السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرح متین مسائل ذیل میں کہ دہلی میں کفن پر تین بند باندھنے اور قبر میں دو بند کھولنے اور کمر کے بند نہ کھولنے کی رسم ہے اور مٹی دیتے وقت آیت ﴿مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ الخ﴾ پڑھتے ہیں اور کفن کو کھول کر قبلہ رخ میت کا منہ موڑ دینے کا رواج ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ شرع شریف میں بند باندھنے کی صورت اور وقت اور موقع کیا لکھا ہے۔ اور کس چیز سے باندھنے کا حکم ہے۔ اور جب کہ بند باندھنا ضروری نہیں تو تمام ملک میں اس کا رواج لازمی طور سے کیوں ہے۔ بینواتوجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی آیت یا حدیث میں کفن پر بند باندھنے کا کچھ ذکر نہیں آیا ہے۔ نہ اس کی صورت کا کچھ ذکر آیا ہے۔ اور نہ اس کے وقت اور موقع کا کچھ تذکرہ آیا ہے۔ اور نہ اس کا بیان آیا ہے کہ کس چیز سے باندھنا اور اس کے بند باندھنا چاہیے۔ ہاں فقہاء رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر کفن کے منتشر ہونے اور میت کے کھل جانے کا خوف ہو تو کفن کو دھجی سے باندھ دیں۔ اور قبر میں رکھنے کے بعد کفن منتشر ہونے کا خوف نہیں رہتا اس وجہ سے قبر میں بند کھول دینے کو لکھا ہے، ہدایہ میں ہے ((وان خافوا ان ینتشر الکفن عنه عقدوہ بخرقة صیانة انتہی ملخصاً)) اور آیہ ﴿مِنْہَا خَلَقْنَاکُمْ الخ﴾ کا مٹی دیتے وقت پڑھنا معلوم نہیں ہوتا۔ اور میت کو لحد میں قبلہ رخ متوجہ کر دینا حدیث سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر تخریج ہدایہ میں لکھتے ہیں۔ ((واما التوجھه الی القبلة ففیه حدیث ابی ھریرة وقتادة ان البراء بن معرور لما تونی اوصی ان یوجه الی القبلة فقال النبی ﷺ اصاب صحح الحاکم)) (حررہ عبد الرحیم عفی عنہ)(سید محمد نذیر حسین)
ہو الموفق:… کفن پر بند باندھنے اور اس کو قبر میں کھول دینے کے بارے میں کوئی حدیث مرفوع نظر سے نہیں گزری۔ ہاں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا ایک اثر اس بارے میں دیکھنے میں آیا ہے شرح معانی الاثار صفحہ ۲۹۲ جلد ۱ میں عثمان بن حجاش سے روایت ہے۔ کہ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا انتقال کر گیا تو انہوں نے اس کو غسل دیا۔ اور کفنایا پھر اپنے غلام سے کہا کہ اسے دفن کے لیے لے جائو اور جب اس کو قبر میں رکھنا تو ((بسم اللّٰہ علی سنته رسول اللّٰہ)) کہنا پھر اس کے سر کی گرہ اور اس کے پیر کی گرہ کھول دینا۔ ((لفظہ (؎۱) ھکذا فغسل بین یدیه وکفن بین یدیه ثم قال لمولاہ انطلق به الی حضرته فاذا وضعته فی لحدہ فقل بسم اللّٰہ وعلی سنة رسول اللّہ ﷺ ثم اطلق عقد راسه وعقد رجلیه)) اور علمائے حنفیہ و شافعیہ نے لکھا ہے کہ مٹی دیتے وقت آیت ﴿مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ الخ﴾ پڑھنا مستحب ہے علامہ شوکانی نیل الاوطار صفحہ ۳۲۳ جلد ۳ میں لکھتے ہیں۔ ((قولہ (؎۲) من قبل راسه فیه دلیل علی ان المشروع ان یحثی علی المیت من جھة راسه ویستحب ان یقول عند ذلك منْھَا خَلَقْنَاکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا خُرْجُکُمْ تَارَةً اُخْریٰ ذکرہ اصحاب الشافعی انتہی)) اور اسی طرح سبل السلام میں بھی لکھا ہے۔ اور اس بارے میں ایک ضعیف حدیث آئی ہے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے۔ ((وروی احمد باسناد ضعیف انه یقول مع الاولی مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ ومع الثانیة وفیھا نعیدکم ومع الثالثة ومنھا خرجکم تارة اخریٰ)) ’’یعنی رسول اللہ ﷺ پہلی بار مٹی ڈالنے کے وقت ﴿مِنْھَا خَلَقْنَاکُمْ﴾ پڑھتے اور ایک حدیث ضعیف میں میت کو قبر میں رکھنے کے وقت بھی اس آیت کا پڑھنا آیا ہے۔‘‘نیل الاوطار صفحہ ۳۲۱ جلد میں ہے۔ ((وعن ابی امامة عند الحاکم والبیہقی بلفظ لما وضعت ام کلثوم بنت رسول اللّٰہ ﷺ واٰله وسلم فی القبر قال رسول اللّٰہ ﷺ مِنْہَا خَلقْنَاکُمْ وَفِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَمِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَةً اُخْریٰ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَعَلَی مِلَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ الحدیث وسندہ ضعیف انتہی)) واللہ تعالیٰ اعلم ۔
کتبہ محمد عبد الرحمٰن المبارکفوری عفا اللہ عنہ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر ۱ ص ۴۱۶)
(؎۱) اس کو غسل اور کفن دیا پھر اپنے غلام کو کہا اس کو قبر میں لے جا کر دفن کر دو جب اسے لحد میں رکھو تو کہو اللہ کے نام اور رسول اللہ ﷺ کی سنت پر پھر اس کا پائوں اور سر کا بند کھول دینا۔
(؎۲) اس میں یہ ہے کہ میت پر مٹی سر کی جانب سے ڈالنا مستحب ہے اور یہ بھی مستحب ہے کہ اس وقت یہ آیت پڑھے نہ اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا اور اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالیں گے اس کو امام شافعی کے اصحاب نے ذکر کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب