سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) اسقاط میت جائز ہے یا نہیں؟

  • 4225
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 1187

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اسقاط میت جائز ہے یا نہ، کیوں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ میت کے گناہ صاف کر دیے جاتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسقاط میت تین وجہوں سے ناجائز ہے۔ اول یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں خیر القرون میں یعنی صحابہ و تابعین و تبع تابعین میں اسقاط کا نام و نشان نہ تھا۔ حالانکہ ہمیشہ اس زمانہ میں مسعود میں اموات ہوتے تھے مگر باوجود اس کے رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے نہ صحابہ سے نہ تابعین سے نہ تبع تابعین سے نہ ائمہ دین سے۔ اگر اس طریق سے گناہ معاف ہوتے ہیں تو کیا اُن کو گناہ کی معافی کی ضرورت نہ تھی۔ یا وہ میت کے خیر خواہ نہ تھے، یا ان کو نیک کاموں کا شوق نہ تھا۔ جب یہ سب باتیں تھیں بلکہ ہم سے بڑھ کر وہ ایسی باتوں کا خیال رکھتے تھے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ خیر القرون می اس کا ثبوت نہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسقاط سے میت کے گناہ نہیں ہوتے اور جب میت کے گناہ معاف نہ ہوئے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ((من کذب علیّ متعمداً فلیتبوا مقعده من النار)) (مشکوٰۃ) ’’یعنی جو مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنائے۔‘‘

دوسری وجہ یہ کہ جس کام کی رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ضرورت ہو اور اس کے کرنے سے کوئی مانع بھی نہ ہو، پھر اس کو کوئی کرے تو وہ قطعی بدعت ہوتا ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: ((من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منه فھو رد)) (مشکوٰۃ) ’’یعنی جو ہمارے دین میں نئی بات نکالے وہ مردود ہے۔‘‘اور ایک روایت ہے کہ ایسا شخص لعنتی ہے۔ بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام دین میں مردود ہے۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو پس اسقاط کرنے والوں کو چاہیے کہ یا تو خیر القرون سے اس کا ثبوت دیں یا خدا سے ڈریں اور ایسے کاموں سے باز آئیں جو بجائے ثواب کے خدا کی ناراضگی کا باعث ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں ((ان اللّٰہ لا ینظر الی صوّرکم واموالکم ولکن ینظر الی قلوبکم واعمالکم)) (مشکوٰۃ) ’’یعنی اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا۔ لیکن تمہارے دلوں اور عملوں کو دیکھتا ہے۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دو بات قدر رکھتی ہے، جو دل سے ہو اور یہ بات ظاہر ہے کہ اسقاط میں جب قرآن مجید پھرایا جاتا ہے تو دل سے میت بخشنے کی نہیں ہوتی، کیوں کہ اگر چکر پورا نہ ہوا اور درمیان میں ہی ایک شخص لے کر چلا یگا اور کہے کہ جب مجھے بخش دیا گیا ہے تو میری مرضی کسی کو بخشوں یا نہ۔ اسقاط کرنے والے اس کو برا منائیں گے بلکہ کہیں گے کہ اسقاط نہیں ہوا۔ پس معلوم ہوا کہ یہ بخشا برائے نام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کو ایک طرح کا دھوکہ دینا ہے۔ بھلا ایسے عمل سے اللہ خوش ہو گا یا ناراض۔

بمبئی کی طرف بہت لوگوں حیلوں سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ تمام روپوں کی زکوٰۃ نکال کر ایک گھڑے میں ڈال کر اوپر سے گیہوں سے بھر کر فقیر کو دے دیتے ہیں۔ پھر فقیر کو کہتے ہیں کہ تم ان دونوں کا کیا کرو گے۔ روپیہ دو روپیہ سے ہم کو فروخت کر دو۔ فقیر بے چارے کو کیا معلوم کہ دانوں کے نیچے روپے ہیں۔ وہ بیچارہ روپیہ دو روپیہ غنیمت سمجھ کر بڑی خوشی سے فروخت کر دیتا ہے۔ زکوٰۃ دینے والے یہ خیال کرتے ہیں کہ ہماری زکوٰۃ ادا ہو گئی، کیوں کہ ایک مرتبہ فقیر کے سپرد کر دی ہے۔ آگے وہ اپنی خوشی سے جس کو چاہے فروخت کر دے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اس دھوکہ سے فقیر تو دھوکہ کھا سکتا ہے۔ مگر علام الغیوب تو دھوکہ نہیں کھا سکتا۔ اب اسقاط کرنے والے بھی خدا کو دھوکہ سے خوش کرنا چاہتے ہیں کہ لفظ بخشش کا بولتے ہین اور اندر نیت نہیں ہوتی۔ مگر یاد رہے کہ جو خدا سے دھوکہ کرے وہ خود دھوکہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ﴾ ’’یعنی وہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دیتے ہیں اور اللہ ان کو دھوکہ کا بدلہ دیتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اس فعل کے سبب سے دھوکے میں ہیں۔

(رسالہ بدعات مروجہ کی تردید نمبر۲ از مولانا عبد اللہ محدث روپڑی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 56-

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ