سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) شیعہ اور دیگر اہل بدعت کا جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

  • 4220
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1735

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیعہ اور دیگر اہل بدعت کا جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیعہ کے کئی فرقے ہیں ایک زیدی کہلاتے ہیں، وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہما کو گالی نہیں دیتے نہ ان کو منافق کہتے ہیں، بلکہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیتے ہیں۔ تو ایسے شیعہ کافر نہیں۔ ان کا جنازہ اگر کوئی پڑھ لے تو کوئی حرج نہی، لیکن پڑھنا اچھا نہیں، کیوں کہ لوگوں کے دلوں میں ان کی نفرت نہیں رہتی۔ بلکہ ان کو اچھا سمجھنے لگتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ تنبیہ کے لیے مقروض کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے زیدی شیعہ تو اس سے کئی درجہ بڑے ہیں۔ ان کا جنازہ بطریق اولیٰ نہ پڑھنا چاہیے اور جو شیعہ حضرات ابو بکر رضی اللہ عنہ وغیرہ کو گالی دیتے ہیں اور کہتے ہیں ان کا ایمان منافقانہ تھا۔ تو ایسے شیعہ کافر ہیں اور کافروں کی بابت قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِیْنَ﴾ (الاعراف رکوع نمبر ۶) ’’یعنی کافروں پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے۔‘‘اسی طرح مشرک کی بابت فرمایا ہے۔ ﴿اِنَّه مَنْ یُشْرِك بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ﴾ (سورۃ مائدہ رکوع نمبر ۲)’’یعنی جو شرک کرے اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دی ہے۔‘‘جب جنت حرام ہے تو نماز جنازہ کاہے کے لیے ہو گی۔ دوسری آیت میں ہے۔ ﴿مَا کَانَ لِلنّبِیْ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْ یَسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْ کَانُوْا اُوْلِیْ قُرْبٰی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحَابُ الْجَیْم﴾ (پارہ نمبر ۱۱ رکوع نمبر ۳) ’’یعنی نبی کے لیے اور ایمان والوں کے لیے لائق نہیں کہ مشرکوں کے لیے بخشش مانگیں، خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں جب ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں۔‘‘اس آیت میں مشرکوں کے لیے بخشش نہ مانگنے کی وجہ بتائی ہے کہ وہ دوزخی ہیں ۔ یعنی ان کو دوزخ سے کسی وقت نجات نہیں ۔پس جس شخص کی کسی وقت نجات کی امید نہ ہو۔ اس کے لیے بخشش کی دعا کرنی منع ہے۔ اور شیعہ مذکور چونکہ کافر ہے۔ اس کی نجات کی بھی امید نہیں۔ پس اس کی بابت بھی بخشش کی دعا منع ہے، حدیث میں ہے:

 ((اَلْقَدْرِیَّةُ مَجُوْسٌ ھٰذَا الْاُمَّةِ اِنْ مَرِضُوْ وافَلَا تَعرُوُوْھُمْ وَاِنْ مَا تُوْا فَلَا تَشْھَدُوْھُمْ)) (رواہ احمد و ابو داؤد مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر)

’’ینعی تقدیر سے انکار کرنے والے اُمت کے مجوسی ہیں اگر بیمار ہو جائیں تو ان کی بیمار پرسی نہ کرو اگر مر جائیں تو ان کے کفن دفن اور جنازہ میں حاضر نہ ہو۔‘‘

جیسے تقدیر کے منکروں کو اس حدیث میں اس امت کے مجوس قرار دیا ہے۔ اس طرح شیعہ کو ایک اور حدیث میں اس امت کے نصاریٰ قرار دیا ہے۔ مشکوٰۃ باب مناقب علی رضی اللہ عنہ میں حدیث ہے رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا تیری یحییٰ علیہ السلام کی مثال ہے۔ یہود نے اس سے بغض رکھا یہاں تک کہ ان کی ماہ پر بہتان باندھا اور نصاریٰ نے ان سے محبت کی، یہاں تک کہ ان کو اس مرتبہ تک پہنچا دیا کہ جو اس کے لائق نہ تھا۔ یعنی ایک بغض میں ہلاک ہو گئے ایک محبت میں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھ سے محبت میں بعض افراط کرنے والا بھی ہلاک ہو جائے گا اور مجھ سے بغض رکھنے ولا بھی ہلاک ہو جائے گا۔ جس کو میرا بغض بہتان پر آمادہ کرتا ہے۔ سو یہ پیش گوئی ہو کرہی رہی۔ خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں۔ گویا کہ وہ اس امت کے یہود ہیں اور شیعہ محبت میں افراط کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کی محبت کی وجہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں۔ تو گویا کہ اس امت کے نصاریٰ ہوئے ہیں۔ پس جیسے قدریہ کا جنازہ جائز نہیں کیوں کہ وہ اس امت کے مجوس ہیں۔ اس طرح شیعہ اور خارجہ کا بھی جنازہ جائز نہیں۔ کیوں کہ وہ اس امت کے یہود و نصاریٰ ہیں۔ جس امام نے جنازہ پڑھا ہے۔ اُس کو امامت سے معزول کر دینا چاہیے اس لیے کہ اس جنازہ ایک کافر کا جنازہ پڑھ رہا۔

(حافظ محمد )عبد اللہ امر تسری ازروپڑ ضلع انبالہ (فتاویٰ اہل حدیث روپڑ جلد نمبر ۲ ص ۴۴۶)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 52-54-

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ