سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(54) عورت کے جنازہ میں تابوت بنانا کہیں ثابت ہے یا نہیں؟

  • 4245
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1784

سوال

(54) عورت کے جنازہ میں تابوت بنانا کہیں ثابت ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت کے جنازہ میں تابوت بنانا کہیں ثابت ہے یا نہیں۔ بعض مولویوں نے ایک عورت کے جنازہ پر تابوت کو توڑوا دیا، اور ناجائز بتایا اور دوقت دفن کرنے کے قبر میں چادر سے پردہ کرنا ثابت ہے یا نہیں بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

((عن ابن عمران النبی ﷺ قال من ستر مسلماً سترہ اللہ یوم القیامة متفق علیه قوله (من ستر مسلماً سترہ اللہ یوم القیامة) فیه الترغیب فی ستر عورات المسلم وظاھرہ عدم الفرق بین الحی والمیت فیدخل فی عمومه ستر ما یرہ الغاسل ونحوہ من المیت وکراھة انشائه والتحدث به (نیل الاوطار کتاب الجنائز) وما کونھا امرأة فیحتمل ان یکون معتبرا فان القیام علیھا عند وسطھا السترھا وذلك مطلوب فی حقہا بخلاف لارجل ویحتمل ان لا یکون معتبرا وان ذلك کان قبل اتخاذ النعش للنساء فاما بعد اتخاذہ فقد حصل الستر المطلوب (فتح الباری) عن نافع ابی طالب قال کنت فی سکة المرید فمرت جنازة معہا ناس کثیر قالوا جنازة عبد اللّٰہ بن فتبعتہا فاذا انا برجل علیه کساء رقیق علی بریذ ینیة علی راسه خرقة تقیة من الشمس فقلت من ھذا الدھقان قالوا ھذا انس بن مالك فلما وضعت الجنازة قام انس فصلی علیھا وانا خلفه لا یحول بینی وبینه شئی فقام عند راسه فکبر اربع تکبیرات لم یطل ولم یسرع ثم ذھب یقعد فقالوا یا ابا حمزة المرأة الانصاریة فقربو ھا وعلیھا نعش اخضر فقام عند عجیز تہا فصلی علیھا نحو صلوته علی الرجل ث جلس فقال العلاء بن زیاد یا ابا حمزة ھکذا کان رسول اللہ ﷺ یصلی علی الجنازة کصلوتك یکبر علیھا اربعا ویقوم عند راس الرجل وعجیزة المرأة قال نعم)) (سنن ابی داؤد)

’’نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا، قیامت کے دن اس کی اللہ پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ اس میں ترغیب ہے کہ مسلمان کے نقائص کی پردہ پوشی کرنا چاہیے خواہ زندہ ہو یا مردہ۔ اس عموم میں یہ بھی داخل ہے جو غسل دینے والا میت کی شرم گاہ وغیرہ کو دیکھتا ہے۔ مکروہ ہے اس کا حال بیان کرنا عورت کے جنازہ میں امام کا وسط میں کھڑا ہونا بھی اس لیے ہے کہ عورت کی پردہ پوشی ہو بخلاف مرد کے اور عورتوں کے لیے تابوت بن جانے سے پردہ کا انتظام ہو گیا اب درمیان میں کھڑا ہونا ضروری معلوم نہیں ہوتا۔‘‘

((واما الرجل فعند راسه لئلا یکون ناظرا الی فرجه بخلاف المرأة فانھا فی القبة کما ھو الغالبب دوقوفه عند وسطھا یسترھا عن اعین الناس وفی حدیث ابی داؤد والترمذی وابن ماجة عن انس انه صلی علی رجل فقام عنه راسه وعلی امراة وعلیھا نعش اخضر فقام عند عجیزتھا فقال له العلاء بن زیاد یا ابا حمزة اھکذا کان رسول اللّٰہ ﷺ یصلی علی الجنازة قال نعم)) (قسطلانی)

’’مرد کے جنازہ میں سر کے مقابل امام کھڑا ہوتا کہ اس کی شرمگاہ پر اس کی نظر نہ پرے بہ خلاف عرت کے کہ اس کی کمر کے مقابل کھڑا ہوکیونکہ وہ عموماً تابوت میں ہوتی ہے اور اس کے وسط میں کھڑا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی آنکھوں سے امام آڑ بن جائے حضرت انس نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی اس کے سر کے مقابل کھڑے ہوئے اور ایک جنازہ آیا اس کا سبز رنگ کا تابوت تھا۔ آپ اس کے وسط میں کھڑے ہوئے علائو بن زیاد نے پوچھا اے ابو حمزہ کیا رسول اللہ ﷺ جنازہ پر اسی طرح نماز پڑھایا کرتے تھے۔ کہنے لگے: ہاں۔‘‘

اور نیل الاوطار میں نسبت حدیث ابو داؤد کے لکھا ہے۔ ((الحدیث الثانی حسنه الترمذی وسکت عنه ابو داؤد والمنذری والحافظ فی التلخیص ورجال اسنادہ ثقات)) اور مولوی وحید الزمان ترجمہ ابو داؤد میں تحریر کرتے ہیں ترجمہ نافع سے جن کی کنیت ابو غالب ہے روایت ہے میں سکۃ المربد( ایک موضع ہے) میں تھا اتنے میں ایک جنازہ نکلا اس کے ساتھ بہت لوگ تھے لوگوں نے کہا عبد اللہ بن عمر کا جنازہ ہے یہ سن کر میں بھی اس کے پیچھے چلا تو میں نے ایک شخص کو دیکھا باریک کمبل اوڑھے ہوئے ایک چھوٹی راس کے گھوڑے پر سوار ہے اور اپنے سر پر ایک کپڑے کا ٹکڑا دھوپ سے بچائو کے لیے ڈالے ہوئے ہے میں نے پوچھا یہ زمیندار کون ہے لوگوں نے کہا انس بن مالک ہیں (جنہوں نے دس برس تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی ۹۲ھ یا ۹۳ھ میں ان کا انتقال ہوا اور سو سے زیادہ ان کی عمر ہوئی۔ جب جنازہ رکھا گیا۔ تو انس کھڑے ہوئے اور انہوں نے نماز پڑھائی میں ان کے پیچھے تھا، میرے اور ان کے بیچ میں کچھ آڑ نہ تھی انہو ںنے چار تکبیریں کہین نہ بہت دیر میں نماز پڑھی نہ جلدی پھر جانے لگے۔ بیٹھنے کو لوگوں نے کہا اے ابا حمزہ (کنیت ہے حضرت انس کی) یہ عورت انصاریہ کا جنازہ ہے پھر اس کو نزدیک لائے، اور وہ ایک سبز تابوت میں تھی تو انس کھڑے ہوئے اوس کے کو لے کے سامنے (یعنی سر کے سامنے کھڑے نہیں ہوئے جیسے مرد کے سر کے مقابل کھڑے ہوئے) پھر نماز پڑھی اس پر اسی طرح جیسے مرد پر نماز پڑھی تھی، بعد اس کے بیٹھے تو علاء بن زیاد نے کہا اے ابا حمزہ کیا رسول اللہ ﷺ جنازہ پر اسی طرح نماز پڑھتے تھے، جیسے تم نے پڑھی اور چار تکبیریں کہتے تھے، اور مرد کے سر کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور عورت کے کوے کے سامنے انس نے کہا ہاں رسول الہ ﷺ اسی طرح نماز پڑھتے اور اسی مقاموں میں کھڑے ہوتے تھے اور اسد الغابہ میں تحت احوال زینب بنت جحش کے لکھا ہے۔

((وصلی علیھا عمر بن الخطاب ودخل قبرھا اسامة بن زید ومھمد بن عبد اللّٰہ بن جحش وعبد اللّه بن ابی احمد بن جحش قیل ھی اول امرأة صنع لها النعش ودفنت بالبقیع انتہی))

’’ان پر عمر بن الخطاب نے نماز پڑھائی اور ان کی قبر میں اسامۃ بن زید اور محمد بن عبد اللہ بن جحش اور عبد اللہ بن ابی احمد بن جحش اترے، کہا جاتا ہے کہ یہ پہلی عورت تھی جس کے لیے تابوت بنایا گیا، اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔‘‘

اور تحت احوال فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لکھا ہے۔

((ولما حضرھا الموت قالت لاسماء بنت عمیس یا اسماء انی قد استقبحت ما یصنع بالنساء یطرح علی المرأة الثوب فیصفہا قالت اسماء یا ابنة رسول اللّٰہ ﷺ الا اریك شیئا رأیته بارض الحبشة فدعت بجرائد رطبة فحنتھا ثم طرحت علیھا ثوبا فقالت فاطمة ما احسن ھذا واجمله فاذا انا مت فاغسلینی انت وعلی ولا تدخلی علا احدا فلما توفیت جاء ت عائشة فمنعتہا اسماء فشکتہا عائشة الی ابی بکر وقالت ھذہ الخژعمیة تحول بیننا وبین بنت رسول اللّٰہ ﷺ فوقف ابو بکر علی الباب وقال یا اسماء ما حملك علی ان منعت ازواج النبی ﷺ ان یدخلن علی بنت رسول اللہ ﷺ وقد صنعت لہا ھو وجاً وقالت ھی امرتنی ان لا یدخل احد وامرتنی ان اصنع لھا ذلك قال فاصنعی ما امرتك وغسلھا علی واسماء وھی اول من غطی نعشانی الاسلام ثم بعدھا زینب بنت جحش وصلی علیھا علی بن ابی طالب وقیل صلی علیھا العباس واوصت ان تدفن لیلا ففعل ذلك بھا ونزل فی قبرھا علی والعباس والفضل بن عباس قیل توفیت لثلاث خلون من رمضان سنة احدی عشرة واللّٰہ اعلم انتہی، قال الامام النووی فی المنہاج فی کتاب الجنائز ویندب للمرأة ما یسترھا کتابوت قال فی تحفة المحتاج لا بن حجر المکی یعنی قبة مغطاة لا یصاء ام المؤمنین زینب رضی اللّٰہ عنہا به وکانت قد رأته باحبشة لما ھا جرت وروی البیہقی ان فاطمة بنت رسول اللّٰہ ﷺ اوصت ان یتخذ لھا ذلك انتہی وقد روی عبد الرزاق عن ابن جریج عن الشعبنی عن رجل ان سعد بن مالك قال امر رسول اللّٰہ ﷺ فاتر علی القبر حتی دفن سعد بن معاذ فیه فکنت ممن امسك الثوب وروی یوسف القاضی باسنادله عن رجل عن علی انه اتاھم ونحن ندفن قیسا وقد بسط الثوب علی قبرہ فجذبه وقال انما یصنع ھذا بالنساء تلخیص الجیر))

’’جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو اسماء بنت عمیس سے کہا جو کچھ عورتوں کے متعلق کیا جاتا ہے، میں تو اس کو برا سمجھتی ہوں کہ عورت پر ایک کپڑا سا ڈال دیتے ہیں، اور پھر لوگ اس کی باتیں کرتے رہتے ہیں(میت بھاری تھی، ہلکی تھی) فلاں عورت بڑی موٹی تھی وغیرہ وغیرہ) اسماء نے کہا اے رسول اللہ کی بیٹی میں تجھے ایک چیز دکھلاتی ہوں جو میں نے حبشہ کے علاقہ میں دیکھی تھی اس کھجور کے تازہ شاخیں منگائیں ان کو جھکایا اور اس پر کپڑا ڈال دیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا یہ چیز تو بہت اچھی ہے جب میں مر جائوں تو مجھے تو اور علی دونوں مل کر غسل دے دینا اور کسی دوسرے کو قریب نہ آنے دینا جب فاطمہ فوت ہو گئیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آئیں اسماء نے ان کو روک دیا حضرت عائشہ نے ابو بکر کے پاس شکایت کی یہ خثعمی عورت ہے رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کے پاس نہیں جانے دیتی، تو ابو بکر نے دروازہ پر کھڑے ہو کر فرمایا اے اسماء تو نبی ﷺ کی بیویوں کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جانے سے کیوں روکتی ہے اور اسماء نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے تابوت بنایا تھا اسماء نے کہا فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی وصیت کر گئی تھیں کہ کسی کو میرے پاس نہ آنے دینا اور مجھے تابوت بنانے کا حکم بھی دیا تھا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہا نے کاہ اچھا بنائو پھر حضرت علی اور اسماء نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا یہ سب سے پہلی عورت تھی، جس کی لاش اسلام میں ڈھانپی گئی پھر اس کے بعد زینب بنت جحش کی لاش ڈھانپی گئی پھر فاطمہ رضی اللہ عنہاکا جنازہ حضرت علی نے پڑھا۔ بعض کہتے ہیں حضرت عباس نے پڑھایا تھا اور فاطمہ وصیت کر گئی تھیں کہ ان کو رات کے وقت دفن کیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ان کی قبر میں حضرت علی ۔ عباس اور فضل بن عباس اترے آپ کی وفات ۳ رمضان ۱۱ ھ کو ہوئی۔

امام نووی نے منہاج میں کہا۔ مستحب ہے کہ عورت کے لیے تابوت بنا دیا جائے ۔ تاکہ اس کی پردہ پوشی ہو جائے ابن حجر مکی نے کہ ام المؤمنین زنیب رضی اللہ عنہا نے اپنے لیے تابوت بنانے کی وصیت کی تھی۔ کیونکہ وہ ہجرت حبہش میں وہاں تابوت دیکھ آئی تھیں۔ بیہقی نے کہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لیے تابوت بنانے کی وصیت کی۔ حضرت سعد بن معاذ کو جب دفن کیا جانے لگا تو رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ قبر پر پردہ کر لو چنانچہ ایک چادر پھیلا دی گئی۔ جب قیس کو دفن کیا جانے لگا تو ان کی قبر پر چادر پھیلائی گئی حضرت علی آئے اور چادر کو کھینچ لیا اور فرمایا عورتوں پر پھیلائی جاتی ہے۔‘‘

ان سب عبارات سے صاف ظاہر ہوا کہ اجلہ اصحاب کرام جیسے حضرت انس و حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت علی و حضرت عباس و جم غفیر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے سامنے ایسا جنازہ کہ جس پر تابو ت تھا سبہوں نے نماز جنازہ خوشی سے ادا کی۔ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وصیت ہوئی واسطے بنانے تابوت کے اور قبیح سمجھا بغیر تابوت کے ہونے کو چنانچہ بعد وفات آپ کے حسب وصیت کے عمل سامنے جمیع صحابہ کے کیا گیا، اور نیز حضرت زینب ام المؤمنین زوجہ رسول اللہ ﷺ کے جنازہ پر تابوت تھا۔ا ور حضرت عمر جیسے صحابہ ماحی المنکرات نے نماز بخوشی پڑھائی تھی۔ اور قسطلانی اور فتح الباری کی عبارت سے ظاہر ہوا کہ اسلام میں دستور تابوت کا تھا۔ اور تلخیص کی عبارت سے ظاہر ہوا کہ عورت کے دفن کرنے کے وقت چادر کا پردہ کرنا چاہیے اور بہت کتب میں اس کا ثبوت موجود ہے اہل سنت کے یے اس قدر کافی ہے پس باوجود ایسے ثبوت کے کون انکار کر سکتا ہے کیونکہ یہ مسئلہ سنت صحابہ کرام ہو ہوا موافق فرمودہ آنحضرت ﷺ کے ((علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا)) اور اہل سنت اسی سبب سے اہل سنت و الجماعت کے لقب سے ملقب ہوئے پس باوجود اتنے ثبوت کے جو کوئی انکار کرے وہ جاہل ہے عالم نہیں یا اس میں مادہ رفض ہے کہ جنازہ مسلمین کی بے حرمتی چاہتا ہے حالانکہ آنحضرت ﷺ کا حکم ہے ۔

((من ستر مسلما ستر اللّٰہ یوم القیامة))

’’جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے تو قیامت کے دن اللہ اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘

جیسا کہ اوپر گذرا فی زماننا ابو داؤد کا ترجمہ ہو گیا ہے اس کو بھی جس نے دیکھا ہے کبھی ایسی بات زبان پر نہیں لا سکتا سچ ہے حضرت نے فرمایا ہے کہ بنائیں گے لوگ اپنا پیشوا جاہلوں کو پس پوچھے جاویں گے تو فتویٰ دیں گے بغیر علم کے پس گمراہ ہوں گے اور گمراہ کریں گے۔ ((قال اتخذ الناس رؤسا جہالا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا متفق علیه کذا فی المشکوٰة)) الراقم ہیچمیرز تلطف حسین عفی عنہ۔ تاریخ ۲۶ جمادی الثانی ۱۳۱۸ ہجری۔

(فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۶۹۵) (سید محمد نذیر حسین)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 96-102

محدث فتویٰ

تبصرے