السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غائب کا جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں اگر ہے تو بعد تین روز کے بھی جائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غائب کا جنازہ پڑھنا جائز ہے اور یہی ہے مذہب امام شافعی اور امام احمد اور جمہور سلف کا اور تین روز کے بعد بھی جائز ہے کیونکہ تین روز کے بعد ناجائز ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے۔
((عن جابر بن عبد اللّٰہ یقول قال النبی ﷺ قد توفی الیوم رجل صالح من الحبش فھلموا فصلوا علیه قال فصففنا فصلی النبی ﷺ ونحن صفوف))
’’نبی ﷺ نے فرمایا آج حبشہ کا ایک نیک آدمی فوت وہ گیا ہے۔ آئو اس پر نماز پڑھو ہم نے صفیں بنائیں اور رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔‘‘
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں۔
((استدل به علی مشروعیة الصلوة علی المیت الغائب عن البلد وبذلك قال الشافعی واحمد و جمہور السلف حتی قال ابن حزم لم یات عن احد من الصحابة منعه قال الشافعی الصلوة علی المیت دعائله وھو اذا کان ملففا یصلی علیه فکیف لا یصلی وھو غائب او فی القبر بذلك الوجه الذی یدعی له وھو ملفف انتہی))
’’اس حدیث سے غائبانہ جنازہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ا مام شافی احمد اور جمہور کا یہی مذہبب ہے۔ ابن حزم نے کہا کسی صحابی سے غائبانہ جناز کی ممانعت ثابت نہیں امام شافعی نے کہا میت پر نماز اس کے لیے دعا ہے، جب وہ کفن لپیٹا ہوتا ہے تو قبر کے اندر چلے جانے یا غائب ہونے کی صورت میں دعا منع کیسے ہو جاتی ہے۔‘‘
واللہ اعلم کتبہ محمد عبد العزیز مرشد آبادی عفی عنہ ۲۱ شوال ۱۳۱۸ھ
(سید محمد نذیر حسین) (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۶۴۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب