سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(55) قبرستان میں جوتی پہن کر چلنا درست ہے یا نہیں؟

  • 4246
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1263

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قبرستان میں جوتی پہن کر چلنا درست ہے یا نہیں او رجنازے کی نماز میں سورۃ فاتحہ اور سورہ کا زور سے پڑھنا جس حدیث میں مذکو رہے اس کے راوی ٹھیک ہیں یا نہیں اور اس پر عمل کرنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبرستان میں جوتی پہن کر چلنا نہیں درست ہے منتقی میں ہے۔

((عن بشیر بن الخصاصیة ان رسول اللّٰہ ﷺ علیه وسلم رأی رجلا یمشی فی نعلین بین القبور فقال یا صاحب السبتیین القھار رواہ الخمسة الا الترمذی))

’’یعنی بشیر ابن خصاصیۃ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھاایک شخص کو کہ وہ جوتی پہنے ہوئے قبرستان میں جا رہا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ اے جوتی والے جوتیوں کو ڈال دے۔‘‘

 اور جنازہ کی نماز میں سورۃ فاتحہ اور سورت کا پڑھنا جس حدیث میں مذکور ہے اس کے راوی ٹھیک ہیں سورہ فاتحہ کی حدیث کے راوی تو اس واسطے ٹھیک ہیں کہ وہ صحیح بخاری کی حدیث ہے چنانچہ منتقی میں ہے۔

((عن ابی عباس انه صلی علی جنازة فقرأ بفاتحة الکتاب وقال لتعلموا انه من السنة رواہ البخاری وابو داؤد والترمذی وصححه والنسائی وقال فیه فقراء بفاتحة الکتاب وسورة وجھر فلما فرغ قال سنة وحق))

’’یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہو ں نے ایک جنازے پر نماز پڑھی تو سورہ فاتحہ پڑھی اور کہا کہ سورہ فاتحہ میں نے اس واسطے پڑھی ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ سنت ہے روایت کیا اس حدیث کو بخاری اور ابو داؤد اور ترمذی نے اور صحیح کہا اس کو اور روایت کیا اس کو نسائی نے اور اس میں یوں کہا ہے کہ پھر پڑھی ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورۃ فاتحہ اور ایک اور سورہ اور زور سے پڑھی پھر جب فارغ ہوئے تو فرمایا کہ یہ سنت اور حق ہے۔‘‘

 اور وہ حدیث کہ جس میں سورہ ملانے کا ذکر ہے وہ نسائی شریف کی روایت ہے جیسا کہ اوپر متقی کی عبارت سے معلوم ہوا اور اس کے راوی اس واسطے ٹھیک ہیں، کہ اس کی سند کو علامہ قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے نیل الاوطار شرح منتقی میں صحیح کہا ہے چنانچہ نیل الاوطار میں ہے۔

((قوله وسورة فیه مشروعیة قراءة سورة مع الفاتحة فی صلوة الجنازة ولا محیص عن المصیر الی ذلك لانھا زیادة خارجة عن مخرج صحیح انتہی مختصرا))

’’اس سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ اور سورۃ کا پڑھنا بھی درست ہے اور اس کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ یہ زیارت صحیح سند سے ثابت ہے۔‘‘

جب ثابت ہوا کہ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ اور سورہ کا جہر سے پڑھنا جس حدیث سے مذکو رہے اس کے راوی ٹھیک ہیں اور وہ حدیث صحیح ہے تو اس پر عمل کرنا جائز ہوا واللہ تعالیٰ اعلم حررہ محمد عبد الحق ملتانی۔ (سید محمد نذیر حسین)

ہو الموفق:

قبرستان میں جوتی پہن کر چلنے کی ممانعت بشیر بن خصاصیہ کی حدیث مذکو رسے صاف ثابت ہوتی ہے اور بعض اہل علم اس حدیث کے مطابق ممانعت کے قائل ہیں اور بعض اہل علم قبرستان میں جوتی پہن کر چلنے کو جائز بتاتے ہیں۔ مگر جس حدیث سے یہ لوگ استدلال کرتے ہیں اس سے ان کا مطلوب ثابت نہیں ہوتا علامہ ابن حزم کہتے ہیں کہ سبتی جوتی (یعنی مدبوغ چمڑے کی جوتی جس میں بال نہ ہوں پہن کر قبرستان میں چلنا حرام و ناجائز ہے اور غیر سبتی جوتی پہن کر چلنا جائز ہے لیکن ابن حزم کا بھی یہ قول ٹھیک نہیں کیونکہ سبتی اور غیر سبتی جوتی میں کوئی فارق نہیں ہے امام طحاوی کہتے ہیں کہ حضرت نے جو اس شخص کو جوتی پہن کر چلنے سے منع فرمایا سو یہ ممانعت محمول ہے اس پر کہ اس کی جوتی میں ناپاکی لگی تھی۔ مگر یہ بات بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں پس جو لو ممانعت کے قائل ہیں انہیں کا قول مدلل ہے حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں۔

((واستدل به (ای بقوله ﷺ ان ہیسمع قرع فعالھم) علی جواز المشی بین القبور بالنعال وال دلالة فیه قال ابن الجوزی لیس فی الحدیث سوی الحکایة عمن یدخل القابر وذلك لا یقتضی اباحة ولا تحریما انتہی وانما استدل به من استدل علی الاباحة اخذ امن کونه ﷺ قالہ واقرہ فلو کان مکروھا لبینه لکن یعکر علیه احتمال ان یکون المراد سماعه ایا ھا بعد ان یجاوزوا المقبرة ویدل علی الکراھته حدیچ بشیر بن الخصاصیة اخرجه ابو داؤد والنسائی وصححه الحاکم واغرب ابن حزم فقال یحرم المشئی بین القبور بالنعال السبتیة دون غیرھا وھو جمود شدید وقال الطحاوی یحمل نہی الرجل المذکور علی انه کان فی نعلیه قذر فقد کان النبی ﷺ یصلی فی نعلیه مَا لم یرفیھا اذی انتہی مختصراً))

’’ابن حجر نے کہا اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ قبرستان میں جوتیوں سمیت چلنا جائز ہے ابن جوزی نے کہا اس میں جائز و ناجائز کی کوئی بحث ہی نہیں ہے یہ تو ایک واقعہ کی حکایت ہے مجوزین لکھتے ہیں کہ اگریہ ناجائز ہوتا تو نبی ﷺ اس کو بیان کر دیتے اور یہ بھی احتمال ہے کہ قبرستان کے باہر جوتیوں کی آواز مردہ سنتا ہو اور بشیر بن خصاصیہ کی حدیث سے جو کراہت ثابت ہوتی ہے طحاوی کہتے ہیں ممکن ہے اس کی جوتیاں پلید ہوں ورنہ آنحضرت ﷺ مسجد میں پاک جوتیوں سے نماز پڑھ لیا کرتے تھے قبرستان اس سے زیادہ پاک جگہ نہیں ہے۔‘‘

اور بلاشبہ ابن عباس کی روایت مذکورہ بالاسے ثابت ہے کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ اور کسی اور سورۃ کا پڑھنا سنت و حق ہے۔ اور بلاشبہ یہ روایت بھی قابل عمل ہے لیکن رہی یہ بات کہ سورۃ فاتحہ اور سورہ کو جہر سے پڑھنا چاہیے یا آہستہ سو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اپنی ایک روایت میں تصریح کر دی ہے کہ میں نے فاتحہ اور سورۃ کا نماز جنازہ بھی پڑھنا سنت ہے۔ فتح الباری صفحہ ۲۹۰ میں ہے۔

((وللحاکم من طریق ابن عجلان انه سمع سعید بن ابی سعید یقول صلی ابن عبا س علی جنازہ فجھر بالحمد ثم قال انما جھرت لتغلموا انھا سنة وفیه ایضا وروی الحاکم ایضا من طریق شرجیل بن سعد عن ابن عباس ان صلی علی جنازہ فکبر ثم قرأ الفاتحة رافعا صوته ثم صلی علی النبی ﷺ ثم قال اللهم عبدك الی قوله ثم انصرف فقال یا ایھا الناس انی لم اقراء علیھا ای جھرا الا لتعلما انھا سنة))

’’سعید بن ابی سعید کہتے ہیں کہ ابن عباس نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی اور الحمد بلند آواز سے پڑھی کہ تم کو معلوم ہو جائے کہ الحمد پڑھنا سنت ہے ایک اور روایت میں ہے کہ پھر اس کے بعد نبی ﷺ پر درود پڑھا پھر یہ دعا پڑھی ((اللھم ھذا عبدک الخ)) پھر فارغ ہوئے تو کہا میں بلند آواز سے جنازہ اس لیے پڑھایا کہ تم کو معلوم ہو جائے کہ جنازہ کا سنت طریقہ کیا ہے۔‘‘

اور اسی طرح شافعی کی روایت میں ہے تلخیص الجیر صفحہ ۱۶۰ کے حاشیہ میں ہے۔

((وفی روایة الشافعی فجھر بالقرأة وقال انما جہرت لتعلموا انھا سنة ومثلھا للحاکم انتہی بدئ))

’’آپ نے بلند آواز سے قرأت کی اور کہا میں نے اس لیے بلند آواز سے قرأت کی کہ تم کو معلوم ہو جائے جہر سے قرأت کرنا سنت ہے۔‘‘

اور اسی طرح منتقی ابن الجارود میں بھی ہے عون المعبود شرح سنن ابی داؤد صفحہ ۱۹۱ جلد ۳ میں ہے۔

((واخرج ابن الجارود فی المنتقی من طریق زید بن طلحة التیمی قال سمعت ابن عباس قرأ علی جنازة فاتحة الکتاب وسورة وجہر بالقرأة وقال انما جھرت لا علمکم انھا سنة انتہی))

’’ابن عباس نے ایک جنازہ پر الحمد اور سورۃ بلند آواز سے پڑھی اور کہا کہ میں نے اس لیے بلند آواز سے قرأت کی کہ تم کو معلوم ہو جائے بلند آواز سے قرأت کرنا سنت ہے۔‘‘

پس جب معلوم ہوا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فاتحہ اور سورۃ کو فقط اس خیال سے زور سے پڑھا تھا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز جنازہ میں فاتحہ اور سورۃ کا پڑھنا سنت ہے تو اس روایت سے جہر سے پڑھنا نہیں ثابت ہوتا بلکہ آہستہ پڑھنا ثابت ہوت اہے ہاں اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ جہاں لوگوں کو یہ مسئلہ نہ معلوم ہو تو وہاں زور سے پڑھ دینا چاہیے تاکہ لوگ سن کر معلوم کر لیں اور آہستہ پڑھنے کی تائید ابو امامہ کی حدیث سے ہوتی ہے۔

((عن ابی امامة بن سہل انه اخبرہ رجل من اصحاب النبی ﷺ ان السنة فی الصلوة علی الجنازة ان یکبرا الامام ثم یقرأ بفاتحة الکتاب بعد التکبیرة الاولی سرا فی نفسه ثم یصلی علی النبی ﷺ ویخلص الدعاء للجنازة فی التکبیرات ولا یقرأ فی شئی منھم ثم یسلم فی نفسه رواہ الشافعی فی مسندہ (منتقی الاخبار) قال الحافظ فی التلخیص ص ۱۶۱ وضعفت روایة الشافعی بمطرف لکن قواھا البیھقی بما رواہ فی المعرفة من طریق عبید اللّٰہ بن ابی زیاد الاصانی عن الزھری بمعنی روایة انتہی))

’’ایک صحابی نے کہا جنازہ کی نماز میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے پھر تکبیر اولیٰ کے بعد الحمد پڑھے پھر نبی ﷺ پر درود بھیجے پھر میت کے لیے دعا کرے اور ان تکبیروں میں قرأت نہ کرے پھر آہستہ آواز سے سلام پھیرے حافظ نے تلخیص میں کہا کہ یہ حدیث ضعیف ہے لیکن اس کی تائید ایک اور حدیث سے ہوجاتی ہے۔‘‘

اور آہستہ پڑھنے کی تائید ابن سلمۃ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

((السنة علی الجنازة ان یکبر الامام ثم یقرأ القراٰن فی نفسه الحدیث))

’’جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبر کہے پھر آہستہ آواز سے قرآن پڑھے۔‘‘

 رواہ ابن ابی حاتم فی العلل ذکرہ الحافظ فی التلخیص صفحہ ۱۶۰۔ انہیں روایات کی وجہ سے جمہور کا یہ مذہب ہے کہ نماز جنازہ میں فاتحہ اور سورہ جہر سے پڑھنا مستحب نہیں ہے نیل الاوطار صفحہ ۲۹۸ جلد ۳ میں ہے۔

((وذھب الجمہور الی انه لا یستحب الجھر فی صلوة الجنازة وتمسکوا بقول ابن عباس المتقدم لم اقرأ ای جھرا لا لتعلموا انه سنة وبقوله فی حدیث ابی امامة سرا فی نفسه انتہی))

’’جمہور کا مسلک یہ ہے کہ جنازہ میں بلند آواز سے قرأت مستحب نہیں ہے اور انہوں نے ابن عباس اور ابو امامہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔‘‘

واللہ تعالیٰ اعلم کتبہ محمد عبد الرحمن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۶۶۰)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 102-107

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ