سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(15) ایسی موجودہ صورت میں اس کے خاوند کو غسل دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

  • 4206
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1175

سوال

(15) ایسی موجودہ صورت میں اس کے خاوند کو غسل دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت مر گئی، اس کو خاوند نے غسل دیا۔ باوجودیکہ اس کی قریبی عورتیںاس مجمع میں موجود تھیں ایسی موجودہ صورت میں اس کے خاوند کو غسل دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خاوند بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا تھا۔ منتقیٰ میں ہے۔

((عَنْ عائشة رضی اللہ عنہا قالت رجع رسول اللّٰہ ﷺ من جنازة بالبقیع وانا اجد صداعی فی رأسی واقول وارساه فقال بل انا واراساہ ما ضرك لومت قبل لغسلتك وکفنتك ثم صَلّیت علیك ودفنك رواہ احمد و ابن ماجة وعن عائشة رضی اللہ عنہا کانت تقول لو استقبت من الامرمَا استدبرت مَا غسل رسول اللّٰہ ﷺ الانساءه۔ رواہ احمد و ابو داؤد وابن ماجة وقد ذکرنا ان الصدیق وصی اسماء زوجته انّ تغسله فضسلته)) (باب ما جاء فی غسل احد الأخر)

’’یعنی عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک شخص کے جنازہ سے لوٹے اور میرے سر میں درد ہو رہا تھا اور میں ہائے ہائے کر رہی تھی، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلکہ میرے سر میں درد ہوتا ہے اگر تو مجھ سے پہلے مر جاتی تو میں تجھے غسل دیتا اور کفن دیتا، پھر تجھ پر نماز جنازہ پڑھتا اور تجھے دفن کرتا۔نیز عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتی تھیں اگر ہمیں پہلے خیال آتا تو رسول اللہ ﷺ کو آپ کی بیویوں کے سوا کوئی غسل نہ دیتا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت اپنی بیوی اسماء کو وصیت کی کہ وہ غسل دے، پس اُس نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غسل دیا۔‘‘

نیل الاوطار میں ہے۔

((فِیْهِ دَلِیْلٌ عَلٰی اَنَّ الْمرأةَ یَغْسِلُھَا زَوْجَھَا اِذَا مَا تَتْ وَھِیَ تَغْسِلُه قِیَاسًا وَلِغُسْلِ اَسْمَاء لِاَبِیْ بَکْرٍ کَمَا تَقَّدَّمَ عَلِیٍّ لِفَاطِمَة کَمَا اَخْرَجَه الشَّافِعیُّ وَالدَّارْقطنی وَاَبُوْ نَعِیْمٍ وَالْبَیْھَقِیُّ بِاَسْنَادِ حَسَنٍ وَلَمْ یَقَعْ مِنْ سَائِرُ الصَّحَابَة اِنْکَارٌ عَلٰی عَلِیٍّ وَاَسْمَاء فَکَانَ اجماعًه))(جلد نمبر ۲ ص ۲۵۷)

’’یعنی اس دلیل ہے کہ مرد اپنی عورت کو غسل دے سکتا ہے اور عورت بھی اسی دلیل سے خاوند کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ خاوند بیوی کا ایک پردہ ہے، جیسے مرد عورت کو دیکھ سکتا ہے، عورت مرد کو دیکھ سکتی ہے۔

نیز اسماء حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیوی نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو غسل دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل دیا اور صحابہ سے کسی نے اس پر انکار نہیں کیا، پس اس پر صحابہ کا اجماع ہو گیا کہ خاوند بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔‘‘

(عبد اللہ روپڑی) (فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد نمبر ۲ ص ۴۴۳)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 47

محدث فتویٰ

تبصرے