السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شرح الصدور میں یہ حدیث ہے ((لَا یَتَمَنَّیَنَّ اَھَدُکُمُ الْمَوْتَ اِلَّا اَنْ یَّثِقَ بِعَمَلِه)) ’’یعنی چاہیے کہ آرزو نہ کرے موت کی کوئی تم میں سے مگر جب اس کو اپنے عمل پر وثوق ہووٗے‘‘تو ظاہراً اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کی تمنا کرنا جو اس وقت جائز قرار دیا گیا ہے۔ کہ جب اپنے عمل پر وثوق ہووئے تو یہ تعلیق محال ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے کلام پاک میں وارد ہوا ہے۔ ﴿فَانْفُذُوْ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطَانِ﴾ ’’یعنی پس نکل جائو اطراف سے زمین اور آسمان کے اور نہ نکلو گے مگر قوت سے یعنی لیکن تم کو وقت نہیں کہ نکل سکو گے۔‘‘یعنی عمل قبول ہونے کا دارومدار اخلاق پر ہے۔ اور اخلاق کا دارومدار اس پر ہے کہ عجب اور ریا نہ ہووے اور اس سے بچنا دشوار ہے تو ثابت ہوا ک محال ہے کہ عمل پر وثوق ہووے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موت کی آرزو کرنا منع ہے۔ اور بعضے علمائے زمانہ سمجھتے ہیں کہ یہ تعلیق محال کے ساتھ نہیں اور عمل پر وثوق ہونا ممکن ہے اور اس وقت جائز ہے کہ موت کی تمنا کی جاوے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ جو حدیث شریف میں ہے ((لَا یَتَمَنَّیَنَّ اَحَدُکُمْ الْمَوْتَ اِلَّا اَنْ یَّثِقَ بِعَمَلِه)) ’’یعنی چاہیے کہ آرزو نہ کرے موت کی کوئی تم میں سے مگر اس وقت کہ اپنے عمل پر وثوق ہووے ۔‘‘تو اس حدیث کا ظاہری یہی معنی ہٰن کہ تحریر فرمایا ہے یعنی تعلیق بالمحال کے قبیل سے ہے اور اس کی تین دلیلیں ہیں۔ اول یہ کہ یہ روایت صحاح میں نہیں، دوسری کتاب میں ہے اور عموم نہی کی روایت صحاح میں ہے تو عموم بہترہوا تو چاہیے کہ یہ روایت تعلیق بالمحال پر حمل کی جائے تا دونوں طرح کی روایات میں تامکان تبطیق ہووے۔ اور دوسری دلیل یہ ہے کہ صحاح میں عموم نہی کی جو روایات ہیں ان کی علت عام ہے کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس کو اپنے عمل پر وثوق ہوے نہ کہ اس کے حق میں بھی منع ہے کہ موت کی تمنا کرے۔ اور جو حکم ایسا ہووے کہ شارح کے کلام میں اس کی عام علت مذکور ہووے تو اس حکم کی تخصیص جائز نہیں اور وہ روایت کہ اس میں عام علت مذکور ہے یہ کہ ((لَا یَتَمَنَّیَنَّ اَحَدُکُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ یَنْزِلُ بِه اِمَّا مُسِیْئًا فَلَعَلَّه اَنْ یَتُوْبَ وَاِمَّا مُحْسِنًا فَلَعَلَّه اَنْ)) ’’یعنی چاہیے کہ آرزو نہ کرے موت کی تم میں سے کوئی سبب کسی تکلیف کے کہ اس پر واقع ہوئے اس واسطے کہ وہ شخص یا گناہ گار ہے تو شاید آئندہ توبہ کرے۔ اور یا نیک ہے تو شاید اس کی نیکی اور زیادہ ہوئے۔‘‘یہ ترجمہ حدیث مذکور کا ہے۔ اور اس میں شبہ نہیں کہ جس کو اپنے عمل پر وثوق ہو گا۔ ضرور ہے کہ وہ انے کو نیک جانتا ہو گا۔ اور نیک کے حق میں بھی موت کی آرزو کرنا منع ہے۔ اس واسطے کہ پھر موت کے بعد ممکن نہ ہو گا کہ نیکی میں زیادتی ہوئے۔ اور یہ علت اس شخص کے حق میں موجود ہے کہ اس کو اپنے عمل پر وثوق ہوئے، تو اس کے حق میں بھی نہی ثابت ہوئی البتہ اگر نہی کی علت ہوتی کہ اس میں تردد ہوئے کہ موت کے بعد کیا حال ہو گا یعنی عذاب ہو گا یا راحت ہ گی۔ تو اس صورت میں اگر عمل پر وثوق ہوئے۔ تو نہی کی علت منفی ہو جاتی ہے۔ لیکن فی الواقع نہی کی علت یہ ہے کہ موت کے بعد عمل موقوف ہو جائے گا۔ تو اس علت میں عمل پر وثوق ہونے کو کچھ دخل نہیں تو یہی امر متعین ہوا کہ سوال میں جو حدیث مذکور ہے اس میں تعلیق بالمحال ہے۔ا ور تیسری دلیل یہ ہے کہ اگرچہ از روئے عقل کے محال نہیں عمل پر وثوق ہوئے۔ لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ باعتبار عادت کے ضرور محال ہے چنانچہ یہ مخفی نہیں اور اگر فرضی کیا جائے کہ عادۃً بھی محال نہیں تو اس صورت میں بھی ضرور ہے کہ شرعاً محال ہے اس واسطے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے۔ ((لَاْ یُنَجِّیْ اَحَدًا مِنْکُمْ قَالُوْا وَلَا اَنْتَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہَ قَالَ وَلَا اَنَا اَلَّا اَنْ یَّتَغَمَّد فِی اللّٰہ بِرَحْمَتِه))
’’یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نجات نہ دے گا تم میں سے کسی کو عمل اس کا تو صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا آپ کا عمل بھی آپ کو نجات کے لیے کافی نہ ہو گا۔ تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ چشم پوشی کرے۔ اللہ میرے حق میں اپنی رحمت کے سبب سے۔‘‘ اور حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا ہے ((لَا یَخَافَ النِّفَاقَ اِلَّا مُؤمِنٌ وَلَا یَأْمَنُه اِلَّا مُنَافِقٌ)) ’’یعنی نفاق سے کوئی نہیں ڈرتا ہے مگر مؤمن ڈرتا ہے اور نفاق سے کوئی بے خوف نہیں ہوتا ہے مگر منافق بے خوف ہو جاتا ہے۔‘‘ایسا ہی بخاری کی تعلیقات میں ہے قاصد نہایت مستعجل تھا۔ لہٰذا اپنے حسب خواہ تفصیل فقیر لکھ نہ سکا۔ فقط (فتاویٰ عزیزی جلد نمبر ۲ ص ۱۵۸،۱۵۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب