخواست کی گئی آپ ﷺ نے دریافت فرمایا اس نے کچھ مال چھوڑا ہے لوگوں نے نفی میں جواب دیا، پھر فرمایا اس پر کوئی قرضہ ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ تین دینار کا مقروض تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: تم (خود ہی) اس کی نماز جنازہ پڑھ لو، اس پر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ آپ نماز جنازہ پڑھائیں میں قرض ادا کر دوں گا، پھر آپ ﷺ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔‘‘

اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ، ابو داؤد، ترمذی نسائی اور ابن ماجہ نے یہ حدیث نقل کی ہے، اس میں الفاظ ہیں۔ ((فَقَالَ اَبُوْْ قِتَادَةَ اَنَا َتَکَفّلُ بِه)) ’’یعنی میں اس کی کفالت کا ذمہ لیتا ہوں۔‘‘حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث مسند احمد سنن ابی داؤد سنن نسائی، صحیح ابن حبان اور دارقطنی میں ہے، فرماتے ہیں:

((کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ علیه وسلم لَا یُصَلِّیْ عَلٰی رَجُلٍ مَاتَ وَعَلَیْهِ دَیْنٌ فَاُتِیَ بِمَیَّتٍ سأل اَعَلَیْهِ دَیْنٌ قَالُوْا نَعَمْ دَیْنَارًا انِ قَالَ صَلُّوا عَلٰی صَاحِبِکُمْ فَقَالَ اَبُوْ قَتَادَةَ ھَمَا عَلَیَّ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ فَلَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِه قَالَ اَنَا اَوْلٰی بِکُلِّ مُسْلِمٍ مِنْ نَفْسِہٖ فَمَنْ تَرَكَ دَیْنًا فَعَلَیَّ وَمَنْ تَرَكَ مَا لَا فَلِوَرِثَتِه))

’’یعنی آپ ﷺ مقروض کی نماز جنازہ نہ پڑھتے تھے، ایک میت ہوئی تو آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، اس پر قرض ہے، لوگوں نے کہا، دو دینار کا مقروض ہے، آپ ﷺ نے فرمایا تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو، ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے اس کا ذمہ اٹھا لیا، جب اللہ تعالیٰ نے فراخی دے دی تو آپ ﷺ نے فرما دیا، میں ہر مسلمان سے خود اس سے بھی زیادہ قریبی ہوں۔، اگر کوئی مال چھوڑے، وہ ورثہ لیں، اور اگر کوئی قرض چھوڑ کر دے گا، تووہ میں ادا کروں گا۔‘‘

اسی طرح دارقطنی اور بیہقی میں ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

((قَالَ کُنَّا مَِعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مِنْ جنازة فَلمَّا وُضِعَتْ قَالَ ﷺ ھَل عَلٰی صَاحِبِکُمْ مِنْ دَیْنٍ قَالُوْ نَعَمْ دِرْھَمَانِ قَالَ صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ قَالَ عَلِِیٌّ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْه یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ھُمَا عَلی وَانَا لَھُمَا ضَامِنٌ فَقَامَ یَُصَلِّی ثُمَّ اَقَبَلَ عَلٰی عَلِیَّ فَقَال جَزاك اللّٰہ عَنِ الْاَسْلِامِ فینہا وَفٰك رِھَانَك کَمَا فَطَلْتَ رِھَانَ اَخِیْك مَا مِنْ مُسْلِمٍ فَك رِھَانَ اَخِیْهِ اِلَّا فَك اللّٰہُ رِھَانَه یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَقَالَ بَعْضُھُمْ ھٰذَا لِعَلّی خَاصَّةٌ اُم لِلْمُسْلِمِیْنَ عَامَةً فَقَالَ لِلْمُسْلِمیْنَ عَامَةً))

’’یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قرض ادا کرنے کا وعدہ کر لیا، تو آپ ﷺ نماز جنازہ پڑھانے پر رضا مند ہوئے، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کی نیک جزا دے، اور آپ کو نجات دے، جیسے کہ آپ نے اسے نجات دلائی ہے، جو مسلمان اپنے بھائی کا ذمہ اٹھا کر اسے رہائی دلوائے اللہ تعالیٰ اسے نجات دیں گے کسی نے پوچھا کیا یہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے وعدہ ہے فرمایا نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔‘‘

اس حدیث کی سند میں کلام ہے، مسند احمد، ابو داؤد، نسائی اور دارقطنی میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

((قَالَ تُوُفِّی رَجُلٌ فَغَسَلْنَاہُ وَفَطنَاہُ وکَفَناہُ ثُمَّ بِهِ النَّبِیْ ﷺ فَقُلْنَا تُصَلِّیْ عَلَیْهِ فَخَطٰی خُطْوَةٌ ثُمَّ قَالَ أَعَلَیْهِ دَیْنٌ قُلْنَا دِیْنَا رَانِ فَانصَرَفَ فَتَحَمَّلَھُمَا اَبُوْ قِتَادَة رضی اللہ عنه فَقَال الدِّیْنَا رَانِ عَلیٌ فَقَالَ النَّبِیُّﷺ قَدْ اَوْفٰی اللّٰہُ حَقّ الْغَرِیْمِ وَبِرِیَْ مِنْهُ الْمَیْتُ قَالَ نَعَمْ فَصَلّٰی عَلَیْهِ ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ بِیَیْومٍ مَا فَعَلَ الدِّیْنَا رَانِ قَالَ اّنِِّمَا مَاتَ بِالْاَرْضِ قَالَ فَعَادَ اللّٰہُ مِنَ الْغَدِ فَقَالَ قَدْ قَضَیْتُھُمَا قَالَ الْاٰنَ بِرَؤَتْ عَلَیْهِ جِلْدَتُه))

یہ احادیث ایسے طرق سے وارد ہیں کہ ان میں سے چند بھی حجت قائم کرنے کو کافی تھیں۔ لیکن یہ منسوخ ہیں، اور بہت سی احادیث اس نسخ پر دلالت کرتی ہیں، مثلاً صحیحین وغیرہما میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خطبہ میں فرمایا۔

((مَنْ خَلَفَ مَالًا اَوْ حَقًّا فَلِوَرَِثَتِه وَمَنْ خَلَفَ کَلًّا اَوْ دَیْنًا فَکَلُّه اِلَیَّ وَدَیْنُه عَلَیَّ))

’’اگر کوئی شخص مال چھوڑ کر مرے یا حق چھوڑ مرے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے، اور اگر کچھ قرض یا اہل و عیال چھوڑ کر مرا تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔‘‘

بخاری وغیرہ میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں۔

((مَا مِنْ مُوْمِنٍ اِلَّا اَنَا اَوْلٰی بِه فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ اِقْرَأُوْ اِنْ شِیْتُمْ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُوْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ فَاَیُّمَا مُؤْمِنً مَاتَ وَتَرَكَ مَا لَا فَلْیُوْرِثْهُ غَضْبَةُ مَنْ کَانُوْا وَمَنْ تَرَكَ دَیْنًا اَوْ ضِیَاعًا فَلْیَاْتِنِیْ فَاَنَا مَوْلَاہُ))

اسی طرح مسند امام احمد اور مسند ابو یعلیٰ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔

((مِنْ تَرَك مَا لَا فَلِاَھْلِه وَمَنْ تَرَكَ دَیْنًا فَعَلِی اللّٰہِ وَرَسُوْلِه))

ابن ماجہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔

((مَنْ حَمِلَ مِنْ اُمَّتِیْ دَیْنًا فَعَبِہْدَنِیْ قَضَائه فَمَاتَ قَبْلَ اَنْ یَقْضِیْه فَاَنَا وَلِیُّه))

’’یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے اگر کسی نے قرض ادا کرنے کی کوشش کی لیکن ادا کرنے سے پہلے فوت ہو گیا، تو اس کے ہم ولی ہیں۔‘‘

ابن سعد نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔

((اَحْسَنُ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ ﷺ وَشَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُہَا وَکُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ ضَلَالَةٌ مَنْ مَاتَ تَرَكَ مَالًا فَلِاَھْلِه وَمَنْ تَرَكَ دَیْنًا اَوْ ضِیَاعاً فَاِ لِیَّ وَعَلَیَّ وَاَنَا اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ))

غرضیکہ اس مفہوم کی بے شمار احادیث ہیں، واضح رہے یہ احادیث مذکورہ فی الصدر احادیث (کہ جن میں آپ ﷺ نے مقروض کی نماز جنازہ پڑھانے سے اجتناب فرمایا) ہے بعد کی ہیں چنانچہ بعض روایات میں یہ تصریح بھی ہے کہ جب فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے لگا۔ اور مال و دولت کی فرواوانی ہوئی تو مقروض کا قرض اپنے ذمہ لیتے اور نماز جنازہ پڑھتے، مثلاً ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کی روایت پہلے ذکر ہوچکی ہے، لہٰذا کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے، یہ احادیث منسوخ ہیں، جن علماء نے ان کو منسوخ میں شمار نہیں کیا، ان پر استدراک کیا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے ناسخ منسوخ میں بعض وہ مسائل و احادیث بھی ذکر کی ہیں جن میں اس حدیث کی طرح تصریح موجود نہیں، بلکہ کوئی واضح قرینہ بھی نہیں صرف تقدیم زمانی کا سہارا لے کر منسوخ قرار دے دیا ہے، اور بعض جگہ امکان تطبیق کو بھی نظر انداز کر کے منسوخ قرار دیتے ہیں، اور اس حدیث کے متن میں سے نسخ ثابت ہے (ااور ابن صلاح رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق یہ نسخ کی واضح ترین اقسام سے ہے مترجم) تو اس سے غفلت کو کیوں برتیں ((اِفَادَةُ بِمِقْدَارِ الشُّیُوْخِ النَّاسِخِ وَالْمَنْسُوْخِ)) میں ہم نے ذکر کیا کہ منسوخ آیات پانچ ہیں، اور احادیث منسوخہ کی تعداد ہم نے دس ذکر کی، اس وقت ہم سے ذہول ہو گیا، یہ حدیث بھی وہاں شمار کر لینی چاہیے۔

 ((فَلَمَّا فَتَحَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِه)) کی علت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ خاص نہ تھا، بلکہ آپ ﷺ کے بعد کے خلفاء کے لیے ضروری ہے کہ وہ مقروض کا قرض اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی دولت، حکومت اسلامیہ کے خزانۂ عامرہ سے ادا کریں، اس لیے کہ یہ حکم محکم غیر منسوخ ہے پھر وہ ان حقوق کو جو رسول اللہ ﷺ کو حاصل تھے، ان سے اپنے لیے دلیل پکڑتے ہیںج، مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿خُذْ مِنْ أَفْوَالِھِمْ صَدَقَة﴾ ظاہر ہے کہ خطاب آنحضرت ﷺ سے ہے، یہ لوگ نہیں کہتے کہ صدقہ وصول کرنا، آنحضرت ﷺ سے خاص تھا، بلکہ اسی حق کو خود استعمال کرتے ہیں۔ پس ان کے لیے ضروری ہے کہ رعایاکی وہ ذمہ داریاں بھی اٹھائیں، جو آنحضرت ﷺ اٹھاتے تھے، اسی حدیث یہ حدیث کہ ((اَنَا وَارِثٌ مَنْ لَا وَارِثَ لَه اَعْقِلُ عَنْه وَارِنُه)) (مسند احمد، ابن ماجہ، سعید بن منصور، بیہقی) ’’یعنی جس کا کوئی وارث نہ ہو گا، میں اس کا وارث ہوں، اور میں ہی اس کی طرف سے دیت ادا کروںگا۔‘‘ کوئی نہیں کہتا کہ میراث لاوارث صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھی۔ طبرانی کی ایک حدیث میں اس کی تصریح بھی وارد ہے، آ نحضرت ﷺ نے فرمایا: ((مِنْ تَرَكَ دَیْنًا فَعَلَیَّ وَعَلَی الْوُلَاةِ مِنْ بَعْدِ مِنْ بَیْتِ مَالِ الْمُسْلِمِیْنَ)) (طبرانی عن سلمان) ’’یعنی اگر کوئی مسلمان مقروض فوت ہو تو اس کا قرض آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے بعد خلفاء مسلمین کے ذمہ ہے کہ وہ بیت المال سے ادا کریں۔‘‘ اس حدیث کی سند میں عبد اللہ بن سعید الانصاری ضعیف ہے، لیکن ابن حبان نے ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، جس سے اسے تقویت ملتی ہے، اگر نہ بھی ہو تو اس مسئلہ میں بنیاد اس حدیث پر نہیں ہے، بلکہ اس پر ہے کہ امراء کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں اگر کہیں کہ اس کا طلب یہ ہوا کہ قرض مقروض سے ساقط ہو کر سلطان کو لاحق ہو گیا، تو ہم کہیں گے کہ یہ مسئلہ کئی شقوں میں منقسم ہے، مقروض کے پاس مال ہو گا، یا نہیں ہو گا، اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو پھر دو صورتیں ہیں کہ وہ قرض ادا کرنے کی کوشش و شدید خواہش رکھتا ہو گا، یا اس نے اس کے متعلق کوئی اہتمام ہی نہیں کیا ہو گا، اب ہر ایک کا حکم سن لیجئے، جس کے پاس مال ہے، اور وہ قرض ادا کر سکتا ہے، اگر ایسا شخص مقروض ہی فوت ہو جائے، اور مسلمانوں کی حکومت کے خزانہ میں اتنی سکت ہے کہ وہ اس قرض کو ادا کر سکے گی، اس لیے آنحضرت کا ارشاد ہے۔ ((مِنْ خَلَفَ کَلَّا اَوْ دَیْنًا فَکَلُّوْ اِلَیَّ وَدَینُه عَلَیَّ)) اگرچہ وہ باوجود قدرت کے قرض ادا نہ کرنے پر گناہ گار ہو گا، اور یہ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی حدیث کے منافی نہیں اس لیے وہ زمانۂ مسرت کی بات ہے، اور یہ مقروض جس نے مال ہونے کے باوجود قرض ادا نہیں کیا، گناہ کا مرتکب ہوا، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

((نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَیْنِه حَتّٰی یُقْضٰی عنه اخرجه احمد والترمذی وابن ماجة وقال الترمذی حسن ورجال اسنادہ ثقات الاعمر وبن ابی سلمة))

’’یعنی مقروض کی روح قرض کی وجہ سے لٹکتی رہتی ہے حتی کہ اس کا قرض ادا کر دیا جائے، اس حدیث کے تمام راوی (باستثناء عمرو بن ابی سلمہ) ثقہ ہیں وہ بھی صدوق یخطی ہے، اس لیے یہ حدیث کم از کم حسن ہو گی۔‘‘

 اور اگر کسی کے پاس مال نہیں کہ قرض اد کر سکے، بلکہ اس کا مال کسی نے غصب کررکھا ہے، یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے کوشش کے باوجود ادا نہیں کر سکا، تو وہ بھی اسی شخص کے حکم میں ہو گا، جو مال نہیں رکھتا۔ چنانچہ طبرانی میں ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث مروی ہے۔

((مَنْ دَانَ دَیْنًا وَفِیْ نَفْسِه وَفاءِ ہٗ وَمَاتَ تَجَاوَرَ اللّٰہُ عَنْهُ وَاَوْضی غَرِیْمَه بِمَاشَاءِ وَمَنْ دَانَ دَیْنًا وَلَیْسَ فِیْ نَفْسِه وَفَاءِہٗ وَمَاتَ اِقْتَضِیْ اللّٰہُ لِغَرِیْمَه یَوْمِ الْقِیَامَةِ))

’’یعنی جس نے قرض لیا، اور اسے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن فوت ہو گیا، تو اس سے اللہ درگذر فرمائیں گے، اور اسے قرض خواہ کو جس طرح چاہیں گے، خوش کر دیں گے، اور اگر کسی کا ارادہ ہی ادا کرنے کا نہ تھا، تو اس کا قرض خواہ کے لیے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن طلب کریں گے۔‘‘

اسی طرح بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔

((اَلدَّیْنُ دَیْنَانِ فَمَنْ مَاتَ وَھُوَ یَنْوِی الْقَضَائج فَاَنَا وَلِیُّه وَمَنْ مَاتَ وَلَا یَنْوِیْ قَضَائَه فَذَالِك الَّذِیْ یُوْخَذُ مِنْ حَسَنَاتِه لَیْسَ یَوْمَئِذٍ دِیْنَارٌ وَلَا دِرْھَمٌ))

’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا مقروض دو طرح کے ہیں، جو فوت ہوا اور اس کا قرض ادا کرنے کا پختہ ارادہ تھا تو میں اس کا ولی ہوں گا، لیکن جس کا اررادہ ہی نہ تھا، اس کی نیکیاں لی جائیں گی، کیونکہ اس دن سونا یا چاندی نہ ہو گی۔‘‘

۔اور حدیث عبد الرحمٰن بن ابی بکر سے مروی ہے۔

((یُوْتٰی بِصَاحِبِ الدَّیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ فِیْمَ اَتْلَفْتَ اَمْوَالَ النَّاسِ فَیَقُوْلَ یَا رَبَّ اِنَّكَ تَعْلَمُ انه اتی عَلٰی امَّا حُرِّقَ وَاِمَّا غُرِقَ فَیَقُوْلُ فانا قُضِیْه عَنْكَ الْیَوْمَ فَیَقْضِیْ عَنْهُ))

’’قیامت کے دن ایک مقروض لیا جائے گا، اللہ تعالٰٰ اس سے سوال کریں گے، تو نے لوگوں کے مال کیسے تلف کر دئیے، تو وہ کہے گا، اللہ یا رب تعالیٰ تجھے علم ہے، کہ میرے پاس سے یا تو جل گیا، یا غرق ہو گیا، اللہ تعالیٰ کہیں گے، تیرا قرض ہم ادا کریں گے۔‘‘ مسند احمد الحلیہ (ابو نعیم) مسند بزاز نیز طبرانی میں یہ الفاظ بھی مروی ہیں۔

((یُدْعٰی بِصَاحِبِ الدَّیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ حَتّٰی یُوْقف بِیْن یَدَیِ اللّٰہِ فَیَقُوْلُ یَا ابْنَ اٰدَمَ فِیْمَ اَخَذْتَ ھٰذَا الدَّیْنِ وَفِیْمَ ضَیَّعْتَ النَّاسِ فَیَقُوْلُ یَا رَبَّ اِنَّكَ تَعْلَمُ انٰ اخذتہ فلم اکل ولم اشرب ولم اُضَیِّعْ ذٰلِكَ وَلٰکِنْ اَتٰی عَلٰی یَدِی اِمَّا حُرِّقَ وَاِمَّا سُوِقَ وَاِمَّا ضُیِّعَ فَیَقُوْلُ اللّٰہُ صَدَقَ عَبْدِیْ وَاَنَا اَحَقُّ مِنْ قَضِیْ عَنْهُ فَیَدْعو اللّٰہُ بِشَیْئِ فَیَضَفُه فِیْ کُفَهِ مِیْزَانِه فَتَرْجَحَ حَسَنَاته عَلٰی سیٰاتِه فَیُدْخِلُ الْجَنَّةَ بِفَضْلِه وَرَحْمَتِه))

بخاری وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

((عَنِ النَّبِٰ ﷺ قَالَ مَنْ اَخَذَا اَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ اَدَاھَا ادَّی اللّٰہُ عَنْه وَمَنْ اَخَذَھَا یُرِیْدُ اِثْلَا فَھَا اَتْلَقَه اللّٰہُ))

ابن ماجہ، ابن حبان اور حاکم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث روایت کی ہے۔

((مِا مِنْ مُسْلِمٍ یَدَّانُ دَیْنًا یَعْلَمُ اللّٰہُ اَنَّه یُرِیْدُ اَدَاءہٗ اِلَّا اَدَّی اللّٰہ عَنْه فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ))

الغرض اگر کسی نے قرض لیا، لیکن کوشش اور خواہش کے باوجود ادا نہ کر سکا، تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے اد ا کر دیں گے، اور وہ گناہ گار نہ ہو گا۔

تیسری صورت یہ ہے کہ اس کے پاس ادا کرنے کے لیے مال تو نہ تھا، لیکن اس نے قرض چکانے کے لیے کماحقہ کوشش بھی نہیں کی، اس صورت میں اس سے قرض ادا کرنے کی کوشش نہ کرنے پر مواخذہ ہو گا، البتہ اصل جواب طلبی مسلمان کی ہو گی کہ اس نے تونگری کے باوجود اس کا قرض ادا کس لیے نہ کیا؟ اور اگر اس نے وہ مال کی فضول خرچی یا معصیت سے تباہ نہیں کر ڈالا ہے، تو عین ممکن ہے، کہ رب غفور اس سے باز پرس ہی نہ فرمائیں، یا زیادہ سے زیادہ اس سے یہ سوال کر لیا جائے کہ اس نے کوشش کیوں نہ کی، لیکن سلطان المسلمین اس معاملہ میں جوابدہ ہو گا، اگر کسی کے پاس صرف اپنے اور اہل و عیال کا ستر ڈھانپنے کے کپڑے اور دو وقت کا کھانا کھانے کی سکت ہی ہے تو اسے ہم ’’بے مال‘‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں، لیکن اگر کوئی اس کے سوا جائیداد اور سازوسامان یا مکانات کا مالک ہے، اور سمجھتا ہے کہ صرف دل میں خواہش اور نیت کر کے اس حدیث کے مطابق نجات حاصل کرے گا، تو یہ سخت غلطی میں ہے خود فریبی میں مبتلا ہے۔

آنحضرت ﷺ کا فرمان ((صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبَکُمْ)) ’’تم اپنے بھائی کی نماز جنازہ پڑھ لو۔‘‘ تحفیف پر نہیں بلکہ تہدید پر محمول ہے، لقمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے قصہ میں ((لَا اَشْہَدُ عَلٰی جَوْرٍ)) بھی اسی پر محمول ہے،

ممکن ہے کسی کے دل میں یہ خیال آئے کہ آنحضرت ﷺ نے مقروض کی نماز جنازہ پڑھانے سے اجتناب فرمایا اس کی بجائے قرض خواہ سے سفارش کر کے قرض معاف کرا دیتے، ایسا کرنا مناسب نہ ہوتا، کیونکہ آپ ﷺ حلال و حرام کی تمیز سمجھانے کے لیے مبعوث ہوئے، اگر آپ ﷺ ایسی سفارشیں شروع کر دیتے، تو بعض لوگوں کے دلوں سے حقوق عباد کی عظمت ختم ہو جانے کا اندیشہ تھا، پھر بعض لوگ تو بخوشی اپنے حق سے دست بردار ہو جاتے، لیکن ممکن ہے بعض لوگ بطیبب خاطر معاف نہ کرتے گو بظاہر آنحضرت ﷺ نے اسے خاوند کی طرف رجوع کی ترغیب دلائی تو اس نے کہا، آپ ﷺ حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا نہیں صرف سفارش کرتا ہوں، وہ اس پر رضا مند نہ ہوئی، اسی طرح بنو ہوازن نے جب اپنے اموال و عورتوں کی واپسی کی درخواست کی آپ ﷺ نے فرمایا۔ تم آئے نہیں اب تو ایک ہی چیز مل سکتی ہے، انہوں نے عورتوں اور بچوں کی واپسی چاہی آپﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کی رضا مندی سے انہیں واگذار کیا، اور حرف بظاہر طیب نفس پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ ’’عرفائ‘‘ کو مقرر کیا کہ وہ خوشوں کو ناخوش سے الگ کر ین۔ استیفاء بھی حدیث سے ثابت ہے۔

الغرض آنحضعرت ﷺ مسلمانوں کی مصلحت و خیر خواہی کے لیے حقوق غیر ثابتہ میں سفارش کر دیا کرتے تھے، مثلاً کسی جگہ میاں بیوی کا تنازعہ ہو یا مسلمانوں کا آپس میں شیرازہ متحد رکھنے کے مسئلہ میں لہٰذا یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ دوسروں کو قرض ادا کرنے کا حکم کرنے کی بجائے قرض خواہ کو معاف کرنے کے لیے کیوں نہیں کہا، البتہ بعض اوقات مصالحت کرانے کے لیے ایسا بھی کرتے، مثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ دو آدمی مسجد میں جھگڑ پڑے آپ ﷺ نے قرض خواہ کو نصف معاف کرنے کو کہا اور مقروض کو جلدی ادا کرنے کا حکم دیا۔

یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ حدیث سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ اس مقروض سے خاص ہے جو قرض ادا کرنے کے برابر ترکہ نہ چھوڑے، ورنہ اس کا قرضہ اس کے ترکہ سے ادا کر دیا جاتا، اس کے بعد اس امتناع کو مسنوخ کر دیا گیا، اب کسی حالت میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے اجتناب کا جواب باقی نہیں، بلکہ سلطان ادا کرنے کا ذمہ دار ہے، اگر ترکہ سے قرض ادا کرنا ممکن ہے، اور سلطان کے پاس اس قدر مال نہیں یا وہ عامل بشریف نہیں تو اس سے قرض ختم نہ ہو گا، بلکہ میت کے ورثاء ادا کریں، کیونکہ ان کا حق بعد میں ہے کہ ارشاد خداوندی ہے۔ ﴿مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِھَا اَوْ دَیْنٍ﴾ بادشاہ کی اس معاملہ میں لا پروائی ورثہ کے لیے دلیل نہیں ہے، ورنہ لوگوں کے مال ضائع ہوں گے، خاص طور پر اس زمانہ میں کہ اموال خدا (مسلمانوں کے خزانہ) میں اس حد میں کوئی رقم باقی نہیں ہے۔ نیز یہ ﴿مِنْ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُوْصِیْ بِھَا اَوْ دَیْنٍ﴾ ارشادِ خداوندی کے خلاف ہے، وارث کو اس وقت تک کوئی حق نہیں کہ میراث پائے جب تک قرضہ ادا نہ کرے، الحاصل یہ کہ قرض کی جوابدہی سلطان سے ہو گی، یا مدیون سے۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو شخص لوگوں کا مال زبردستی چھین کر کھا لے، اس کی نماز جنازہ کے متعلق کیا حکم ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اگر مقروض کی نماز جنازہ سے امتناع منسوخ نہ ہوتو ا س ظالم کی نماز جازہ بالاولی مستحق اجتناب و امتناع ہوتی، لیکن اب وہ حکم منسوخ ہو چکا ہے، اب اس امتناع کی کوئی وجہ نہیں ہے، اسی طرح دیگر گناہ گاروں کا حال ہے کہ ان پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے، البتہ بعض جاور قسم کے مقلدین یہ کہتے ہیں کہ فاسق کی نماز جنازہ نہیں ہوتی، اور اس کی کوئی دلیل نہیں ہے،

آنحضرت ﷺ نے مقروض کی نماز جنازہ سے اجتناب فرمایا، لیکن اس سے استدلال درست نہیں اس لیے کہ اولاً یہ منسوخ ہے، ثانیاً منسوخ نہ بھی تو آپ ﷺ کا فرمان ((صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبَکُمْ)) صاف دلالت کرتا ہے کہ آپ ﷺ نماز نہ پڑھاتے تو کوئی قائم مقام پڑھاتا، اس لیے کہ باقی مسلمانوں کی طرح اس کی نماز جنازہ واجب ہے، بلکہ یہ گناہ گار تو دعا مغفرت کے زیادہ محتاج ہیں، شوکانی فرماتے ہیں، اگرچہ مسلمانوں میں عملی طور پر تفاوت ہے، لیکن اسلام کا کلمہ اور ایمان ان سب کو شامل ہے، اس لیے سب کا حکم ایک ہی ہو گا۔ ((وَحِسَابُ الْعَاصِیْ عَلَی اللّٰہ عزوجل)) ’’گناہ گاروںکا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔‘‘ اگر چاہے تو معاف کر دے، اور چاہے تو شفاعۃ الشافعین قبول کرے، اور اگر چاہے تو انہیں سزا دے۔

((لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ مَا شَاءِ اللّٰہُ کَانَ مَا لَمْ یَشَاء لَمْ یَکُنْ))

مسلمانوں کا صرف کافر یا منافق کی نماز جنازہ سے روکا گیا ہے۔ ((کَمَا ذٰلِکَ مَعْلُوْمٌ وَلَا یَخْفٰی))

((وفی ھذا لامقدارف کفایة لمَنْ له ھِدَایَة۔ وَاللّٰہ اَعْلَمُ))

مترجما من الفارسیہ، بندہ عبد الرشید اظھر۔

(الدلیل الطالب علی ارجح الطالب ص ۳۸۹ تا ص ۳۹۷)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 123-132

محدث فتویٰ

تبصرے