السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مصیبتوں میں گر کر موت کی دعا کرنی جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
موت مانگنے سے موت نہیں آیا کرتی۔ اس کا ایک وقت مقرر ہے کہ ﴿اِذَا جَاءَ اَجَلُہَا لَا یَسْتَأْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ﴾ اس وقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے موت کے آنے کے لیے دعا کرنا قبل از وقت فضول ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ ((لا یتمنٰی احدکم الموت اما محسنا فلصلَّه ان یزاداد خیرا وامّا مسیئا فلصله ان یستعتب)) (رواہ البخاری) ’’کوئی شخص تم میں سے مرنے کی آرزو نہ کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو دراز فی عمر کی وجہ سے ممکن ہیزیادہ بھلائی کرے اور اگر برا ہے تو توبہ و استغفار کر کے خدا کو راضٰ کرے۔‘‘اور ایک حدیث میں اس طرح سے فرمایا۔ ((لا یتمنین احدکم الموت من ضرا صابه فان کان لابُدّ فاعِلًا فلیقل اللھم احیینی ما کانت الحیٰوة خیرا لی وتوفنی اذا کانت الوفاة خیرا لی)) (بخاری و مسلم)’’جب تگم یں سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچے تو وہ مرنے کی آرزو نہ کرے۔ اور اگر وہ آرزو کرتا ہے۔ تو اس طرح کر سکتا ہے کہ اے اللہ اگر میرا زندہ رہنا میرے حق میں اچھا ہے تو زندہ رکھ اور اگر مر جانا میرے حق میں بہتر ہے تو مجھے موت دے دے۔‘‘
ان حدیثوں سے موت کی آرزو کرنے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔ لیکن فتنے کے خوف کی وجہ سے آرزو جائز ہے۔ جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ دعا کرتے ہیں۔ ((اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ فِیْ سَبِیلَكَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِرُ سُوْلَكَ)) (بخاری) ’’اے اللہ تو اپنے راستے میں شہادت نصیب فرما۔ اور اپنے رسول کے شہر میں میری موت کر‘‘
سوال:… اور حبِ لقا اللہ کی وجہ سے موت کی تمنا کر سکتا ہے۔ جیسے ساحرین فرعون نے دعا کی تھی۔ ﴿رَبَّنا اَفْرِغْ عَلَیْنَا صَبْرًا وَّتَوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ وَّتَّوَفَّنَا مُسْلِمِیْنَ﴾ یا حضرت مریم رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ ﴿یَا لَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا﴾ اور معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ ((وَاِذَا اَرَدْتَّ بِقَوٍْمٍ فِتْنَة فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْكَ غَیْرَ مَفتُوْنٍ)) اور مسند احمد میں حدیث ہے ((یکرہ الموت ولاموت خیر للمؤمن من الفتن)) حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہجوم فتن کے وقت دعا کی ((اَللّٰھّمَّ خُزْنِیْ اِلَیْكَ فَقَدْ سَئِمْتُھُمْ وَسَتِمُوْنِی)) امام بخاری رحمہ اللہ کو جب امیر خراسان کے ساتھ جھگڑا پیش آیا تو یہ دعا کرنی پڑی ((اَللّٰھُمَّ تَوَفَّنِیْ اِلَیْكَ)) حدیث میں ہے کہ خروج دجال کے وقت ایک شخص کسی قبر پر گذرے گا۔ اور فتن و زلازل کو دیکھ کر کہے گا۔ ((یَا لَیْتَنِیْ مَکَانَكَ)) ’’کاش کہ میں تیری جگہ ہوتا۔‘‘حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی۔ ﴿فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةِ تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَاَلْحِقنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ﴾ (یوسف) ’’اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے تو ہی میرا دنیا ور آخرت میں کارساز ہے۔ تو مجھے اسلام پر مار اور نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے۔‘‘اس طرح رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت کی حالت میں فرمایا تھا۔ ((اَللّٰھُمَّ فِیْ رَفِیْقِ الْاَعْلٰی)) خلاصہ یہ کہ حدیث اور قرآن مجید کے اشاروں سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی حالت میں موت کے لیے دعا کر سکتا ہے۔ لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارے میں یہ فرمایا ہے۔ ((وَلَمَّا دَخَلُوْا مِنْ حَیْثُ اَمَرَھُمْ اَبُوْھُمْ مَا کَانَ یُغْنِیْ عَنْھُمْ مِنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْء اِلَّا حَاجَةٍ فِیْ َنفْسِ یَعْقُوْبَ قَضٰہَا)) (الاتصام جلد نمبر ۱۹ شمارہ نمبر ۴۰)
حالات مولانا عبد السلام بستوی:
مدرسہ ریاض العلوم دہلی میں ریاض نبوت علی صاحبہا السلام کے پھول بکھیرنے والے اس شیخ الحدیث نے حضرت مولانا شرف الدین صاحب محدث دہلوی سے بھی کسب فیض کیا تھا، اور علاوہ ازیں دیگر اساتذہ سے بھی حدیث کی سند حاصل کی تھی خود ہی اپنے حالات مشکوٰۃ شریف کی اپنی اردو شرح ’’انوار المصابیح‘‘ میں قلمبند فرماتے ہیں۔، کئی تبلیغی و اصلاحی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ’’اسلامی خطبات‘‘ ان کی بڑی معروف کتاب ہے مدت تک رسالہ ’’الاسلام‘‘ کے ذریعے توحید و سنت کی اشاعت کرتے رہے۔ دہلی مرحوم میں قال اللہ وقال الرسول کی آخری آواز اور عظمت رفتہ کی یادگار شخصیت تھی۔ ۱۳۶۴ھ میں وفات پا گئے شاہ ولی اللہ سے لے کر میاں نذیر حسین محدث تک دہلی میں جو صدا گونجتی رہی تھی اس شخصیت پر وہ خاموش ہو گئی ۔ دہلی اب ان صدائوں کو ترستی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب