سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

جماعت کی صورت میں بیٹھ کر ذکر کرنا

  • 424
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 640

سوال

سوال: السلام علیکم کیا جماعت میں بیٹھ کر سبھی حضرات بلند آواز سے کوئی ذکر کر سکتے ہے؟  ولسلام.

جواب: شیخ صالح المنجد اس جیسے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
اجتماعى طور پر اذكار كرنا بدعت ہے اس كا سنت ميں ثبوت نہيں ملتا. شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:
نماز كے بعد بيك زبان اجتماعى طور پر اذكار كرنے كا حكم كيا ہے، جيسا كہ بعض لوگ كرتے ہيں اور كيا اذكار بلند آواز سے كرنا مسنون ہيں يا پست آواز ميں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ سے سلام پھيرنے كے بعد جہرى آواز سے اذكار كرنا مسنون ہيں؛ اس كى دليل صحيحين كى درج ذيل حديث ہے:
عبد اللہ بن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں جب لوگ نماز سے فارغ ہوتے تو بلند آواز سے اذكار كرتے "
ابن عباس رضى اللہ عنہ كہتے ہيں: " جب ميں يہ اذكار سنتا تو ان كے نماز سے فارغ ہونا معلوم كر ليتا تھا "
ليكن اجتماعى طور پر اذكار كرنا يعنى ايك دوسرے كى نقل كرتے ہوئے سب اذكار كہيں تو اس كى كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ يہ بدعت ہے، بلكہ مشروع تو يہ ہے كہ سب نمازى بلند آواز سے اذكار كريں اور اس ميں ان كا ابتدا اور انتہاء ميں سب كى آواز ملنے كا قصد نہ ہو " انتہى
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 11 / 191 ).
اور شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
نماز كے بعد اجتماعى طور پر بلند آواز سے مسنون اذكار كرنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ بدعت ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، بلكہ سنت ميں تو يہ وارد ہے كہ ہر انسان اپنے طور پر استغفار كرے، ليكن سنت يہ ہے كہ نماز كے بعد بلند آواز سے اذكار كيے جائيں.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:
" جب وہ نماز سے فارغ ہوتے تو ذكر بلند آواز سے كرتے جب ان سے سنتے "
يہ اس كى دليل ہے كہ بلند آواز سے ذكر كرنا سنت ہے، ليكن آج اكثر لوگ اس كے خلاف ہيں كہ وہ اذكار پست آواز ميں كرتے ہيں، اور بعض لوگ صرف لا الہ الا اللہ بلند آواز سے كہتے ہيں اور سبحان اللہ اور الحمد للہ اور اللہ اكبر بلند آواز سے نہيں كہتے! ميرے علم ميں اس كى سنت ميں اس ميں فرق كرنے كى كوئى دليل نہيں ملتى بلكہ سنت تو يہ ہے كہ بلند آواز سے ہو....
اہم اور راجح قول يہى ہے كہ نماز كے بعد مشروع طريقہ پر اذكار كرنے مسنون ہيں،اور اس ميں بلند آواز كرنا بھى سنت ہے يعنى اتنى بلند نہ ہو كہ دوسرے كے ليے تشويش كا باعث ہو، كيونكہ ايسا نہيں كرنا چاہيے.
اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں جب لوگوں نے خيبر سے واپسى پر بلند آواز سے ذكر كرنا شروع كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" لوگو اپنے آپ نرمى كرو "
لہذا آواز بلند كرنے سے مقصود يہ ہے كہ اس ميں مشقت اور تشويش نہ ہو " انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 13 / 261 - 262 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ سے دريافت كيا گيا:
جس مسجد ميں ہم نماز ادا كرتے ہيں وہاں جب نماز باجماعت ختم ہوتى ہے تو لوگ اجتماعى آواز ميں استغر اللہ العظيم و اتوب اليہ كہتے ہيں، كيا يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے ؟
شيخ كا جواب تھا:
" رہا استغفار كا مسئلہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثبوت ملتا ہے كہ جب آپ نماز سے فارغ ہوتے تو صحابہ كرام كى طرف منہ كرنے سے قبل تين بار استغفار كرتے.
رہا مسئلہ استغفار كرنے كى ہيئت و شكل كا جس كا سائل نے سوال ميں ذكر كيا ہے كہ اجتماعى طور پر كرتے ہيں تو يہ بدعت ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ طريقہ نہيں تھا، بلكہ ہر كوئى اپنے طور پر استفغار كرتا، اور صحابہ كرام انفرادى طور پر اجتماعى آواز كے بغير استغفار كرتے تھے، اور ان كے بعد قرون مفضلہ ميں بھى يہى طريقہ رہا ہے.
لہذا سلام كے بعد فى حد ذاتہ استغفار كرنا سنت ہے، ليكن اجتماعى آواز ميں كرنا بدعت ہے اس ليے اسے ترك كرنا اور اس سے دور رہنا ضرورى ہے " انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 72 ).

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ