السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
موتٰی کے دفن کرنے میں جلدی کی جائے یا دیر، زید کہتا ہے کہ جلدی کرنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم تین کاموں میں جلدی کیا کرو، جس میں سے ایک جنازہ بھی ہے، مگر بکر کہتا ہے کہ دیر کی جائے کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی نعش مبارک دو دن کے بعد دفن کی گئی، اگر یونہی ہوتا تو صحابہ رضی اللہ عنہما حدیث کے یاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے والے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی نعش مبارک کو بغیر دفن کیے ہوئے دو دن تک کیوں رکھتے۔ اب دریافت طلب یہ ہے کہ زید کا کہنا ٹھیک ہے یا بکر کا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں حکم یہی ہے کہ میت کو جلدی دفن کرو۔ آنحضرت ﷺ کے دفن کرنے میں اس لیے دیر ہوئی تھی کہ نعش مبارک حجرے میں تھی جہاں دفن ہوئی تھی لو گ جوق در جوق آتے اور باری باری نماز جنازہ پڑھتے تھے۔ اس سے اصل حکم میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔
… صرف جنازہ پڑھنے کی وجہ یہ نہ تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ شاہی دستور ہے کہ جب تک جانشین نہ مقرر ہو جائے تب تک نعش شاہی دفن ہیں کی جاتی۔ اور اگرچہ رسول اللہ ﷺ کا طریق پر نہ تھا، مگر رسالت اور خصوصاً آپ کی رسالت جو ﴿اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ کَافَةً الایة﴾ عام تھی کہ آپ کے بعد خلافت راشدہ شاہان دنیا سے اعلیٰ تھی۔ اسی وجہ سے حضور ﷺ کے انتقال کے بعد صحابہ خلیفہ کے تعیین و تقریر میں مشغول تھے ملاحظہ ہو بخاری ج ۱ ص ۵۱۸۔
(ابو سعید شرف الدین دہلوی فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۵۳۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب