السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
والدہ کی میت کو اس کے بیٹے نے غسل دیا، باوجویکہ اس کے بیٹے کی بیوی موجود تھیں، ایسی صورت میں بیٹے نے ماں کو غسل دینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سبل السلام میں ہے:
((وامّا فی الاجانب فانه اخرج ابو داؤد فی المراسیل من حدیث ابی بکر بن عیاش عن محمد بن ابی سہل عن مکحول قال قال رسول اللّٰہ ﷺ اذا ماتت المرأة مع الرجال لیس فیہم امراة غیرھا۔ والرجل مع النساء لیس معھن رجل غیر فانھما یتیممان ویدفنان وھما بمنزلة من لا یجد الماء انتھیٰ محمد ن سہل ھذا ذکرہ ابن حبان فی الثقات وقال البخاری لا یتابع علی حدیثه وعن علی علیه السلام قال قال رسول اللّٰہ ﷺ لا بترز فخذك ولا تنظر الی فخذحی ولا میت رواہ ابو داؤد وابن ماجة فی اسناده اختلاف)) (ص ۱۹۳)
’’یعنی مکحول رحمہ اللہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب عورت مر جائے اور کوئی دوسری عورت وہاں نہ ہو یا مرد مر جائے اور کوئی دوسرا مر دوہاں نہ ہو تو تیمم کر کے وفن کر دیے جائیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اپنی ران ننگی نہ کر اور کسی کی ران کی طرف نہ دیکھو خواہ زندہ ہو یا مردہ۔‘‘
اس سے معلوم ہو اکہ خاوند بیوی کے سوا کوئی مرد عورت کو اور کوئی عورت مرد کو غسل نہ دے جس شخص نے ماں کو غسل دیا ہے اُس نے بہت برا کیا۔
(عبد اللہ امرتسری روپڑ) (فتاویٰ اہل حدیث روپڑ۲ ص ۴۴۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب