السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میت کی پیشانی پر انگلی سے بسم اللہ لکھنا اور کوئی متبرک چیز مثلاً غلاف کعبہ کا ٹکڑا کفن پر باندھنا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
میت کی پیشانی پر انگلی سے بسم اللہ لکھنا کتاب الٰہی و سنت رسول و اجماع صحابہ و قیاس مجتہدین سے ہر گز ثابت نہیں ہے اور جو ان چار دلیلوں میں سے کسی سے بھی ثابت نہ ہو وہ کام کرنا منع ہے اور اسی طرح کفن پر کوئی چیز لکھنا یا کسی متبرک چیز کا رکھنا بھی جائز نہیں ہے۔ اگر سوال کیا جائے کہ فقہ کی بعض کتابوں سے لکھنا ثابت ہوتا ہے جیسا کہ محمد بن بزازی نے فتاویٰ بزازیہ میں لکھا ہے کہ:
’’اگر میت کی پیشانی یا پگڑی یا کفن پر عہد نامہ یا کفن پر عہد نامہ لکھا جائے تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بخش دے۔ اور تاتار خانیہ میں ہے کہ کسی نے اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ جب میں مر جائوں اور غسل دے دیا جائے، تو میری پیشانی پر بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ دینا چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر خواب میں باپ کو دیکھا۔ اس کا حال پوچھا تو اس نے کہا جب مجھے قبر میں رکھا گیا تو عذاب کے فرشتے آئے، جب انہوں نے میری پیشانی اور سینہ پر بسم اللہ دیکھی تو کہنے لگے۔ تو عذاب سے بچ گیا۔‘‘
اور ابراہیم نے صغیری شرح منیہ میں اور علائو الدین حصکفے نے درمختار میں اور ابن عابدین نے ردالمختار میں بزازیہ کے حوالہ سے اس عبارت کو لکھا ہے، اور جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ اور ابن عجیل پہلے اس کا فتویٰ دیتے تھے۔ بعد ازاں صدقہ کے اونٹوں پر جو لفظ ’’اللہ‘‘ لکھا جاتا ہے اس پر قیاس کر کے لکھنے کے فتویٰ بھی دینے لگے۔ اور اسی طرح شرجی کے حوالہ سے بعض محشین نے سینہ پر انگلی سے بسم اللہ اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھنا نقل کیا ہے۔ اور یہی فتویٰ محمد اسحٰق دہلوی نے مایٗۃ مسائل میں اور مفتاح الجنان وکفایہ میں شعبی میں درج ہے تو اس سے اس کا جوا ز ثابت ہوتا ہے۔ اس کے جواب میں میں کہتا ہے کہ اولہ اربعہ میں سے کوئی دلیل بھی مذکورہ کتابوں میں نقل نہیں کی گئی اور اس کی بنا قیاس فاسد پر ہے۔ یا پھر خواب پر قیاس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اذکار اور ادعیہ اور ان کی ہیئت کذائی سب توقیفی (جن میں قیاس کو دخل نہ ہو) ہیں ان کو از خود تجویز کرنے اور ان پر اجر مرتب کرنے کا کسی کو بھی حق نہیں ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہے بعض چیزیں بظاہر دیکھنے میں اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن چونکہ وہ منقول نہیں ہیں۔ لہٰذا منع ہیں۔ دیکھئے صبح طلوع ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ سے صرف دو رکعت سنت ثابت ہے۔ اب اگر کوئی زیادہ پڑھے تو ناجائز ہو گا۔ حالانکہ نماز فی نفسہٖ بہت اچھی چیز ہے عید گاہ میں نفل چونکہ آنحضرت سے ثابت نہیں ہیں۔ اگر وہاں نفل پڑھے تو جائز نہ ہو گا۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے کہ سورۃ قل یا ایہا الکفرون سے لے کر آخر تک ایک ہی رکعت میں نہ پڑھے۔ کیونکہ یہ بدعت ہے ثابت نہیں ہے۔ اور صدقہ کے اونٹوں پر قیاس کر کے لکھنا قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ اونٹوں پر جو لکھا جاتا ہے، وہ علامت کے لیے لکھا جاتا ہے۔ اور یہاں جو کچھ لکھا جاتا ہے۔ وہ تبرک اور نجات کے لیے لکھا جاتا ہے۔ اور پھر وہاں بے ادبی کا امکان نہیں۔ اور یہاں پیپ وغیرہ میں ملوث ہونے کا یقین ہے۔ پھر یہ بھی دیکھیں کہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کانوں میں اذان کہتے ہیں کہ وہ اس کی زندگی کی ابتداء تھی اس پر انتہاء کو قیاس کرکے بعض لوگوں نے دفن کے وقت بھی اذان کہنا شروع کر دی تو فقہاء نے اس پر انکار کیا۔ چنانچہ ابن عابدین نے رد المختار میں اور ابن حجر نے اپنے فتاویٰ میں اس کو بدعت لکھا۔ عید اور جمعہ کی نماز کے بعد بعض لوگوں نے مصافحہ کرنا شروع کر دیا۔ تو گو مصافحہ فی نفسہٖ بری چیز نہیں لیکن فقہاء نے اس کا انکار کیا کیونکہ یہ اس موقع میں ثابت نہیں۔ صلوٰۃ الرغائب کو جس کو بعض بدعتی لوگوں نے جاری کر دیا ہے اس کے خلاف فقہاء نے آواز سنایا۔
باقی رہا خواب کا معاملہ تو نبی کی خواب کے سوا کسی کی خواب حجت شرعی نہیں ہے۔ اور اس سے احکام کا استباط نہیں کیا جا سکتا۔ دیکھئے علامہ کرمانی نے شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کے ماتحت کہ ابو لہب کی ایک لونڈی ثوبیہ تھی۔ اس نے ابو لہب کو آنحضرت ﷺ کی پیدائش کی جب خوشخبری سنائی تو ابو لہب نے اس کو آزاد کر دیا۔ پھر ثوبیہ نے نبی ﷺ کو دودھ پلایا جب ابو لہب مر گیا تو اس کے گھر والوں میں سے کسی نے اس کو خواب میں دیکھا الخ اگر کہا جائے کہ اس میں دلیل ہے کہ کافروں کو بھی نیک اعمال نفع دیتے ہیں۔ تو میں کہتا ہوں کہ یہ واقعہ قرآن مجید کی آیت ﴿فَجَعَلْنَاہُ ھَبَآءً مَّنْثُوْرًا﴾ کے مخالف ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس حدیث سے دلیل نہیں کی جا سکتی کیوں کہ یہ مرسل ہے۔ اس کو عروہ نے بیان کیا ہے۔ اور کسی سے سنی ہے۔ یہ بیان نہیں کرتا۔ اور اگر بالفرض یہ حدیث موصول بھی ہوتی تو ایک خواب ہونے کی وجہ سے اس سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔ قسطلانی بھی یہی کہتے ہیں۔ بلکہ نسفی کی طرح مناء میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ نبی کے علاوہ کسی کا الہام بھی حجت نہیں ہے۔ اور نہ کسی کی خواب حجت ہے۔ باقی یہ جتنی کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے۔ انہوں نے بزازیہ سے نقل کیا ہے۔ اور بزازیہ نے اس پر کوئی شرعی دلیل قائم نہیں کی ہے۔ لہٰذا وہ توجہ دینے کے قابل نہیں۔ ابن صلاح اور صاحب در مختار نے بہت صحیح لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام یا قرآن کی کوئی سورت میت پر یا کفن پر لکھنا تو درکنار۔ روپیہ۔ حلقہ دیوار اور فرش پر بھی نہیں لکھنا چاہیے۔کیونکہ اس سے بے ادبی کا احتمال ہے۔ اور کفن پر لکھنے میں تو بے ادبی کا یقین ہے۔ پس ایسی صورت میں یہ لکھنا کیسے جائز ہو جائے گا۔
اور کفن میں متبرک شے کا اضافہ کرنے کے متعلق تحقیقی جواب یہ ہے کہ روایات سے ثابت ہے کہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں خانہ کعبہ پر خلاف چڑھایا جاتا تھا۔ اور کسی نے اس کا انکار نہ کیا اس سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ پر غلاف چڑھانا درست ہے۔ لیکن اس کے بعد اس کو خریدنا اور فروخت کرنا اور دوسرے ممالک میں بطور تبرک لے جانا اس میں علماء کا اختلاف ہے۔ چنانچہ علامہ عینی عمدۃ القاری میں اسی باب کے تحت لکھتے ہیں کہ اس کا بیچنا اور دوسرے ممالک میں لے جانا جائز نہیں ہے۔ اور فضل عدلان کا فتویٰ بھی یہی ہے۔ ابن صلاح نے کہا کہ اگر اس کا خریدنا یا فروخت کرنا جائز بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس کی فروخت سے جو مال میسر ہوا اس کو بیت المال میں داخل کرنا ضروری ہے۔ ازرقی نے بھی لکھا ہے حضرت عباس اور عائشہ رصدیقہ رضی اللہ عنہا کا فتویٰ ہے کہ خانہ کعبہ سے اتر جانے کے بعد جنبی اور حائضہ اس کو پہن سکتے ہیں۔ جو اس کی خرید و فروخت کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک کعبہ کے اترے ہوئے غلاف کا کفن دینا جائز ہے۔ اور متبرک کپڑے کا کفن دینا حدیث سے ثابت ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن ابی منافق جب مر گیا تو اس کے بیٹے عبد اللہ نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ اپنی قمیض عنایت فرما دیں، تاکہ اس میں اس کو کفن دیا جا سکے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے قمیص دے دی ایک عورت نے نبی ﷺ کو ایک کپڑا بن کر دیا۔ آپ نے اس کو پہن لیا پھر کچھ مدت کے بعد اس نے حضور سے کپڑا مانگا۔ آپ ﷺ نے دے دیا۔ اس نے اس کپڑے کو اپنے کفن کے لیے رکھ لیا۔ نبی ﷺ کی ایک صاحبزادی فوت ہوئیں۔ تو کفن کے لیے آپ ﷺ نے اپنا تہ بند اتار کر دے دیا۔ ان روایات سے تو ثابت ہوتا ہے کہ متبر ک کپڑے میں کفن دینا درست ہے لیکن یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسنون کفن کے بعد اس پر متبرک کپڑے کا اضافہ کیا جائے۔ چنانچہ میت کو پگڑی پہنانے کے خلاف فقہاء نے فتویٰ دیا۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔ ان میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔ فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ کفن تین کپڑے ہیں۔ جن میں ہمارے مذہب کے مطابق پگڑی نہیں ہے۔ بحر الرائق۔ مجتبی تنویر الابصار۔ قہستانی۔ جامع الرموز۔ زاہدی وغیرہ میں بھی اسی طرح ہے تو کفن کے ہمراہ غلاف کعبہ کا ٹکڑا رکھنا ایک زائد چیز ہو گی۔ جو سنت کے خلاف ہے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔‘‘جب کوئی قوم کوئی بدعت رائج کرتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ایک سنت اس قوم سے اٹھا لیتے ہیں تو سنت کا تھام لینا بدعت کے کرنے سے بہتر ہے۔‘‘ خلاصہ یہ کہ بسم اللہ کا انگلی سے پیشانی پر لکھنا اور غلاف کعبہ کا ٹکڑا کفن پر رکھنا دونوں بدعت ہیں۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو کوئی دین میں کوئی نیا کام جاری کرے جس کے متعلق ہمارا حکم نہیں ہے۔ تو وہ کام مردود ہے۔ اور آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ’’دو چیزیں ہیں۔ کلام اور ہدایت تو بہترین کلام اللہ تعالیٰ کی کلام ہے۔ اور بہترین راستہ رسول اللہ ﷺ کا راستہ ہے۔ تم نئے کاموں سے بچنا کہ بدترین کام نئے کام ہیں۔ اور دین میں ہر نیا کام بدعت ہے۔ اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ واللہ اعلم۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب