سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(180) لیلۃ القدر میں وعظ کا اہتمام

  • 4183
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 1269

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رمضان کی شب ہائے لیلۃ القدر میں عہد نبوی یا صحابہ کرام اور زمانہ خیر قرون میں جلسے یا مواعظ ہوتے تھے۔ اب اگر کوئی شخص شب ہائے لیلۃ القدر میں وعظ و تذکیر کرے تو اس پر کیا حکم ہو گا؟ (سراج الدین جودھ پوری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شب قدر کے وعث اور رمضان کی تیس دن کی وعظ کے جواز عدم جواز سے تھوڑی سی تمہید سن لیں۔ جس حیثیت سے کوئی شئی شریعت میں وار د ہوئی ہے۔ اگر اسی سے لی جائے تو جائز ہے، اس کا شمار بدعت میں نہیں ہو گا۔ مثلاً ایک شخص کسی عالم سے پوچھ کر عمل کر لے۔ تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں۔ کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔

﴿فَاسْئَلُوْا اَھْلُ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’یعنی اگر تمہیں علم نہ ہو تو علم والوں سے پوچھ لو۔‘‘نیز حدیث شریف میں ہے۔ ((انما شفاء اُلْحیَّ السَّوال)) ’’یعنی جہالت کی شفا پوچھنا ہے۔‘‘لیکن اگر کوئی اس میں اتنی بات بڑھ لے کہ باوجود اور علماء کے ایک عالم مذہب اپنے ذمے لازم کر لے۔ اور جب پوچھے اسی سے پوچھے تو یہ بدعت اور برا ہو گا۔ اور یہ تقلید ہے جو متنازعہ فیہ ہے۔ اسی بنا پر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ ((لا یجعل احدکم للشیطان شیئا من الصلوة یَرٰان حق علیه ان لا ینصرف الا عن یمینه لقد رَیَّیْتُ رسول اللہ ﷺ کثیرا ینصرف عن یسارہٖ)) (متفق علیہ، مشکوٰۃ باب الدعاء فی التشہد ص ۷۹) ’’یعنی کوئی تمہارا اپنی نماز سے شیطان کاکچھ حصہ نہ کرے کہ اپنے اوپر لازم سمجھے کہ (سلام پھیر کر) داہنی طرف ہی پھیروں گا۔ کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ بہت دفعہ بائیں طرف بھی پھیرتے تھے۔‘‘ امام جب نماز سے سلام پھیرتا ہے، تو اپنے دائیں طرف یا بائیں طرف منہ کر کے بیٹھ جاتا ہے، اس کی بابت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک طرف کو معین کر لینا شیطان کا حصہ ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ بہت دفعہ دوسری طرف بھی پھیرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس حیثیت سے کوئی فعل شروع میں وارد ہو اس سے ذرا ادھر اُدھر نہ ہونا چاہیے۔ اگر ذرا ادھر اُدھر ہو گا تو وہ بدعت اور شیطان کا حصہ ہو جائے گا۔ کیونکہ بندہ کو شروع میں کوئی دخل نہیں۔ کہ اپنی طرف سے کوئی شئے معین کرے۔ یا معین کو عام کرے۔ یا کسی اور طرح سے کمی بیشی کرے۔ بلکہ اس کو لازم ہے کہ ہر حکم اپنے انداز میں رہنے دے۔ اور جس طرح وارد ہوا ہو۔ اس کو سمجھ کر ادا کرے۔ اس تفصیل سے شب قدر اور رمضان المبارک کے تیس دنوں کے وعظ کی حقیقت بھی واضح ہو گئی۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وعظ و تبلیغ کے لیے کسی رات یا کسی دن کو ہمیشہ کے لیے خاص اور معین نہیں کرنا چاہیے۔ قرآن و حدیث اور خیر قرون میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔ خاص کر جب ایک محل میں نبی اکرم ﷺ سے ایک ثابت ہو۔ جیسے رمضان المبارک کی عام راتوں میں عموماً اور لیلۃ القدر میں خصوصاً قیام وغیرہ ثابت ہیں۔ تو پھر کسی غیر ثابت شدہ کام کے لیے خاص کرنا خطرہ سے خالی نہیں۔ غور کیجئے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دو ثابت شدہ کاموں سے بھی ایک کی تخصیص کرنے کو شیطانی فعل فرماتے ہیں۔ تو غیر ثابت شدہ کی تخصیص کس طرح درست ہو گی۔ اگر کسی خاص یا وقت کی ہمیشہ کے لیے تخصیص نہ ہو۔ بلکہ حسب ضرورت نماز تراویح سے پہلے یا بعد وعظ کیا جائے تو یہ بدعت نہیں ہو گا۔ نبی ﷺ سے ایسا ثابت ہے کہ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ آپ نے مسائل اعتکاف وغیرہ کی بابت خطبہ ارشاد فرمایا۔ اس سے ثابت ہوا کہ بلا تخصیص حسب ضرورت وعظ کرنا جائز ہے

جیسے رمضان المبارک میں جس رات قرآن مجید ختم ہو۔ لوگ دعا میں شرکت اور حصول برکت وغیرہ کی نیت سے جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ تبلیغ کا عام موقع ہے۔ اگر ایسے موقع پر وعظ و تبلیغ ہو جائے۔ تو یہ جائز ہے، کیونکہ کمی و بیشی یا تغیر و تبدل دو طرح کا ہوتا ہے، ایک خارج میں ایک نفس حکم میں نفس حکم میں تغیر آنے سے بے شک وہ حکم بدعت ہو جائے گا۔ جیسے اوپر تقلید کی مثال اور عبد اللہ بن مسعود کے قول سے ظاہر ہے، خارج میں تغیر آنے سے وہ حکم بدعت نہیں ہو گا۔ مثلاً ایک جگہ معین تاریخ کو سال بسال عرس ہوتا ہے۔ یا میلہ لگتا ہے، اب کوئی مبلغ یا وعظ کی بھی تاریخ معین ہو گی۔ مگر یہ بدعت نہیں۔ کیونکہ یہ تعین خارج سے ہے، نفس حکم سے نہیں۔ اس طرح کوئی شخص جمعہ جمعہ طالب علموں کو کھانا کھلائے تا کہ طاب علموں کے مطالعہ اور سبقوں کا حرج نہ ہو۔ تو یہ بھی نفس حکم میں تغیر نہیں۔اسی طرح ایک ملازم پیشہ شخص کو اتوار کے دن فراغت ہوتی ہے، وہ اس کو وعظ یا نصحت کے لیے مقرر کرے۔ یا اس دن میں قرآن مجید کی منزل زیادہ کرے۔یا نفل نوافل زیادہ پڑھے۔ تو یہ بھی نفس حکم میں تغیر نہیں بلکہ خارج تغیر ہے، کیونکہ انسابن ہمیشہ حسب ضرورت اور حسب فرصت ہی ایسے کاموں میں زیادہ حصہ لے سکتا ہے، اگر کوئی شخص ایسا کرے یا ترغیب دے کہ تم بھی ایسا ہی کرو حالانکہ اُن کے لیے سب دن یکساں ہیں۔ تو یہ نفس حکم میں تغیر ہے،پس یہ برا اور بدعت ہو گا۔ کیونکہ جو کام حسب موقع یا حسب ضروررت یا حسب فرصت ہوتا ہے، وہ سب کے لیے یکساں نہیں رہتا۔ کیونکہ مواقع بدلتے رہتے ہیں۔ ضرورتیں الگ الگ ہوتی ہیں فرصت کا وقت ایک نہیں ہوتا مثلاً لوگ وعث کے لیے جلسہ کرتے ہیں۔ تو جیسا جیسا اپنا موقع دیکھتے ہیں۔ تاریخیں مقرر کر لیتے ہیں۔ وہی دوسرے لوگ کریں۔ بلکہ خود ایک شہر یا گاؤں والے کی سال کی کوئی تاریخ رکھ دیتے ہیں۔ اور کسی سال کوئی پھر بعض کم و بیش مدت میں کر لیتے ہیں۔ کیونکہ جیسا موقع دیکھتے ہیں ویسا کر لیتے ہیں۔سب کے لیے ایک صورت معین نہیں ہو سکتی، دیکھئے ابن عباس فرماتے ہیں۔ ہر جمعہ میں ایک مرتبہ لوگوں کو حدیثیں سنایا کر کہ اگر تیرا زیادہ خیال ہو تو دو مرتبہ اگر اس سے بھی زیادہ خیال ہو تو تین مرتبہ اور اس قرآن سے لوگوں کو سست نہ کر۔ او کوئی قوم اپنی ضروری بات چیت میں ہو تو اُن کی بات کاٹ کر وعظ شروع نہ کر۔ اس سے وہ سست ہو جائیں گے، لیکن چپ رہ۔ جب وہ تجھے کہیں اس وقت ان کو حدیثیں سنا۔ اس وقت تیرا ان کو حدیثیں سنانا ان کے شوق کی حالت میں ہو گا۔ دعا کے وقت وزن دار کلمات بنا کر دعا مانگنے سے بچے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ ایسا نہیں کرتے تھے، روایت کیا اس کو بخاری نے (ملاحظہ ہو مشکوٰۃ کتاب العلم فص ۲) نیز مشکوٰۃ میں ہے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعرات جمعرات وعظ کیا کرتے تھے۔ (ملاحظہ ہو مشکوٰۃ کتاب العلم فصل ۲ ص ۲۵) اور حضرت ابو ہریرہ ہر جمعہ کو منبر کے پاس کھڑے ہو کر حدیثیں سناتے۔ جب امام نکلتا تو بیٹھ جاتے۔ (ملاحظہ ہو مستدرک حاکم جلد اول ص ۲۵) اور حضرت ابو ہریرہ ہر جمعہ کو منبر کے پاس کھڑے ہو کر حدیثیں سناتے۔ جب امام نکلتا تو بیٹھ جاتے۔ (ملاحظہ ہو مستدرک حاکم جلد اول ص ۱۰۸) اور ابن عباس جمعہ کے بعد اپنی خالہ میمونہ کی وفات کے موقع پر ان کے گھر میں لوگوں کو مسائل بتانے کے لیے بیٹھے۔ (ملاحظہ ہو مسند احمد جلد اول ص ۲۶۴) سو اس طریق سے جیسا کوئی اپنا موقع دیکھتا۔ کام کرتا۔ اہل بدعت کی طرح نہیں کہ ہمیشہ میت کے تیسرے، ساتویں، دسویں دن کو روٹی کے لیے مقرر کر لیں۔ یا چالیس دن روٹی دیں۔ یا ششماہی سالانہ حساب رکھیں۔ یا اس قسم کا کوئی اور تعین کریں۔ جو تقلید کی طرح سب کے لیے یکساں قرار دیا جائے۔ یہ سرا سر دین میں تصرف اور حکم میں تغیر ہے، اور اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو بدعت سے محفوظ رکھے۔ (آمین)

(فتاویٰ اہل حدیث جلد دوم صفحہ ۵۷۲) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 460-463

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ