سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(01) جنائز کے احکام و مسائل احتضار کے وقت سے لے کر دفن تک

  • 4193
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2388

سوال

(01) جنائز کے احکام و مسائل احتضار کے وقت سے لے کر دفن تک

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جنائز کے احکام و مسائل احتضار کے وقت سے لے کر دفن تک


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جنائز کے احکام و مسائل احتضار کے وقت سے لے کر دفن تک اس کثرت سے ہیں اور اس قابل ہیں کہ مستقبل تصنیف میں جمع کیے جائیں یہی وجہ ہے کہ محدثین رحمہ اللہ نے اس باب میں کتاب الجنائز کے نام سے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ ہمارے علم میں (واللہ تعالیٰ اعلم) محدثین میں سے اول اول جس نے اس باب میں مستقل کتاب لکھی وہ محدث عبد الوہاب ابن عطاء الخفاف بصری نزیل بغداد ہیں۔ آپ بصرہ کے مشاہیر محدثین سے ہیں فن حدیث میں خالد خد، سلیمان تیمی، اور سعید بن عروبہ وغیرہم کے شاگرد ہیں۔ او امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ کے استاذ ہیں۔ اور ابو عمرو بن علاء سے جو قراء سبعہ سے ایک مشہور قاری، فن قرأت حاصل کیا ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنے صحیح اور ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اپنے سنن میں آپ کی سند سے حدیثیں روایت کی ہیں۔ محدث سعید بن ابی عروبہ کی صحبت میں ایک مدت تک تھے۔ ۲۰۴ھ میں وفات پائی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے آپ کی کتاب الجنائز سے فتح الباری میں بعض حدیثیں نقل کی ہیں۔

محدث عبد الوہاب بن عطاء کے بعد علامہ مزنی نے کتاب الجنائز کے نام سے ایک مستقل کتاب تالیف کی ’’عون المعبود‘‘ حاشیہ سنن ابی داؤد میں اس کتاب کی بعض روایتیں منقول ہیں۔ لیکن اصل کتاب سے نہیں ۔ علامہ ممدوح امام طحاوی کے ماموں اور امام شافعی رحمہ اللہ کے مشہور شاگرد ہیں۔ نام اسمٰعیل بن یحییٰ کنیت ابو ابراہیم وطن اور مسکن مصر تھا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی تائید و نصرت میں بہت سی کتابیں تصنیف کیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ’’المزنی ناصر مذہبی۔‘‘ جب آپ کتاب ’’مختصر‘‘ تصنفی کر رہے تھے۔ تو جس مسئلہ کی تحقیق سے فارغ ہوتے اور اس کو کتاب میں درج کرتے تو دو رکعت شکرانہ نماز پڑھتے، نماز باجماعت ادا کرنے کا اتنا انصرام و اہتمام رہتا تھا۔ کہ جب کوئی نماز جماعت کے ساتھ نہیں ملتی تو اس کو پچیس مرتبہ پڑھتے تاکہ جماعت کا ثواب حاصل ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ کی تجہیز و تکفین میں شریک تھے۔ اور آپ ہی نے ان کو غسل دیا تھا۔ ۲۶۴ھ میں وفات پائی۔ اور قرافہ صغریٰ میں امام شافعی رحمہ اللہ کی قبر کے قریب دفن ہوئے۔

علامہ مزنی کے بعد محدث ابو بکر مروزی نے کتاب الجنائز کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی، حافظ ابن حجر نے آپ کی اس کتاب سے تلخیص الجبیر میں بعض حدیثیں نقل کی ہیں۔ نام احمد بن علی ہے، اور وطن اور مسکن، مرو، ہے۔ جو ملک خراسان کا ایک مشہور شہر ہے۔ فن حدیث میں امام احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین وغیرہما کے شاگرد اور امام نسائی اور ابو عوانہ و طبرانی وغیرہم کے استاذ ہیں۔ حافظ ذہبی تذکرہ الحفاظ میں لکھتے ہیں۔ ((کان من اوعیة العلم وثقات المحدثین له تصانیف مفیدة ومسانید)) ’’یعنی ابو بکر مروزی بہت برے عالم اور ثقات محدثین میں سے تھے۔ اور مفید کتابیں تصنیف کی ہیں۔‘‘امام نسائی نے اپنے سنن میں آپ کی سند سے کثرت سے حدیثیں روایت کی ہیں شہر حمص کے عہدۂ قضا پر مامور تھے۔ پھر دمشق کے قاضی مقرر ہوئے۔ اور دمشق ہی میں ۲۹۲ھ میں وفات پائی۔

محدث ابو بکر کے بعد محدث ابن شابین نے کتاب الجنائز کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی آپ کی اس کتاب کی نسبت حافظ زیلعی رحمہ اللہ نصب الرایہ میں لکھتے ہیں۔ ’’مجلد وسط‘‘ یعنی اوسط درجہ کے حجم کی کتاب ہے۔ نہ بہت بڑی نہ بہت چھوٹی ابن شاہین عراق کے ایک مشہور محدث ہیں۔ نام عمر بن احمد کنیت ابو حفص ہے۔ دمشق، شام، فارس اور بصرہ میں بڑے بڑے ائمہ حدیث سے حدیث پڑھی ہے۔ ابن الفوارس کا بیان ہے۔ کہ جس قدر کتابیں ابن شابین نے تصنیف کی ہیں۔ کسی محدث نے تصنیف نہیں کیں۔ محمد ابن عمر داؤدی نے ابن شابین سے سنا وہ کہتے ہیں کہ اس وقت تک جس قدر روشنائی میں نے خریدی ہے۔ اس کا حساب کیا تو وہ سات سو درہم کی ہوئی ہے آپ کے سامنے جب مذہب کا تذکرہ ہوتا تو فرماتے۔

 ((اَنا مُحَمَّدِیْ الْمَذْهَبِ)) ’’یعنی میرا ہذہب محمدی ہے۔‘‘آپ کا سن ولادت ۳۰۸ ھ ہے۔ اور سن وفات ۳۸۵ھ ہے۔ حافظ زیلعی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ میں ابن شابین کی کتاب الجنائز سے متعدد حدیثیں نقل کی ہیں۔ (کتاب الجنائز ص نمبر ۲ تا ۴)

دیگر! جب کوئی شخص مرنے کے قریب ہو تو سنت ہے کہ اس کو قبلہ کی طرف متوجہ کر دیں۔ یعنی داہنی کروٹ پر اس طرح لٹٓئیں کہ اس کا منہ قبلہ کی طرف ہو اور اگر کسی وجہ سے اس طرح نہ لٹا سکیں توچت لٹائیں کہ اس کے پیر قبلہ کی طرف ہوں اور سر کے نیچے تکیہ یا کوئی اور چیز رکھ کر اونچا کر دیں کہ منہ قبلہ کی طرف متوجہ ہو جائے اس طرح لٹانے میں سنت بھی ادا ہو جائے گی۔ اگر قبلہ کی طرف متوجہ کرنے میں مریض کو تکلیف ہو تو جس حالت پر ہو اسی حالت پر اس کو چھوڑ دیں۔

اس کو کلمہ {لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ} کی تلقین کریں یعنی اس کے پاس بیٹھ کر یہ کلمہ بآواز بلند کہیں کہ وہ سنے اور یہ کلمہ اس کو یاد آ جائے اور اس کو کہے مگر ٹھہر ٹھہر کر اطمینان کے ساتھ کہیں، لگاتار دیر تک نہ کہتے رہیں۔ اور نہ چلا کر شورو غل سے کہیں کیونکہ مریض پر جانکنی کا وقت بڑا نازک ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ دل آزردہ خاطر ہو کر کہیں زبان سے کوئی ناملائم بات نکالے یا اس کے دل کو اس سے نفرت ہو۔

مریض جب ایک بار ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) کہے تو پھر تلقین کی ضرورت نہیں ہاں اس کلمہ کے بعد کوئی دوسری بات بولے تو پھر تلقین کرنا چاہیے کہ وہ اس کلمہ کو پھر کہے اور اس کا آخری کلمہ ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) ہو۔

ابو اؤد میں حضرت معاذ سے روایت ہے ((قال رسول اللہ ﷺ مَنْ کَانَ اٰخِرُ کَلَامِه لَا اِلٰه اِلَّا اللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّة)) ’’یعنی فرمایا رسو ل اللہ ﷺ نے جس شخص کا آخری کلام ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اور مسلم میں ابو ذر سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ کہ جس بندہ نے ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) کہا پھر اسی پر مر گیا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔ جامع ترمذی میں ہے کہ عبد اللہ بن مبارک جب قریب المرگ ہوئے۔ تو ایک شخص ان کو کلمہ ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) کی تلقین کرنے لگا اور اس کلمہ کو بار بار کہنے لگا۔ عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا کہ جب میں اس کلمہ کو ایک بار کہہ لوں۔ تو میں اسی پر ہوںجب تک کہ میں کوئی اور بات نہ بولوں۔ امام ترمذی لکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک کی مراد وہ حدیث ہے۔ کہ جو رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ جس شخص کا آخری کلام ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) ہو تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔‘‘

یہاں مجھے ابو زرعہ محدث کا قصہ یاد آ گیا۔ حافظ ابن ابی حاتم نے لکھا ہے کہ جب ابو زرعہ قریب المرگ ہوئے۔ تو لوگوں نے ان کو کلمہ ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) کی تلقین کرنا چاہی۔ اور باہم حضرت معاذ کی حدیث کا تذکرہ کرنے لگے۔ جو ابھی اوپر مذکور ہو چکی ہے۔ پس ابو زرعہ نے حضرت معاذ کی حدیث کو مع الاسناد پڑھنا اور سنانا شروع کیا۔ جب ((لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) پر پہنچے اور اس کو زبان سے کہہ چکے۔ بس اسی وقت ان کی روح قبض ہو گئی۔ سبحان اللہ کیسی اچھی موت ہوئی اور کیسا اچھا خاتمہ ہوا۔ ((اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا حُسْنَ الْخَاتِمَةِ وَاجْعَلْ اٰخِرَ کَلَامِنَا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّہُ۔ اٰمِیْنِ)) جانکنی کے وقت مریض کے پاس سورۃ یاسین پڑھنے کا بھی حکم ہے۔

جب روح قبض ہو جائے تو آنکھیں بند کر دی جائیں اور ہاتھ پیر سیدھے کر دئیے جائیں۔ اور تمام بدن کڑے سے ڈھانک دیا جائے۔ اور میت کے لیے اور اپنے لیے دعا و استغفار کریں۔ اور کوئی برا کلمہ زبان سے نہ نکالیں کیونکہ اس وقت جو کچھ کہا جاتا ہے۔ فرشتے آمین کہتے ہیں۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ابو سلمہ پر داخل ہوئے اور ان کی آنکھیں کھلی تھیں۔ تو آپ نے ان کو بند کر دیا۔ پس ان کے گھر کے بعض لوگ رونے چلانے لگے۔ آپ نے فرمایا اپنی جانوں کے لیے بحز نیک دعا کے بدعا نہ کرو اس واسطے کہ جو تم لوگ کہتے ہو فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں۔ پھر آپ نے ابو سلمہ کے لیے یوں دعا کی۔ ((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِاَبِیْ سَلْمَة وَارْفَعْ دَرَجٰتِه فِی الْمَہْدِیِّیْنَ اَخْلُفْه فِیْ عَقَبِه فِی الغَابِرِیْنَ وَاغْفِرْلَنَا وَلَه یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ وَافْسَحْ لَه فِیْ قَبْرِہٖ وَنَوِّرْلَه فِیْه)) ’’یعنی اے اللہ تو ابو سلمہ کو بخش دے۔ اور ہدایت والوں میں اس کا درجہ بلند کر اور اس کے پاس ماندوں میں اس کا خلیفہ بن یعنی ان کا محافظ و نگہبان رہ اور ہم لوگوں کی۔ اور اس کی مغفرت کر یا رب العلمین اور اس کے واسطے اس کی قبر میں کشادگی کر اور اس کے واسطے اس کی قبر میں روشنی کر۔‘‘روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے پس روح قبض ہو جانے کے بعد اہل میت کو یہ پڑھنی چاہیے۔ اور بجائے ابی سلمہ کے اپنی میت کا نام لینا چاہیے۔ مثلاً میت کا نام عبد اللہ ہے تو یوں کہنا چاہیے۔ ((اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ وَارْفَعْ دَرَجٰتِه)) موت کے صدمہ کے وقت صبر کرنا چاہیے۔ اور یہ دعا پڑھنی چاہیے۔ ((اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ۔ اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُف لِیْ خَیْراً مِّنْہَا))

فرمایا رسو ل اللہ ﷺ نے جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچے اور وہ یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدلہ دیتا ہے۔ روایت کیا اس کو مسلم نے۔ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ جب (میرے شوہر اول) ابو سلمہ نے وفات پائی تو میں نے اپنے نی میں کہا کہ ابو سلمہ سے بہتر کون شخص ہو گا۔ یہ اس خاندان میں پہلے شخص تھے جس نے رسول اللہ ﷺ کی طرف پہلے ہجرت کی تھ۔ پھر میں نے اس دعا کو پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے اس سے بہتر شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ) مجھ کو عطا فرمایا روایت کیا اس کو مسلم نے ۔ جو لوگ مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں۔ اور ((اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ)) پڑھتے ہیں۔ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔

﴿وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْہُمْ مُصِیْبَةٌ قَالُوْا اِنَّا لِلّٰہَ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ اُولٰئِكَ عَلَیْہِْمْ صَلٰوٰتٌ مِّنْ رَبِّہِْم وَرَحْمَةٌ وَاُوْلٰئِكَ ھُمَ الْمُہْتَدُوْنَ﴾

’’یعنی خوشخبری دے دے ان صبر کرنے والوں کو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں۔ ((اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ)) یہی وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے بخششیں اور رحمتیں ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جو راہ پائے ہوئے ہیں۔‘‘

میت پر نوحہ کرنا اور زور زور سے رونا بڑا گناہ ہے۔ آہستہ آہستہ رونا اور آنسو بہانا منع نہیں ہے بخاری اور مسلم میں حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میت والوں کے نوحہ کرنے اور زور زور سے رونے کی وجہ سے میت پر عذاب کیا جاتا ہے۔ اور بخاری مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسو ل اللہ ﷺ نے میں اس شخص سے بیزار ہوں جو مصیبت کے وقت سر منڈائے اور چلا کر روئے۔ اور کپڑوں کو پھاڑے۔ بخاری اور مسلم میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ہم میں سے وہ نہیں جو اپنے گالوں کو پیٹے اور گریبانوں کو پھاڑے اور جاہلیت کی پکار پکارے۔ یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسی باتیں نکالے جو جاہلیت کے زمانہ میں کافر لوگ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو صدمہ موت کے وقت صبر جمیل کی توفیق بخشے اور بے صبری کے تمام کاموں سے بچائے۔

 فائدہ! تلقین کی حدیث سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ تلقین کے وقت فقط ((لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ)) کہنا چاہیے مگر حافظ ابن فر وغیرہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں ((لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ)) دونوں کلموں کی تلقین کرنا چاہیے۔ ((وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمْ))

 فائدہ! مرنے کے وقت ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظنی یعنی نیک گمان رکھنا چاہیے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی وسیع رحمت اور اس کے کرم عام پر نظر کرکے یہ امید اور گمان رکھنا چاہیے۔ کہ وہ میرے گناہوں کو بخشے گا اور مجھے جنت میں داخل کرے گا۔ اور اپنے گناہوں پر نظر کر کے اللہ تعالیٰ پر ہر گزبدگمان نہیں رکھنا چاہیے۔ یعنی ہر گز یہ گمان نہیں رکھنا چاہیے کہ وہ میری مغفرت نہیں کرے گا۔

بخاری اور مسلم کی ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ((اِنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ)) ’’یعنی میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوں۔‘‘یعنی میرے ساتھ جیسا گمان نیک یا بد رکھے گا۔ میں اس کے ویسے ہی گمان کے نزدیک ہوں۔ اوراس کے گمان نیک یا بد کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کروں گا۔ اور مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں میں سے ہر ایک شخص کو بس اسی حالت میں مرنا چاہیے کہ وہ اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھے، ہاں اپنے گناہوں سے نڈر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ جامع ترمذی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ ایک جوان شخص کے پاس تشریف لے گئے۔ اور وہ جان کنی کی حالت میں تھا۔ پس آپ نے فرمایا تو اپنے کو کیسا پاتا ہے؟ اس نے کاہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں۔ اورا پنے گناہوں سے ڈرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا ایسے وقت میں جس بندہ کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز دیتا ہے۔ جس کی وہ امید رکھتا ہے۔ اور بے خوف کرتا ہے۔ اس چیز سے جس سے وہ ڈرتا ہے۔

 فائدہ! موت کی سختی اور سکرات کی شدت کو مکروہ سمجھنا اور ناپسند کرنا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ کو بھی موت کی سختی ہوئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ میرے سینے پر ٹھیک دیئے ہوئے انتقال فرمایا پس میں آپ کے بعد کسی شخص کے واسطے موت کی سختی کو ناپسند نہیں کرتی (بخاری) اور ایک روایت میں ہے کہ آپ کی موت کی سختی دیکھنے کے بعد کسی شخص کی موت کی آسانی پر رشک نہیں کرتی ۔ (جامع ترمذی)

 فائدہ! ناگہانی موت کے بارے میں مختلف روایتیں آئی ہیں۔ بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی نہیں ہے۔ ابو داؤد میں عبید بن خالد سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے۔ اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ ناگہانی موت اچھی ہے۔ ابن ابی شیبہ رضی اللہ عنہ نے اپنے مصنف میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔ کہ ناگہانی موت مومن کے واسطے راحت ہے۔ اور فاجر کے واسطے غضب ہے علماء حدیث نے ان حدیثوں میں اس طرح جمع و تطبیق بیان کی ہے کہ جو شخص موت سے غافل نہ ہو اور مرنے کے لیے ہر وقت تیار و مستعد و آمادہ رہتا ہو۔ اس کے لیے ناگہانی موت اچھی ہے۔ اور جو شخص ایسا نہ ہو اس کے لیے اچھی نہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

 فائدہ! جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات کی موت بہت اچھی ہے۔ جامع ترمذی ص نمبر ۱۸۰ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ جو شخص جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مر گیا۔ اللہ تعالیٰ اس کو قبر کے فتنہ سے بچائے گا۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔ لیکن اس کی تائید متعدد حدیثوں سے ہوتی ہے الحمد للہ کہ میرے والد مرحوم نے جمعہ ہی کے دن بعد نماز جمعہ اس دار ناپائیدار سے دارالبقاء کو رحلت فرمائی ہے۔ اور وہ جمعہ بھی رمضان المبارک کے آخٰر عشرہ کا جمعہ تھا۔ غفر اللہ لہٗ ویرضی عنہ دو شنبہ کے دن کی بھی موت اچھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی دو شنبہ ہی کے دن انتقال فرمایا ہے۔ اسی وجہ سے حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ اپنے مرض الموت میں دو شنبہ کے دن اپنے مرنے کی تمنا ظاہر کی تھی۔ مگر ان کا انتقال منگل کی رات کو ہوا۔

 فائدہ! قبر میں ہر ایک شخص سے سوال ہو گا۔ مگر چند لوگ ایسے ہیں جن سے سوال نہیں ہو گا۔ ازانجملہ ایک شہید فی سبیل اللہ ہے۔ اور ایک مرابط یعنی وہ شخص جو سرحد اسلام کی حفاظ کرے۔ اور ایک وہ شخص جس کی موت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو ہوئی ہو۔ جیسا کہ اوپر ترمذی کی حدیث سے معلوم ہوا۔ حافظ ابن حجر نے ’’بذل الماعون‘‘ میں لکھا ہے کہ جو شخص طاعون میں مبتلا ہو کر مرے اس سے بھی قبر میں سوال نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ نظیر شہید فی المعرکہ ہے۔ اور اسی طرح جو شخص طاعون میں صابراً محتسب ٹھہرا رہے۔ اور طاعون مقام سے نہ بھاگے ا س سے بھی قبر میں سوال نہیں ہو گا۔ اگرچہ وہ طاعون میں مبتلا ہو کر نہ مرا ہو کیونکہ وہ نظیر مرابط ہے۔

 فائدہ! بعض موتیں شہادت کی ہوتیں ہیں۔ ان موتوں سے مرنے والوں کو رسول اللہ ﷺ نے شہید فرمایا ہے۔ مؤطا امام مالک رحمہ اللہ اور ابو داؤد اور نسائی میں جابر بن عتیق رضی اللہ عنہ سے شہید ہونے کے علاوہ شہادت کے سات قسمیں ہیں۔ جو طاعون سے مرا وہ شہید ہے۔ اور جو ڈوب کر مرا وہ شہید ہے۔ اور جو ذات الجنب سے مرا وہ شہید ہے۔ اور جو پیٹ کی بیماری سے مرا وہ شہید ہے۔ اور جو آگ میں جل کر مرا وہ شہید ہے۔ اور جو دیوار یا کسی اور چیز کے نیچے دب کر مرا وہ شہید ہے۔ اور جو عورت ولادت کے وقت مری وہ شہید ہے۔ اور ابن ماجہ اور دارقطنی کی روایت میں ہے کہ مسافر کی موت شہادت ہے۔ اسی طرح پر اور بھی چند موتوں کا شہادت ہونا احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن ان مرتوں سے مرنے والے حکمی شہید ہیں۔ اصلی شہید اور حکمی شہیدوں کے درمیان احکام جنائز کے متعلق کئی باتوں کا فرق ہے۔ ازانجملہ ایک یہ کہ اصلی شہید بغیر غسل کے دفن کیے جاتے ہیں۔ اور ان حکمی شہیدوں کو غسل دینا چاہیے۔ اور ازانجملہ ایک یہ کہ اصلی شہید پر جنازہ کی نماز پڑھنے کے بارے میں حدیثیں مختلف آئی ہیں۔ اسی وجہ سے اس بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ پڑھنی چاہیے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ اور ان حکمی شہیدوں پر جنازہ کی نماز بالاتفاق پڑھنی ضروری ہے۔

 فائدہ! اگر کوئی شخص کسی قریب المرگ سے یہ کہے کہ رسول اللہ ﷺ سے یا فلاں شخص سے میرا سلام کہہ دینا تو اس میں کچھ حرج نہیں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا کیا ہے۔

 فائدہ! کسی مصیبت اور تکلیف پہنچنے کی وجہ سے موت کی آرزو نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں میں کوئی شخص کسی مصیبت پہنچنے کی وجہ سے ہر گز موت کی آرزو نہ کرے۔ اگر اس کو آرزو کرنا ہی ہے۔ یوں کہیے۔ ((اَللّٰھُمَّ اَحْیَیْنِیْ مَا کَانَتِ الْحَیَاةُ خَیْرًا لِیْ وَتَوَفَّنِیْ اِذَا کَانَبِ الْوَفَاتُ خَیْرًا لِیْ)) (متفق علیہ) ’’یعنی اے اللہ مجھ کو زندہ رکھ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو اور مجھ کو وفات دے۔ جب میرے لیے وفات بہتر ہو۔‘‘

جب روح قبض ہو جائے تو فوراً تجہیز و تکفین کا سامان کرنا چاہیے۔ حضرت حسین بن وحوح سے روایت ہے کہ طلحہ بن براء مریض ہوئے تو رسول اللہ ﷺ ان کی عیادت کو تشریف لے گئے۔ پس آپ نے فرمایا کہ میرا تو بس یہی گمان ہے کہ طلحہ کی موت آ پہنچی تو ان کے مرنے کی مجھے خبر دینا اور تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا اس واسطے کہ مسلمان کی لاش کو اس کے لوگوں میں روکنا مناسب و سزاوار نہیں۔ روایت کیا اس کو ابو داؤد نے۔

اگر کوئی رات کو مرے اور رات ہی کو تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ ہو سکے تو رات ہی کو دفن کر دیں۔ دن کا انتظار نہ کریں۔ رات کو مردے کا دفن کرنا حدیث صحیح سے ثابت ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رات ہی کو دفن کیے گئے۔ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عہنا رات ہی کو دفن کی گئی ہیں۔ اور اگر رات کے وقت تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ نہ سکے۔ تو البتہ دن کا انتظار کرنا چاہیے۔ اور جمعہ کے دن اگر نماز جمعہ کے قبل تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ سے فراغت ہو سکے تو قبل ہی فارغ ہو جانا چاہیے۔ اور نماز جنازہ میں زیادہ لوگوں کے شریک ہونے کے خیال سے نماز جمعہ کا انتظار ہیں کرنا چاہیے۔ قرابت مند اور دوست احباب کو تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لیے موت کی خبر دینا جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو اور صحاہبہ نے ایک دوسرے کو موت کی خبر دی ہے۔ اور حدیث میں وج نعی کی ممناعت آئی ہے۔ سو نعی کے متعلق موت کی خبر دینا مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس طرح پر موت کی خبر دینا مراد ہے۔ جس طرح پر زمانۂ جاہلیت میں دستور تھا۔ حافظ ابن حجر نے بخاری کی شرح میں لکھا ہے کہ جاہلیت کا دستور تھا کہ جب کوئی مرتا تو کسی کو محلوں کے دروازوں اور بازاروں میں بھیجتے وہ گشت کر کے بآواز بلند اس کے مرنے کی خبر کرتا ہے اور نہایہ جزری وغیرہ میں لکھا ہے کہ جب کوئی شریف آدمی مرتا یا قتل کیا جاتا تو قبیلوں میں ایک سوار کو بھیجتے جو چلا کر اس کی موت کی خبر کرنا کہ فلاں شخص مر گیا یا فلاں شخص کے مرنے سے عرب ہلاک ہو گیا۔پس موت کی خبر جاہلیت کے اس طریقے پر دینا ممنوع اور ناجائز ہے اور مجرد موت کی خبر دینا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو اور صحابہ نے باہم ایک دوسرے کو دی ہے منع نہیں۔

کوئی شخص مر گیا اور اس نے اپنی بیوی کا دن مہر ادا نہیں کیا اور کچھ مال بھی نہیں چھوڑا تو اس صورت میں اس کی بیوی اگر اپنا دین مہر خوشی سے معاف کر دے تو بڑے ثواب کی بات ہے اور اپنے شوہر متوفی پر بہت بڑا احسان کرنا ہے۔ اور اگر مال چھوڑ گیا ہے۔ تو اس صورت میں اس کی بیوی سے خواہ مخواہ دین معاف کرنا جائز نہیں۔ بلکہ اس صورت میں ورثاء کو لازم ہے کہ اس کی بیوی کا دین مہر اور دوسرے قرض خواہوں کا قرض فوراً ادا کر دیں۔ جامع ترمذی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ((نَفْسُ الْمُوْمَن مُعَلَّقَةٌ بِدَیْنِه حَتّٰی یُقْضٰی عَنْه)) ’’یعنی مومن کی روح اس کے قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کا قرض اس کی طرف سے ادا کیا جائے۔‘‘ یعنی مومن قرض دار کی روح جنت میں نہیںداخل ہاتی۔ جب تک کہ اس کی طرف سے اس کا قرض نہ ادا نہ کیا جائے۔مسند احمد میں محمد بن عبد اللہ بن حجش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید کیا جائے۔ پھر زندہ ہو، پھر اللہ کی راہ میں شہید کیا جائے۔ پھر زندہ ہو۔ پھر اللہ کی راہ میں شہید کیا جائے۔ اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا۔ یہاں تک کہ اس کا قرض ادا کیا جائے۔ نیز مسند احمد میں سعد بن اطول سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میرا بھائی مر گیا۔ اور تین سوا شرفیاں چھوڑ گیا۔ اور چھوٹے بچوں کو چھوڑا۔ تو میں نے ارادہ کیا کہ ان اشرفیوں کو ان بچوں پر خرچ کر دوں۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تیرا بھائی اپنے قرض کے ساتھ مقید ہے۔ سو تو اس کا قرض ادا کر سعد بن اطبول کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بھائی کا کل قرض ادا کر دیا۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قرض دار مرے اور ملا چھوڑ جائے تو اس کے وارثوں کو لازم ہے کہ اس کا قرض فوراً ادا کر دیں۔ اور اگر اس نے مال نہیں چھوڑا ہے۔ تو اگر قرض خواہ لوگ قرض معاف کر دیں یا وارث لوگ یا کوئی اور صاحب اپنی طرف سے ادا کر دیں تو خود بھی بہت بڑے ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اور میت قرض دار کو بھی قرض کی قید دے رہائی ہو جائے۔

مسلم میں ابو الیسیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ((مَنْ اَنْظَرَ مُعْسِرًا اَوْ وَضَععَ عَنْهُ اَظَلّٰهُ عَنْهُ اَظَلّٰهُ اللّٰہُ فِیْ ظِلِّه)) ’’یعنی جس شخص نے کسی محتاج قرض دار کومہلت دی یا اس کا قرض معاف کر دیا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں جگہ دے گا۔‘‘اور ابو قتادہ کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیمت کے دن کی مصیبتوں سے اس کو نجات دے گا۔ رسول اللہ ﷺ پہلے ایسے شخص کے جنازہ کی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جو قرض دار مرتا اور ملا نہ چھوڑ جاتا جس سے اس کا فرض ادا کیا جاتا۔ بلکہ صحابہ کو فرماتے کہ تم لوگ اس کے جنازہ کی نماز پڑھ لو۔ پھر جب فتوحات ہوئی اور غنیمت کے مال آئے تو رسول اللہ ﷺ ایسی قرض دار میت کا قرض خود اپنی طرف سے ادا فرماتے اور اس پر جنازہ نماز پڑھتے۔

(کتاب الجنائز از ص ۸ تا ص ۲۱) (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص ۵۲۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 05 ص 22-37

محدث فتویٰ

تبصرے