سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(164) ولی کے ذمہ روزہ کی قضاء

  • 4167
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-23
  • مشاہدات : 1342

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسماۃہندہ مدت سے مرض دق میں مبتلا تھی۔ اس نے بمشکل تمام رمضان کا ایک روزہ رکھا۔ بقیہ رمضان المبارک میں اُس نے روزہ نہیں رکھا۔ اور مرض روز روز بڑھتا گیا۔ حتی کہ اوائل سفر میں اُس کا انتقال ہو گیا۔ مریضہ کے جو روزے چھوٹ گئے ہیں۔ ان کے بدلے میں اولیاء کو روزہ رکھنا یا فدیہ دینا ضروری ہے یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو روزے چھوٹ گئے ہوں۔ اُن کے عوض میں اولیا کو روزہ رکھنا یا فدیہ دینا ضروری نہیں۔ ﴿قال اللہ تعالیٰ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْ عَلیٰ سفَرٍِ فَعَدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ یعنی مریض پر رمضان کا روزہ ضروری نہیں بلکہ جب مرض سے شفا ہو جائے تو قضا واجب ہے۔ ہدایہ میں ہے۔ ((اذا مات المریض او المسافر وھما علی حالھا لم یلزمہما القضاء لانھما لم یدرکا عدة من ایام اخر الخ)) یعنی جب مریض یا مسافر اپنی مرض اور سفر کی حالت میں ہوں۔ اور وہ مر جائیں۔ تو ان کو قضا لازم نہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے ایام اخر نہیں پائے عون المعبود جلد ۲ صفحہ ۲۷۹ میں ہے۔ ((واتفق اھل العلم علی انہ اذا افطر فی المرض والسفر ثم لم یفرط فی القضاء حتی مات فانه لا شئی علیه ولا یجب الاطعام عنه الخ)) ’’یعنی اہل علم کا اتفاق ہے کہ جب کوئی مریض اپنی مرض میں اور مسافر سفر میں روزہ نہ رکھے۔ پھر انی طرف سے قضائی دینے میں کمی نہیں کی کہ حتی کہ وہ مر گیا تو اس پر کوئی شئے نہیں۔ اور نہ ہی اس کے ذمہ فدیہ ہے۔‘‘منہاج الطالبین للنووی میں ہے۔ ((من فاته شئی من رمضان فمات قبل رمضان القضاء فلا تدارك له ولا اثم)) شرح منہاج میں ہے، ((فلا تدارك بالفدیة ولا بالقضاء))۔ چونکہ مریضہ نے زمانہ صحت یا قدرت علی الصیام نہیں پایا۔ اس لیے اس کے ذمہ قضا واجب نہیں۔ تو دوسروں پر کیسے واجب ہو گی۔ ملاحظہ سراج الوہاج شرح صحیح مسلم و سنن کبریٰ للبیہقی وسنن ابن ماجہ وغیرہا من الکتب فقط واللہ اعلم۔

جواب ۲:… صورت مسئولہ میں اولیا پر قضاء واجب ہے، صحیحین کی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ((قال قال رسول اللّٰہ ﷺ فمن مات وعلیه صوم صام عنه ولیه)) (مشکوٰۃ) اور اسی طرح حسامی مع ترمذی میں ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ((قالت جاء ت امرأة الی النبی ﷺ فقالت ان امی ماتت وعلیھا صیام شھرین متتابعین قال ارأیت لوکان علی امك دین اکنت تقضیہ قالت نعم قال فحق اللّٰہ احق))

امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی تصحیح کی ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ ((مات وعلیه صیام شھر فلیطعم عنہ مکان کل یوم مسکینا)) ان مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کی طرف سے اس کے اولیاء پر قضاء یا فدیہ ضروری ہے۔ رہی آیت جس سے مفتی نے عدم قضاء پر دلیل پیش کی ہے، وہ مریض اور مسافر کی قضاء پر دلیل ہے، نہ میت کے لیے ہے، اسی طرح صاحب ہدایہ وغیرہ کی عبارت جو کہ عدم قضاء پر پیش کی گئی ہے، وہ سب بلا دلیل باتیں ہیں، میت کی طرف سے اس کے اولیاء پر قضاء کرنا حکم شرع ہے۔ فقط۔

محاکمہ از محدث روپڑی

فریق اول کا جواب صحیح ہے، فریق ثانی غلطی پر ہے۔ فریق ثانی نے جو احادیث بیان کی ہیں۔ ان میں تصریح ہے کہ میت پر روزے ہوں تو اس کے ولی پر قضاء ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب بیمار اسی بیماری میں گزر گیا۔ جس میں اُس نے روزے افطار کیے تو اس پر روزے لازم نہ ہوئے۔ کیونکہ اس پر روزے لازم ہونے کے لیے شرط ہے کہ اس کو تندرستی کے دن مل جائیں چنانچہ قرآن مجید میں ہے۔ ﴿فَعَدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ﴾ یعنی اور دنوں سے گنتی پوری کرے جب بیمار نے اور دن پائے ہیں نہیں۔ جن میں یہ گنتی پوری کرتا تو اس پر یہ حکم نہ لگا۔ پس حدیث کے مطابق اس کے ولی پر قضاء نہ ہوئی۔ ہاں اگر اس بیماری سے تندرست ہو جاتا۔ اور جتنے روزے اس کے چھوٹے تھے۔ اتنے دن یا اُس سے کم دن تندرست رہ کر کسی اور عارضہ سے مر جاتا تو پھر ولی پر اتنے دنوں کی قضا آ سکتی تھی۔ جتنے دن تندرست رہتا۔ مگر سوال کی صورت میں تو وہ تندرست ہوا ہی نہیں تو پھر ولی پر قضا کی کوئی وجہ نہیں۔

(فتاویٰ اہل حدیث روپڑی جلد ۲ ص ۵۵۵۔ ۲ جمادی الاول ۱۳۵۸ھ) (عبد اللہ امر تسری روپڑی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 441

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ