السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ لیلۃ القدر کی راتوں میں بعض علماء کچھ دیر تک لوگوں کو وعظ ونصحیت کرتے ہیں۔ اس طرح سے کہ تقریباً دس بجے شب سے ایک بجے تک قرآن و حدیث کا بیان ہوتا ہے۔ لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں۔ لیلۃ القدر کے فضائل بیان ہوتے ہیں۔ توحید و سنت کا بیان ہوتا ہے، بعد ازاں دعا مانگی جاتی ہے، اور وعظ ختم ہو جاتتا ہے، کچھ لوگ مسجد میں تراویح و تہجد شروع کر دیتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ اپنے گھروں میں جا کر نماز میں لگ جاتے ہیں۔ لیلۃ القدر کی پانچوں راتوں میں ایسے ہی ہوتا ہے، اور لوگ برابر ذکر اللہ و عبادت الٰہی میں لگے رہتے ہیں۔ بکر کہتا ہے کہ یہ وعظ کہنا اور سننا بدعت ہے، یہ عبادت نہیں۔ زید کہتا ہے کہ وعظ و نصیحت کیسے بدعت ہو سکتا ہے، جس طرح سے کہ ہمیشہ وعظ و نصیحت ہوا کرتے ہیں۔ اسی طرح سے لیلۃ القدر میں بھی وعظ کہنا اور سننا درست ہے۔ لہٰذا دونوں میں کس کا قول صحیح ہے۔ بینواتوجروا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
وعظ کہنا و سننا بھی عبادت ہے، حدیث شریف میں ہے، ((تدارس العلم ساعة خیر من احیائِه)) بوقت شب ایک گھڑی علمی بات چیت کرنا ساری رات کی عبادت سے اچھا ہے، اس حدیث سے ہی ہمارا مدعا ثابت ہے کہ وعظ گوئی اور وعظ شسنوی سب عبادت ہے، لہٰذا زید کا قول صحیح ہے، ابو الوفا ثناء اللہ کفاہ امر تسری۔ مولوی فاضل۔ ماکتبۂ الشیخ الفاضل الاجل المؤلینا ثناء اللہ المحتر فی ہذاہ المسئلۃ فہو صحیح۔ حررہ شیخ احمد دہلوی مدنی۔ الجواب صحیح عبد الرحمٰن آزاد دہلوی کان اللہ لہٗ الجواب ہو الصحیح۔ ابو البشیر پنجابی سوہدری۔
وعظ کہنا شب قدر میں جائز ہے، بلکہ جاگنا لازم ہے، اور یہ وعظ و تذکیر اس کے لیے مفضی اور سبب ہے، لہٰذا یہ بھی موجب ثواب کار خیر ہے، ہذا ما عندی واللہ اعلم۔ محمد حسین امرتسری
ہندوستان میں بہت سی اہل حدیثوں کی مذہبی انجمنیں ہیں۔ جن کا سالانا جلسہ اکثر بعد جمعہ کے شروع ہوتا ہے، ہندوستان میں اکثر مدارس عربیہ کے جلسے شعبان کے مہینے میں ہوتے ہیں۔ اور تعلیمی حالت سنائی جاتی ہے، ہندوستان میں اکثر ہر مہینے کی ابتداء میں دینی رسالے و اخبارات نکالے جاتے ہیں۔ دہلی میں عام قاعدہ بطور لزوم کے ہے کہ سارے رمضان کے دنوں میں گھر گھر وعظ ہوتا ہے، اور علماء دہلی وعظ کہتے پھرتے ہیں۔ حتی کہ اگر پنجاب یا یورپ سے کوئی مولوی صاحب آجاتے ہیں۔ تو وہ بھی گھر گھر وعظ شروع کر دیتے ہیں۔ اب ذرا تفصیل کے ساتھ بالترتیب سنو! قرآن مجید میں ہے کہ بعد نماز جمعہ زمین میں پھیل جائو۔ اور روزی کمائو اللہ نے بعد نماز جمع جلسہ کرنے کو نہیں فرمایا۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اگر کسی گھر میں میت ہو جاتی۔ تو آپ صبر کی تلقین فرماتے نہ کہ ہیئت کذائیہ کے ساتھ وعظ کرتے۔ شعبان کے مہینے میں آنحضرت ﷺ کثرت سے روزے رکھتے۔ اور لوگوں کو روزوں کی ترغیب دیتے۔ نہ کہ آپ جلسے کرتے، اور امتحان لیتے اور چندے کرتے۔ نبی اکرم ﷺ ہر مہینے کی ابتداء میں کچھ نہ کچھ نفلی روزے رکھتے تھے، نہ کہ اخبارات چھاپتے، اور صحیفے فروخت کرتے۔ نبی اکرم ﷺ اور جملہ صحابہ کرام اور سلف صالحین رمضان کے دنوں میں روزے رکھتے، اور قرآن پڑھتے تھے نہ کہ گھر گھر وعظ کہتے پھرتے۔ کسی ایک حدیث صحیح سے ثابت نہیں۔ رمضان کے دن کا وعظ۔ لہٰذا یہ جملہ امور بطور لزوم کے حضرات علماء کرام کرتے ہیں، اور یہ مشابہ مولود کے نہ ہوئے۔ بدعت کہنے والوں کو چاہیے کہ پہلے اپنی بدعتوں کو ترک کر دیں۔ اس کے بعد دوسروں کو ہدایت کریں۔ یہ نرالی منطق میری اب تک سمجھ میں نہیں آئی کہ رمضان کے تیسوں دنوں کا وعظ بدعت نہ ہو، اور صرف پانچ راتوں کا وعظ بدعت اور میلاد ہو جائے۔ ﴿تِلْكَ اِذًا قِسْمَةٌ ضِیزٰی﴾ اگر شب قدر کے وعظ بدعت اور مولود ہیں۔ تو رمضان کے دنوں میں وعظ بدرجہ اولیٰ بدعت اور مولود ہیں۔ دلیلیں ان کے قول کے جواز کے علمائے کے پاس ہوں گی۔ وہی دلائل شب قدر کے وعظ کے بھی سمجھ لینے چاہئیں۔
(محمد یونس پھاٹک حبشخاں دہلی) (مولانا محمد صاحب ایڈیٹر اخبار محمد دہلی کا فتویٰ)
بدعت کہنے والوں سے کوئی پوچھے کہ رمضان کے دنوں میں صرف عورتوں کے مجمع میں وعظ کہنا اس صراحت سے کس حدیث میں ہے، ذکر اللہ کا کرنا حدیث سے ثابت ہے، اور وعظ بہترین ذکر اللہ ہے، پھر اسے اس رات میں بدعت کیوں کہتے ہو۔ اور اگر ہر جزی کو اس طرح حدیث میں ٹٹولنا شروع کیا تو بڑی مشکل ہو گی۔ یہ بخاریوں کے ختم یہ صبح کے ترجمے۔ یہ مدرسے۔ یہ جلسے۔ اور یہ کانفرنسیں وغیرہ سلف سے کہاں لا سکو گے۔ اور وعظ تو ایک حد تک ثابت بھی ہے۔ بیہقی وغیرہ میں ہے۔ ((فیحث جبرائیل علیه السلام الملائکة فی ھذہ اللیلة)) ’’یعنی لیلۃ القدر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اور فرشتوں کو رغبت دلاتے ہیں۔‘‘اسی کا نام وعظ ہے۔ یہی واعظ اس رات میں کرتے ہیں کہ لوگوں کو رغبت دلاتے ہیں۔
اور روایت میں ہے کہ اس رات جو فرشتے اترتے ہیں وہ ہر قائم و قاعد اور نمازی اور ذاکر سے سلام کرتے ہیں۔ مصافحہ کرتے ہیں وغیرہ۔ پس ذکر خدا عام ہے، اور وعظ ذکر خدا کا اعلیٰ طریقہ ہے، حضور سے بھی ثابت ہے کہ آپ اپنے گھر والوں کو ان راتوں کو جگاتے رہتے ہیں۔ اور خود بھی ساری رات جاگتے تھے۔ الفاظ حدیث یہ ہیں۔ ((اشتد میزرہ وایقظ اھله واحی اللیل کله))
وعظ خدا کا کام فرماتا ہے۔ ﴿یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ﴾ وعظ رسول اللہ ﷺ کا کام ہے، فرمان ہے۔ ((انما اعظکم بواحدة)) وعظ کا عام حکم ہے فرمان ﴿اُدْعُ اِلٰٰی سَبِیْلِ رَبَّكَ﴾ پس کسی وقت بھی وعظ بدعت نہیں۔ دن رات صبح ظہر عصر، مغرب رمضان غیر رمضان کسی وقت کے کسی حصے میں وعظ ممنوع نہیں۔ وعظ کی مجلس کو حدیث میں ((ریاض جنۃ)) باغیچہ جنت کہا گیا ہے۔ وعظ کی مجلس دنیا کی تمام مجلسوں سے عند اللہ بہتر و افضل ہے، پس اس سے روکنا اسے بدعت کہنا اپنے نفس پر ظلم کرنا۔ دین خدا میں اپنی رائے کو دخل دینا {مَنَّاعٌ لَّلْخَیْرِ} بننا ہے، مولود نہ حضرت ﷺ کے وقت میں ہوئی۔ نہ اس کی کوئی دلیل۔ وعظ تو آپ نے سن لیا کہ ہر وقت ہوتا رہا۔ اسے افضل ترین عبادت کہا گیا۔ گو اس کے لیے کسی جزئی کا پیش کرنا ضروری نہ تھا۔ تاہم میں آپ کے سامنے شب قدر میں رسول اللہ ﷺ کا وعظ کہنا پیش کرتا ہوں۔ اللہ ان مانعین خیر کو نیک ہدایت دے۔ مسند احمد میں ہے کہ تیئسویں رات حضور ﷺ نے تہائی رات تک نماز پڑھائی، پھر متقدیوں کی طرف منہ کر کے یہ بھی فرمایا ((لَا اَحْسَبُ مَا تَطْلُبُوْنَ اِلَّا وَرَائَکُمْ الخ)) ’’یعنی جسے تم سب طلب کر رہے ہو۔ لیلۃ القدر۔‘‘
وہ میرے خیال سے تو ابھی آگے آئے گی۔ الخ مجمع کو مخاطب کر کے کچھ فرمانا۔ اور انہیں رغبت دلانا یہی مفہوم وعظ ہے، نماز کے بعد کی ایسی تقریروں کو امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وعظ کے ضمن میں ہی وارد کی ہیں۔ اور ان پر وعظ کا باب باندھا ہے، اسی قسم کی اور بھی بہت سی روایتیں ہیں۔ لیکن میں آپ کو صرف ایک صریح حدیث صحیح مسلم شریف سے سنا دوں اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص اسے بدعت کہے تو خدا کے ہاں کیا جواب دے گا اسے سونچ گئے۔
((عن ابی سعید الخدری قال کان رسول اللہ ﷺ یجاور فی العشر التی فی وسط الشھر فاذا کان من حین یمضی عشرون لیلة ویستقبل احدی وعشرین یرجع الٰی مسکہنه ورجع من کان یجاور معه ثم انه اقام فی شھر جاور فیه تلك اللیلة اللتی کان یرجع فیھا فخطب الناس فامرھم بما شآء اللّٰہ ثم قال انی کنت اجاور ھذاہ العشرة۔ ثم بدأ الی اان اجاور ھذہٖ العشر الاواخر فمن کان اعتکف مَعِیَ فلیبث فی معتکفه وقد رأیت ھذہ اللیلة فانسیتھا فالتمسوھا فی العشر الا واخر فی کل وتروقد رأیتین اسجد فی ماء وطین قال ابو سعید الخدری مطرنا لیلة احدیٰ وعشرین فوکف المسجد فی مصلی رسول اللّٰہ فنظرت الیه وقت انسرف من صلوة الصبح ووجہه مبتل طینا وماء))(مسلم)
’’یعنی رسول اللہ ﷺ رمضان المبارک کے درمیانی دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ جب بیسویں رات گذر جاتی۔ اوراکیسویں رات آ جاتی تو آپ اپنے گھر کو لوٹ جاتے، اور آپ کے ساتھی بھی جو اعتکاف میں ہوتے تھے، لیکن ایک مہینہ میں آپ اس رات بھی جس رات کو لوٹ کر جاتے تھے۔ یعنی اکیسویں رات ٹھہرے رہے۔ پھر لوگوں کو خطبہ دیا وعظ سنایا۔ اور جو کچھ منظو رخدا تھا انہیں حکم احکام سنائے۔ پھر یہ بھی فرمایا۔ میں اس درمیانی دہے کا اعتکاف کیا کرتا تھا۔ لیکن اب مجھ پر یہ کھلا ہے کہ میں اس آخری عشرے کا اعتکاف کروں۔ پس جن لوگوں نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے، وہ اپنے اعتکاف میں ہ رہیں۔ سنو میں نے اُس رات کو یعنی لیلۃ القدر کو بھی دیکھ لیا ہے، لیکن پھر بھلا دیا گیا ہوں۔ پس تم اُسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ یعنی اکیس۔ تیئس۔ پچیس۔ ستائیس۔ اُنتیس میں۔ میں نے اس رات اپنے تئیں کیچڑ میں سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی راوی حدیث کا بیان ہے۔ کہ اُسی اکیسویں رات بارش ہوئی اور مسجد کی چھت ٹپکی، اور پانی حضور ﷺ کی نماز کی جگہ بھی ٹپکا، اور جب نماز صبح سے فارغ ہو کر آپ لوٹے تو میں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی نورانی پر پانی اور مٹی لگی ہوئی تھی۔ کیچڑ آلود تھی۔‘‘
اس حدیث میں صاف ہے کہ اکیسویں رات رسول اکرم ﷺ نے وعظ فرمایا۔ مولانا عبد الحکیم صاحب نصیر آبادی نے بھی ان راتوں کے وعظ کے خلاف فتویٰ دیا تھا۔ لیکن جب میں نے انہیں یہ حدیث لکھ کر بھیجی تو آپ نے رجوع فرمایا، اور رجوع نامہ لکھ کر بھیجا جو بصورت اشتہار دہلی میں تقسیم ہو گیا ہے، اُمید ہے کہ یہ علماء کرام بھی اس حدیث کے ملاحظہ کے بعد اپنے سابقہ فتویٰ سے رجوع کر لیں گے۔ ہاں ضدی اشخاص سے یہ اُمید بہت کم ہے، وہ تو شان امامت میں پڑ کر اس چیز کو اپنی پوزیشن کے خلاف سمجھتے ہیں۔ واللہ الہادی
(محمد مدرس مدرسہ محمدیہ ایڈیٹر اخبار محمدی دہلی)
قرآن و حدیث عوام الناس کو پہنچانے کے واسطے آیا ہے، اور مسائل سنانے کے واسطے رات ہو یا دن رمضان ہو یا غیر رمضان شب قدر ہو یا غیر شب قدر ہر وقت میں تبلیغ افضل ہے عبادت نفلیہ سے اس واسطے کہ یہ فرض ہے، اور وہ نفل ہے اور ظاہر ہے کہ نفل فرض سے بڑھ نہیں سکتا حدیث میں کہ ایک شخص خالی فرض پڑھ کر علم کے پڑھانے میں مشغول رہتا تھا۔ اور دوسرا عبادت کرتا تھا۔ فرمایا۔ رسول اللہ ﷺ نے کہ علم پڑھانے والا افضل ہے عبادت کرنے والے اور حدیث میں ہے کہ سکھانے والا بہت ہے کہ بخشش مانگتے ہیں۔ واسطے اس کے وہ جو آسمانوں اور زمین میں ہیں۔ یہاں تک کہ مچھلیاں بھی دریا میں۔ ﴿قال اللہ تعالیٰ یَااَیَّھَا الرَّسُْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَبِّكَ﴾
اور حدیث میں ہے۔ ((بلغوا عنی ولو اٰیة وقالَ اللّٰہُ تعالیٰ قَالَ رَبِّ اِنَّنِیْ دَعَوْتُ قَوْمِیْ لَیْلًا وَنَھَارًا)) یہ کام بدعت نہیں بالکل جائز اور ثواب کار خیر ہے۔ بلکہ افضل ہے۔ ہم خربا ہم ثواب۔
(اخبار محمدی دہلی جلد ۱۷ ش ۶۔ ۲۰ شوال ۱۳۵۸ھ۔ ۱۹۳۹ء) (المجیب عبد الرحمن دہلی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب