السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان میں روزہ توڑنے پر کفارہ کیا ہے۔ اور اس کی صورت و اندازہ کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے کہا ((ھلکت یا رسول اللّٰہ)) ’’اے اللہ تعالیٰ کے رسول میں ہلاک ہو گیا ہوں۔‘‘
فرمایا تجھے کس چیز نے ہلا ک کیا۔ کہا ((وقعت علٰی امرأتی فی رمضان)) ’’یعنی رمضان میں اپنی عورت سے ہمبستری کر لی۔‘‘
فرمایا تو ایک گردن آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اُس نے کہا نہیں۔ فرمایا دو ماہ کے روزے پے در پے رکھ سکتا ہے۔ اُس نے کہا نہیں۔ فرمایا کیا تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے۔ کہا نہیں۔ پھر بیٹھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک ٹوکرا لایا گیا۔ جس میں پندرہ صاع کھجور تھیں۔ آپ نے فرمایا یہ لے جا اور اپنی طرف سے صدقہ کر دے۔ کہنے لگا یا رسول اللہ، کیا اپنے سے زیادہ محتاج پر صدقہ کر دوں۔ مدینہ کے احاطہ میں مجھ سے زیادہ کوئی محتاج نہیں۔ اس پر آپ بہت ہنسے، اور فرمایا اچھا اہل کو کھلا دے۔ اور ایک میں ہے۔ ((کُلْهُ وَاَطْعِمْهُ اَھْلَكَ)) ’’یعنی خود کھا اور اپنے اہل کو کھلا۔‘‘اس حدیث پر نیل الاوطار میں ((ھَلَکْتُ)) کے لفظ پر لکھا ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ھَلَکْتُ‘‘ میں ہلاک ہو گیا۔ کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اُس سے دیدہ دانستہ کیا ہے۔ کیونکہ ہلاک ہونے سے مراد یہ ہے کہ مجھ سے نافرمانی ہو گئی ہے۔ اور بھول چوک نافرمانی نہیں۔ پس بھول چوک سے ہمبستری کرنے والے پر کفارہ نہیں۔ اور جمہور علماء اس کے قائل ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ اور بعض مالکیہ کہتے ہیں کہ بھولنے والے پر کفارہ ہے، اور یہ دلیل دی ہے کہ آپ نے اُس سے دریافت نہیں کیا کہ بھول کر کیا یا دیدہ دانستہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر صورت میں کفارہ ہے، خواہ دیدہ دانستہ کرے یا بھول کر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں لکھتے ہیں۔ ((ھَلَکْتُ)) کے لفظ سے معلوم ہو گیا کہ اس نے یہ کام دیدہ دانستہ کیا ہے تو پھر دریافت کرنے کی کیا ضرورت۔ نیز نہ دریافت کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ رمضان میں دن کے وقت جماع بھول چوک سے ہونا بہت بعید بات ہے۔
جماع اور کھانے کا حکم ایک ہے یا نہیں؟
بعض روایتوں میں ((وقعت علی امرأتی)) کی جگہ ((ان رجلاً افطرنی رمضان)) آیا ہے، یعنی ایک شخص نے رمضان میںروزہ افطار کر لیا تو اس کو آپ نے کفارہ کا حکم دیا۔ نیل الاوطار میں ہے، ((وبھذا استدلت المالکیة علی وجوب الکفارة علی من افطرفی رمضان بجماع او غیرہ والجمہور حملوا المطلق علی المقید وقالوا الاکفارة الی فی الجماع)) اس سے مالکیہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ رمضان میں خواہ کوئی جماع سے انکار کرے خوا ہ کھانے پینے سے اس پر کفارہ ہے۔ جمہور کہتے ہیں پہلی روایت میں چونکہ جماع کی تصریح ہے، اس لیے دوسری روایت میں بھی افطار ے مراد جماع کے ساتھ افطار ہو گا۔ نہ کہ مطلق۔ اور جمہو رکہتے ہیں کفارہ صر ف جماع میں ہے نہ کہ کھانے پینے میں۔
یہ تو ظاہر ہے کہ ہندوستان میں غلام آزاد کرنے کی صورت ممکن نہیں۔ اب پے در پے دو ماہ کے روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ رہا یہ کہ ایک ہی دفعہ کھلائے یا متفق اس کے متعلق نیل الاوطار میں ہے۔ ابن دقیقی العید نے کہا کہ اس حدیث میں اطعام کی نسبت ساٹھ مسکین کی طرف ہے، جس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ ایک لخت کھلائے پس اگر چھ کو مثلاً دس دن کھلائے یا ایک کو ساٹھ دن کھلائے تو یہ ساٹھ کا کھلانا نہیں۔ جمہور اسی کے قائل ہیں۔ او رحنفیہ کہتے ہیں کہ اگر ساٹھ مسکینوں کا تمام کھانا ساٹھ دن میں ایک مسکین کو کھلا دے تو کافی ہے اور رسول اللہ ﷺ کا اس شخص کو فرمانا ((فَاَطْعَمْتُ اَھْلَکَ)) ’’عنی اپنے اہل کو کھلا دے۔‘‘اس پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ شخص مذکورہ کو ادائیگی کفارہ کی صورت آپ نے یہ بتائی ہے کہ آپ نے اہل کو کھلا دے۔ حالانکہ اہل ساٹھ افراد نہ تھے، پس اس سے ثابت ہوا کہ ایک لخت ساٹھ کو کھلانا شرط نہیں۔ یہ دلیل صاحب نیل الاوطار نے حنفیہ کی طرف سے پیش کی ہے۔ لیکن یہ دلیل دو وجہ سے کمزور ہے، ایک یہ کہ اس حدیث کی بعض روایتوں میں ((کُلْهُ وَاَطْعَمْهُ اَھْلَكَ)) ’’یعنی خود کھا اور اپنے اہل کو کھلا۔‘‘اور ظاہر ہے کہ اپنے نفس پر کفارہ صرف نہیں ہو سکتا۔
دوم: یہ کہ اپنے اہل پر صرف کرنے حنفیہ وغیرہ قائل نہیں۔ علاوہ اس کے اس پر کیا دلیل ہے کہ آپ کا یہ فرمایا کہ اپنے اہل کو کھلا دے، یہ ادائیگی کفارہ کی صورت ہے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ تنگی کی وجہ سے اُس کو کفارہ معاف ہو یا آئندہ اس کے ذمہ ہو۔ اور ظاہر یہی ہے۔ کیونکہ یہ ایک قسم کا قرض ہے۔ اور قرض میں اصل یہ ہے کہ وہ تنگی میں ساقط نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ ذمہ باقی رہتا ہے۔ جب توفیق ہو ادا کرے۔ اور یہی وجہ ہے کہ شخص مذکور سے آپ نے یہ نہیں کہا کہ آئندہ تیرے ذمہ ہے کیونکہ قرض کا معاملہ واضح ہے کہ ذمہ ہو جاتا ہے، اور جمہور اسی کے قائل ہیں۔ صرف جیسے بن دینار مالکی کہتے ہیں کہ تنگی کے وقت کفارہ معاف ہے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ کفارہ معاف ہے، اور ایک قول جمہور کے مطابق ہے۔
نیل الاوطار میں ہے، یعنی دارقطنی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھلائے ہر مسکین کو ایک مد یعنی چوتھائی صاع دے، اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ۱۵ صاع کھجوریں لائی گئیں۔ اسی طرح دارقطنی میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جس راوی نے ۲۰ صاع کہا ہے، اُس کی مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کل بیس صاع کھجوریں لائی گئیں، اور جس نے پندرہ صاع کہا ہے، اُس کی مراد کفارہ کا اندازہ ہے۔
منتقی میں ہے۔ ((ولا بن ماجة وابی داؤد فی روایة وصُمْ یَوْمًا مَکَانَه))
’’یعنی ابن ماجہ اور ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شخص مذکور کو فرمایا کفارہ کے علاوہ اس کی جگہ ایک دن روزہ رکھنا۔‘‘
عورت پر کفارہ ہے یا نہیں؟
نیل الاوطار میں ہے، جمہور رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عورت مرد کے حکم میں ہے، اس پر بھی کفارہ ہے، امام اوزاعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عورت پر کفارہ نہیں۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول ہیں۔ ایک جنہور کے موافق اور ایک اوزاعی رحمہ اللہ کے موافق ہے، یہ قول اصح (؎۱)۔ دلیل اُس کی یہ دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے کفارہ کا حکم مردکو دیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر کفارہ نہیں اس کے جواب میں صاحب نیل الاوطار نے لکھا ہے۔
(؎۱) یعنی یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ سے زیادہ صحت کے ساتھ ثابت ہے، اور جو قول جمہور کے موافق ہے اس کا ثبوت امام شافعی رحمہ اللہ سے کچھ کمزور ہے۔ ۱۲
((وردبانه تعترف ولم تسأل فلا حاجة وَلَا سیما مع احتمال ان تکون مکرهة کام یرشد الی ذٰلك قوله فی روایة الدارقطنی ھَلَکْتُ وَاَھْلَکْتُ))
یعنی عورت نے نہ اقرار کیا نہ سوال کیا۔ پس اس کو بتلانے کی ضرورت نہ تھی۔ خاص کر جب اس پر جبرا ہوا ہو۔ جیسے ((ھَلَکْتُ وَاَھْلَکْتُ)) سے معلوم ہوتا ہے، یعنی میں ہلاک ہو گیا، اور ہلاک کر دیا۔ اس لیے ہلاک ہونے اور ہلاک کرنے کی نسبت اپنی طرف کر دی ہے، اگر عورت بھی راضی ہوتی تو کہتا ((ھَلَکْتُ وَھَلَکْتُ)) ’’یعنی میں ہلاک ہو گیااور میری بیوی بھی ہلاک ہو گئی۔‘‘
یہ صاحب نیل الاوطار کی تقریر کا خلاصہ ہے، ساحب منتقی نے بھی دارقطنی کے یہ الفاظ ((ھَلَکْتُ وَاَھْلَکْتُ)) نقل کرکے لکھا ہے کہ شخص مذکور کا کہنا کہ میں نے ہلاک کر دیا۔ عورت پر جبر کی صورت میں وہ گناہ گار نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی طرف سے تحریک ہوئی اور وہ راضی ہو گئی۔ اس لیے ہلاک کرنے کی نسبت اپنی طرف کی۔ ہاں اگر ((اَھَلَکُتُ)) لا لفظ ((ھَلَکْتُ)) کی مشاکلت سے استعمال کیا ہو۔ اور مراد اس سے جبر ہو تو پھر یہ جواب صحیح ہے۔ رہا پہلا جواب کہ عورت نے نہ اقرار کیا۔ نہ پوچھا اور عورتوں کا حکم عموماً مردوں کا ہوتا ہے، اس لیے عورت کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ سو یہ جواب بلا شبہ صحیح ہے۔
(فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد ۲ ص ۵۵۸، ۱۸ شعبان ۱۳۵۹ھ) (۳۱ دسمبر ۱۹۴۰) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)
عورت کے لیے کفارہ الگ نہیں ہے، بلکہ مرد کے ساتھ ہی شام ہے، اور روزہ کی قضاء دونوں پر ہے، جیسا کہ مذکور ہے۔ (الراقم علی محمد سعیدی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب