السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت گھر میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔۲۴ ستمبر ۱۹۵۷ء کے جریدہ اہل حدیث میں کسی صحاب نے سوال کیا ہے کہ کیا عورت اعتکاف بیٹھ سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواب دیا گیا ہے… بیٹھ سکتی ہے مگر مسجد میں نہیں، اپنے گھر بیٹھ سکتی ہے، بحث عورت کے اعتکاف بیٹھنے سے متعلق نہیں ہے، بلکہ عورت کے گھر میں اعتکاف بیٹھنے سے ہے، جہاں تک راقم الحروف کی تحقیق ہے، وہ یہ ہے، کہ عورت گھر میں اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی۔ کیونکہ اعتکاف کا مسنون طریقہ مسجد ہی میں بیٹھنا ہے، اس میں مرد وزن سب مساوی ہیں۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں۔
قرآن پاک میں ہے۔
﴿وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ مَا کِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ﴾
’’یعنی جب تم مسجدمیں معتکف ہو تو ایسی صورت میں اپنی عورتوں سے مباشرت نہ کرو۔‘‘
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اعتکاف کے لیے جامع مسجد کا ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ ہر مسجد میں بیٹھنا جائز ہے، اور اسی پر باب باندھا ہے ((باب الاعتکاف فی العشر الاواخر واعتکاف فی المساجد لھا لقوله تعالیٰ وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ)) فی المجساجد کا لفظ اس پر دال ہے۔ کہ اعتکاف مسجد میں ہی ہو سکتا ہے، اگر اعتکاف کے لیے مساجد شرط نہ ہوتیں۔ تو اس کے ذکر کا کیا فائدہ تھا۔ صحیح بخاری مطبع کرزن پریس کے صفحہ ۲۷۴ پر یہ حدیث وارد ہے۔ ((عن عائشة رضی اللہ عنه ان رسول اللہ ﷺ ذکر ان یعتکف الا لعژر الا واخر من رمضان فاستأذنته عائشة فاذن لھا وسألت حفصة عائشة ان تَسْتَأذن لھا ففعلت فلما رأت ذالك زینب بنت جحژ امرت یناء فبنی لھا قلت وکان رسول اللہ ﷺ اذ صلی انصرف الی بنائه فبصر بالابنیة فقال ما ھذا قالوا بناء عائشة وحفصة وزینب فقال رسول اللہ البر اردن بھذا ما انا ممعتکف فرجع فلما افطر اعتکف عشرة من شوال))
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کا ذکر کیا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی اعتکاف بیٹھنے کی آپ سے اجازت چاہی۔ آنحضرت ﷺ نے اجازت فرمائی۔ پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے جب انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اجازت کی خبر ہوئی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ میرے لیے بھی آنحضرت ﷺ لے دیجئے۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں سے اجازت لے دی جب اس واقعہ کی حضرت زینب بنت جحش کو خبر ہوئی تو انہوں نے بھی خیمہ لگوایا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے جب نماز ادا کر لی تو اپنے خیمے میں تشریف لائے، اور کئی خیمے دیکھ کر فرمایا یہ خیمے کیسے ہیں۔ لوگوں نے بتایا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا۔ حفصہ رضی اللہ عنہا۔ اور زینب کے خیمے ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا اس سے وہ نیکی کا ارادہ رکھتی ہیں۔یعنی اس میں تو نمائش اور ریاکاری ہے۔ فرمایا ہمیں تو اعتکاف نہیں بیٹھنا۔ پھر آپ واپس چلے آئے۔ پھر عید الفطر کے بعد شوال کے دس دن کا آپ ﷺ نے اعتکاف کیا۔‘‘
اگر مسجد میں اعتکاف منسون نہ ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو آپ کیوں اجازت مرحمت فرماتے۔ آپ ﷺ فرما دیتے کہ عورتیں گھر میں معتکف ہوں۔ پھر جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے ایک دوسری کو دیکھ کر مسجد میں خیمے گاڑ لیے تھے۔ او آپ ﷺ نے ان خیموں کو دیکھ کر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ آپ ﷺ ناراض اس لیے نہیں ہوئے تھے کہ عورتیں مسجد میں معتکف نہ ہوں۔ بلکہ اس کی وجہ نمائش اور ریاکاری تھی۔ پھر اگر گھر میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہوتا تو اپنی ازواج مطہرات کو فرماتے کہ تم مسجد میں خیموں کو اکھیڑ لو۔ اور گھر میں جا کر معتکف ہو جائو۔
۳۔ حجة اللہ البالغہ مطبع نور محمد اصح المطابع کے ص ۱۷۹ پر ہے۔ ((قالت عائشة السنة علی المعتکف ان لا یعود مریضا ولا یشہد جنازة ولا یمس المرأة ولا یباشرھا ولا یخرج الا لحاجة ما لا بدمنه ولا اعتکاف الا بصوم ولا اعتکاف الا فی مسجد جامع))
’’یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مسنون طریقہ معتکف کے لیے یہی ہے کہ نہ تو مریض کی بیمار پرسی کرے، اور نہ جنازہ میں شامل ہو۔ نہ اپنی عورت سے مس کرے، اور نہ اس سے مباشرت کرے۔ اور نہ کسی غیر ضروری حاجت کے بغیر باہر ہی نکلے۔ نیز فرماتی ہیں کہ روزہ کے بغیر اعتکاف نہیں ہوتا۔ اور نہ جامع مسجد کے بغیر اعتکاف بیٹھنا ہی درست ہے۔‘‘
یہ روایت مشکوٰۃ شریف اور ابو داؤد میں بھی آئی ہے۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ کا اپنا قول نہیں بلکہ فرماتی ہیں۔ السنۃ۔ سنت سے مراد سنت رسول اللہ ﷺ ہے تو یہاں مسجد میں اعتکاف بیٹھنا سنت بتایا گیا ہے، اعتکاف بیٹھنے والا خواہ مرد ہو یا عورت۔
۴۔ مشکوٰۃ شریف ص ۱۸۳ پر ایک حدیث مذکور ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ ((کان النبی یعتکف الخ)) اس اعتکاف کی وضاحت میں مشکوٰۃ کے حاشیہ پر ہوں ہے۔ ((الاعتکاف فی اللغة الجنس والمکث والزوم والاقبال علی شئی وفی الشرعبارة عن المکث فی المسجد واللزوم علی وجه مخصوص))
اعتکاف کے لغی معنی بند رہنا۔ ٹھہرنا۔ اور کسی چیز کو لازم پکڑنا۔ اور کسی چیز پر متوجہ ہونا ہے۔ اور شریعت میں اعتکاف کے معنی مسجد میں ٹھہرنا، اور خاص اندازسے لازم کرنا ہے، اس عبارت سے صاف طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ اعتکاف مسجد میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی گھر میں اعتکاف بیٹھتا ہے تو اسے اعتکاف نہیں کہا جا سکتا۔ علاوہ ازیں اور بھی دلائل کتب احادیث سے مل سکتے ہیں۔ لیکن انہیں پر کفایت کی جاتی ہے، شاید میری تحقیق کو محل نظر سمجھا جائے۔ اور کہا جائے کہ اس زمانہ میں نہ توایسی پارسا نیک عورتیں ہیں۔ جیسی کہ حضور انور ﷺ کے زمانے میں عورت کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا ناجائز ہے۔ اگر مسجد میں اعتکاف بیٹھے گی۔ تو ایک نیکی کے حصوں میں بیسیوں گناہوں کا خطرہ ہے، اور گھر میں ہی خطرہ گناہ سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ تو گزارش یہ ہے کہ میں نے کب کہا ہے کہ عورت اعتکاف بیٹھے اور مسجد میں آ کر بیٹھے۔ میرا مطلب تو صرف یہ ہے کہ اعتکاف کا سنت طریقہ مسجد میں ہی بیٹھنا ہے، اور کسی جگہ اعتکاف بیٹھنے کی شریعت مطہرہ نے اجازت نہیں دی۔
(سیف الرحمٰن) (اخبار الاعتصام جلد ۹ ش ۷۲۰۔ ۲۰ جمادی الاول ۱۳۷۷ھ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب