السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسائل مندرجہ ذیل میں کہ ایک شخص کبھی نماز پنجگانہ ادا کرتا تھا۔ کبھی نہیں سو اسیے شخص کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے یا نہیں دوئم ایک شخص نماز عید کی پڑھتا تھا پنجگانہ نماز ترک کرتا تھا،،لیکن اقرار کرتا تھا کہ میں نماز پڑھوں گا سو اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے یا نہیں سوئم ہمارے گائوں میں ایک امام ہین وہ اس قسم کے جنازے نہیں پڑھاتے، اور یہ کہتے ہیں کہ اس میت کی ٹانگ میں ایک رسی باندھ کر ستر قدم کھینچو جب نماز پڑھوں گا علمائے دین سے سوال ہے کہ مسائل مرقوم الصدر کے جواب مع عبارت کتب معتبرہ تحریر فرما دیں۔ بینواتوجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وہو الموفق للصواب جملہ صور مرقومہ سے اول اور دوم صورت کا یہ جواب ہے کہ حضرت ائمہ اربعہ علیہم الرحمۃ اور جملہ اہل سنت و جماعت قامع و قالع اہل بدعت کے نزدیک ان دونوں شخصوں کی نماز جنازہ ضرور چاہیے اور ہر گز ایسے شخصوں کی نماز نہ چھوڑنی چاہیے، اور ان کو بے نماز نہ دفن کرنا چاہیے یا تمام عمر نہیں پڑھتے مگر فرضیت نماز سے کبھی انکار ثابت نہیں ہوا تو یہ لوگ اہل اسلام اور داخل اہل اسلام ہیں اگرچہ فاسق اور اشد گناہ گار نماز نہ پڑھنے پر ہیں۔ لیکن کافر و مرتد نہیں ہیں جو ان کے جنازہ کی نماز پڑھی جائے شرعاً کافر کی نماز جنازہ اور اس کے لیے دعا استغفار کی ممانعت اہل اسلام کو ہے فاسق کے واسطے نماز جنازہ اور دعا ء استغفار کی ممانعت وارد نہیں۔ چنانچہ اس پر اجماع صحابہ اور تابعین اور ائمہ دین متین کا ہے۔
((قال اللّٰہ تعالٰی وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِنْھُمْ مَاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِه وَمَاتُوْا وَھُمْ فَاسِقُوْن وھذہ الاٰیة اعنی قوله تعالٰی وَلَا تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وِّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ صریحة فی انه لَا یجوز الصلوٰة علی الکافر وقوله تعالیٰ وَلَا تَقَمْ عَلٰی قَبْرِہٖ عطف علی لَا تُصَلِّ ای لا تقف علی قبرہ للدفن او الزیادة وقوله تعالیٰ اِنَّہُمْ بِاللّٰہِ الخ تعلیل لتابید الموت او لعدم جواز الصلوة والقیام علی القبر ومعنی قوله تعالیٰ وَھُمْ فَاسِقُوْنَ وھم کٰفِرون لان الصلوة علی الفاسق جائز باجماع الصحابة والتابعین ومضی علیه العلماء الصالحون وھو مذهب اهل السنة والجماعة وانما اختلف فیه الروافض خاصة فینجب حمله علی معنی الکفر وھو الفسق المطلق وقد شاع استعماله فی القراٰن کما فی قوله تعالٰی اَفَمَنْ کَانَ مُؤمِنًا کَمَنْ کَانَ فَاسِقًا وغیرہ))(تفسیرات احمدیہ مختصرًا)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر کوئی ان میں سے مر جائے تو اس پر کبھی نماز نہ پڑھو اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو آیت صاف دلالت کرتی ہے کہ کافر کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ اور نہ دفن کے وقت یا زیارت کے لیے اس کی قبر پر جانا چاہیے اور فاسق کا معنی اس آیت میں کافر ہے کیونکہ فاسق کا جنازہ پڑھنا باجماع صحابہ و تابعین جائز ہے سلف صالحین اور اہل سنت کا یہی مذہب ہے ہاں شیعہ اس کے خلاف ہیں تو ضروری ہے کہ یہاں فاسق کے معنی کافر کے کیے جائیں اور فاسق کے الفاظ کافر کی جگہ قرآن مجید میں کئی جگہ آئے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’کیا مومن فاسق کی طرح ہو سکتے ہیں۔‘‘
شرطہا اسلام المیت وطھارته (تنویر الابصار)
’’جنازہ کے لیے میت کا مسلمان اور پاک ہونا شرط ہے۔‘‘
جواب سوال سوم کا یہ ہے کہ گائوں کے امام صاحب جو فرماتے ہیں کہ اس میت کی ٹانگ میں ایک رسی باندھ کر ستر قدم کھیچو جب نماز پڑھوں گا، سو یہ ان کا فرمانا غلط ہے ہر گز قابل اعتبار نہیں، کیونکہ اس میں توہین میت ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو شرافت و عظمت حیاً و میتا بخشی ہے۔
﴿قال اللّٰہ تعالیٰ وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدْمَ﴾
’’ہم نے بنی آدم کو بزرگی عطا فرمائی۔‘‘
دوم اس میں اذیت و تکلیف میت پہنچے گی، اور میت مسلم کو اذیت و تکلیف دینی حرام اور ممنوع و موجب اثم ہے۔
((قال رسول اللّٰہ ﷺ کسر عظم المیت ککرہٖ حیا رواہ الامام مالك و ابوداؤد ابن ماجة)) (مشکوٰة شریف)((قال القاری فی قوله علیه السلام ککسرہ حیا یعنی فی الاثم کما فی روایة قال الطیبی اشارة الی انه لا یہان المیت کما لا یھان الحی وقال ابن الملك والی ان المیت یتألم قال ابن حجر ومن لازمه ان یستلذ کما یستلذ به الحی انتہی۔ وقد اخرج ابن ابی شیبة عن ابن مسعود اذی المؤمن فی موته کاذاہ فی حیاته ذکرہ فی المرقاة))
’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میت کی ہڈی توڑنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ آدمی کی ہڈی توڑنا۔‘‘ یعنی ان دونوں کا گناہ برابر ہے طیبی نے کہا میت کی توہین کرنا ایسا ہی ہے جیسے زندہ کی توہین کرنا ابن مالک نے کہا میت بھی اسی طرح دکھ محسوس کرتی ہے جیسے زندہ عبد اللہ بن مسعود نے کہا میت بھی تکلیف محسوس کرتی ہے، اور جیسے زندہ آدمی لذت محسوس کرتا ہے میت بھی کرتی ہے۔‘‘
اور حضرات فقہاء ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کو ایسے نیم گرم پانی سے غسل دینا چاہیے کہ جس سے میت کو اذیت و تکلیف نہ پہنچے حیف ہے جناب امام صاحب مذکور فی السوال کو کہ یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ میت کی ٹانگ میں ایک رسی باندھ کر ستر قدم کھینچو جب نماز پڑھوں گا خدا جانے کس شریعت پر عمل کرتے ہیں جو توہین اور اذیت میت مسلم پر آمادہ و مستعد ہوتے ہیں توبہ و استغفار کرنی چاہیے کہ ایسی گھڑت کی باتوں سے رخنہ دین اور فتنہ شرع متین میں پڑتا ہے۔
((قال الشامی قوله (والاعللاء خالص مغلی) ای اغلاء وسطا لان المیت یتاذی مما یتاذی به الحی)) (رد المختار حاشیہ در المختار)
واللہ اعلم اجابه وکتبه الفقیر محمد یعقوب عفاء اللہ عنه الذنوب، تارك الصلوة فاسق ویجوز صلوٰة الجنازہ علیه۔ (فتح محمد)
’’شامی نے کہا میت کو خالص گرم پانی سے غسل دینا چاہیے اور پانی درمیانہ گرم ہو کیونکہ جن چیزوں سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے مردے کو بھی ہوتی ہے۔‘‘
الجواب صحیح بندہ ضیاء الحق مدرس اینیہ۔ الجواب صحیح بندہ محمد قاسم مدرس مدرسہ اینیہ، الجواب صحیح محمد عبد الغفور مدرس مدرس اینیہ
(سید محمد نذیر حسین) (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۶۰۵۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب