سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(43) کیا مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر تلقین کرنی درست ہے؟

  • 4234
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 1297

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مردہ کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر تلقین (؎۱) کرنی درست ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے جو اس کو بدعت کہا اور مطلقاً احادیث ضعیفہ کو متروک العمل قرار دینا محدثین میں سے کس کا مذہب ہے۔ حالانکہ محدثین صحاب ستہ کئی جگہ احادیث ضعیفہ پر باب باندھتے ہیں۔ اور ان سے استدلال کرتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات حدیث مردود السند توہوتی ہے لیکن مقبول المعانی ہوتی ہے۔

(؎۱) یعنی میت کو دفن کر کے اس کی قبر پر کھڑے ہو کر اس کو منکر و نکیر کے جواب کی تلقین کرنا یا یاد ہانی کرانا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث تلقین کی بابت صاحب سبل السلام لکھتے ہیں۔

((ویتحصل من کلام ائمة الحتقیق انه حدیث ضعیف والعمل به بدعة ولا یفتر بکثرة من یفعله))(سبل السلام ص ۲۰۳)

یعنی ائمہ محقیق کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنا بدعت ہے۔ اور بہت لوگوں کے قول سے دھوکہ نہ کھانا چاہیے۔ کیونکہ اکثر دنیا بھیڑ چال ہے۔ امام عراقی کہتے ہیں۔ الفاظ جرح کے پانچ درجے ہیں۔ پہلا درجہ یہ ہے کہ راوی مطعون کے حق کہا جائے۔ کذاب یہ راوی بہت جھوٹا ہے یا کہا جائے وضّاع یعنی اپنی طرف سے حدیثیں بنا کر رسو ل اللہ ﷺ کی طرف منسوب کر دیتا ہے۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ راوی کو کہا جائے۔ متہم بالکذب۔ اس راویٔ کذب کی تہمت لگی ہے۔ یا یوں کہیں متہم بالوضع اس راوی کو حدیثیں وفع کرنے کی تہمت لگی ہے۔ یا یوں کہیں ((ھَالِکٌ)) یا یوں کہیں متروک یا یوں کہیں ساقط تیسرا درجہ یہ ہے کہ راوی کو کہیں مردود الحدیث یا کہیں واہ ان قسموں سے تو احتجاج کیا جاتا ہے۔ اور نہ ہی استشہاد و اعتبار۔ (تائید) میں ان کی حدیث لی جاتی ہے۔

چوتھا درجہ یہ ہے کہ راوی کو کہا جائے ضعیف الحدیث یا یوں کہا جائے منکر الحدیث یا اس طرح کہا جائے مفطر الحدیث۔

پانچواں درجہ یہ ہے کہ راوی کو کہا جائے ((فیه ضعف)) یا اسی طرح کہا جائے۔ ((وھو سَییٔ الحفظ)) یا یوں کہا جائے ((لیس بالقوی)) یا یوں کہا جائے ((ھولین)) یا اس کو ایساکہیں ((فیه ادنی مقال)) ان پچھلے درجوں کی حدیث اخذ بھی کی جاتی ہے۔ اور اعتبار و استشہاد کے واسطے اس میں نظر بھی کی جاتی ہے۔

شیخ ابن الہمام تحریر فرماتے ہیں جو حدیث راوی کے فسق کے سبب ضعیف ہو وہ متعدد سندوں سے قبل احتجاج نہیں ہو سکتی (حاشیہ شرح نخبہ) حدیث تلقین چونکہ اخیر کے درجوں سے نہیں۔ اس لیے اس پر عمل بدعت ہے۔ اگر یہ کچھ قابل عمل ہوتی تو خیر القرون میں اس پر کیوں عمل نہیں ہوا۔ کیا اس وقت حاجت نہ تھی یا کوئی مردہ دفن نہ ہوتا تھا۔ یا ان کو اس پر عمل کا شوق نہ تھا۔ جب یہ سب باتیں مفقود ہیں تو ا س حدیث کی حقیقت واضح ہے کہ یہ بالکل ساقط ہے۔ قابل عمل نہیں۔ (حافظ) عبد اللہ روپڑی (فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد نمبر ۲ ص نمبر ۴۳۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 76

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ