سوال: اسلام و علیکم داڑھی کھلی چھوڑنے کے مطلق تمام احادیث اور کیا ایک مٹھ تک کٹوا دیا جائے یہ چھوڑ دیا جائے۔ جس طرح کچھ اہل حدیث کا عمل ہے کہ بلکل کھلا چھوڑ دیتے ہیں۔
جواب: اس بارے اہل الحدیث اہل علم کا اختلاف ہے۔ جمہور اہل الحدیث ڈاڑھی کے چھوڑنے کو واجب قرار دیتے ہیں اور اس میں سے کچھ بھی لینے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں جبکہ بعض اہل الحدیث ایک مشت سے زائد یا ہونٹوں کے نیچے یا گالوں کے بال لینے کو جائز سمجھتے ہیں۔ مولانا عبد اللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ کی یہ رائے تھی کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کے بال لینا جائز ہے اور اس بارے ان کا ایک مستقل مفصل فتوی بھی موجود ہے۔ محدث العصر کے شاگرد خاص حافظ عبد الرحمن مدنی صاحب مولانا ثناء اللہ مدنی صاحب کی بھی یہی رائے ہے۔ فتاوی اہل الحدیث اور فتاوی ثنائیہ وغیرہ میں اس کی تفصیل دیکھ لیں۔ راقم کا رجحان دوسری رائے کی طرف ہے۔
سوال : ايك مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنے كا حكم كيا ہے ؟
الحمد للہ:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى فعلى اور قولى سنت داڑھى بڑھانا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے داڑھى كو بڑھانے اور اسے اپنى حالت ميں چھوڑنے كا حكم بھى ديا ہے. امام بخارى اور مسلم وغيرہ نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " مونچيں پست كرو، اور داڑھيوں كو اپنى حالت پر چھوڑ دو " صحيح بخارى حديث نمبر ( 5443 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 600 ). اور ايك روايت ميں ہے: " مشركوں كى مخالفت كرو، اور مونچھيں كٹاؤ، اور داڑھياں اپنى حالت پر چھوڑ دو " صحيح مسلم حديث نمبر ( 602 ). اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: " مونچھيں كاٹو، اور داڑھياں لمبى كرو، اور مجوسيوں كى مخالفت كرو " صحيح مسلم حديث نمبر ( 383 ). اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے: " اعفاء اللحيۃ كا معنى يہ ہے كہ: داڑھى اپنى حالت ميں چھوڑ دو اور كاٹو نہيں، حتى كہ وہ بڑھ جائے يعنى زيادہ ہو جائے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى يہ قولى سنت تھى، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل يہ ہے كہ: يہ ثابت نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى داڑھى كاٹى ہو. اور وہ حديث جو ترمذى ميں عمرو بن شعيب عن جدہ كى سند سے مروى ہے كہ: " نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى داڑھى كے طول و عرض سے كاٹا كرتے تھے " امام ترمذى نے اس حديث كے متعلق كہا ہے: يہ حديث غريب ہے، ديكھيں: ترمذى حديث نمبر ( 2912 ). اور اس حديث كى سند ميں عمر ہارون ہے جو متروك راوى ہے جيسا كہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقريب التھذيب ميں كہا ہے، اس سے علم ہوا كہ يہ حديث صحيح نہيں، اور اس سے حجت قائم نہيں ہو سكتى اس كے مقابلہ ميں صحيح احاديث ہيں جو داڑھى كو بڑھانے اور زيادہ كرنے كے وجوب پر دلالت كرتى ہيں. ليكن جو بعض لوگ داڑھى منڈاتے يا پھر داڑھى كے طول و عرض سے كٹواتے ہيں، تو يہ جائز نہيں، كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور ان كے داڑھى بڑھانے كے حكم كے مخالف ہے اور امر وجوب كا تقاضا كرتا ہے حتى كہ اسے اس اصل يعنى وجوب سے پھيرنے والا صارف مل جائے، اور ہمارے علم ميں تو كوئى ايسى دليل نہيں جو اسے اس معنى سے دوسرے معنى ميں لے جائے " اھـ ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء (5 / 136). شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں: " داڑھى كٹوانا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے مخالف ہے، آپ كا فرمان ہے: " داڑھى كو بڑھاؤ " اور " داڑھى لٹكاؤ " تو جو شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيروى و اتباع كرنا چاہتا ہے وہ داڑھى كا كوئى بال نہ كاٹے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ يہى ہے كہ داڑھى ميں سے كچھ بھى نہ كاٹا جائے، اور اسى طرح پہلے انبياء كا بھى يہى طريقہ تھا. ديكھيں: فتاوى ابن عثيمين ( 11 / 126 ). اور بعض اہل علم كى رائے ہے كہ مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنا جائز ہے، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل سے استدلال كيا ہے، بخارى نے روايت كيا ہے كہ: " ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جب حج يا عمرہ كرتے تو اپنى داڑھى كو مٹھى ميں پكڑتے اور جو اس سے زيادہ ہوتى اسے كاٹ ديتے" صحيح بخارى حديث نمبر ( 5892 ). شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں: " جس نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل سے دليل پكڑى ہے كہ وہ حج ميں مٹھى سے زيادہ داڑھى كاٹ ديا كرتے تھے، تو اس ميں اس كے ليے كوئى حجت اور دليل نہيں، كيونكہ يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا اجتھاد تھا، بلكہ دليل اور حجت تو ا نكى روايت ميں ہے نہ كہ اجتھاد ميں. علماء كرام نے صراحت سے بيان كيا ہے كہ صحابہ كرام اور ان كے بعد ميں سے راوى كى روايت جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہو وہ ہى حجت ہے، اور جب رائے اس كى مخالف ہو تو روايت رائے پر مقدم ہو گى. ديكھيں: فتاوى و مقالات الشيخ ابن باز ( 8 / 370 ). اور شيخ عبد الرحمن بن قاسم رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اور بعض اہل علم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے فعل كى بنا پر ايك مٹھى سے زائد داڑھى كاٹنے كى اجازت دى ہے، اور اكثر علماء اسےمكروہ سمجھتے ہيں، اور اوپر جو كچھ بيان ہو چكا ہے اس كى بنا پر يہى زيادہ ظاہر ہے، اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں: مختار يہى ہے كہ داڑھى كو اپنى حالت ميں چھوڑ ديا جائے، اور اسے بالكل تھوڑا سا بھى نہ كاٹا جائے.... اور الدر المختار ميں ہے: اور داڑھى سے كچھ كاٹنا جو كہ مٹھى سے كم ہو كسى نے بھى مباح نہيں كيا " اھـ مختصرا. ديكھيں: تحريم حلق اللحى صفحہ نمبر ( 11 ). مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 9977 ) اور ( 1189 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں. اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. واللہ اعلم . الاسلام سوال و جواب