السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر بحالت روزہ مباشرت (مساس ختین) بلا دخول سے انزال ہو جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟ اگر ٹوٹ جائے گا تو صرف اس کی قضا کافی ہو گی یا کفارہ بھی پڑے گا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس قسم کی مباشرت جبکہ اس سے انزال یا جماع میں مبتلا ہوجانے کا خطرہ ہو ممنوع ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
﴿اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَائِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَعَفَا عَنْکُمْ فَالْاٰنِ بَاثَرُوْھُنَّ﴾(القرآن)
’’یعنی ہلال کیا گیا تمہارے لیے روزے کی رات میں بے پردہ ہونا اپنی عورتوں کی طرف وہ لباس ہیں۔ تمہارے لیے اور تم لباس ہوں ان کے لیے، اللہ نے معلوم کیا تم سے کہ تم اپنی چوری کرتے تھے سو معاف کیا اس نے تم کو اور درگزر کی تم سے پس اب ملو ان سے۔‘‘(رشید سلفی)
بغیر دخول مباشرت سے انزال ہونے کی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اس کی قضاء ضروری اور لازم ہو گی۔ کفارہ لازم نہیں ہو گا۔
((وقع الخلاف فیما اذا باشر الصائم او قبل او نظر فانزل او امذی فقال الکوفیون و الشافی یقضی اذا انزل فی غیر النظر ولا قضاء فی الامذا وقال مالك ورحمه اللہ) واسحٰق یقضی فی کل ذالك ویکفر الا فی الامذاء فیقضی فقط واحتج له بان الانزال اقصی ما یطلب فی الجماع من الالتذاذ فی کل ذالك وتقعقب بان الاحکام علقت باالجماع فقط))(نیل ج۴ ص ۲۹۰)
’’اس میں اختلاف ہے کہ جب روزے دار مباشرت کرے یا بوسہ لے یا دیکھے (اپنی بیوی کی طرف) تو اس کا انزال ہو جائے یا مذی خارج ہو جائے (تو اس کا کیا حکم ہے) امام شافعی اور کوفیوں کا خیال ہے کہ بن دیکھے منی خارج ہونے میں قضاء ہے تری نکلنے سے قضاء نہیں ہے، امام مالک اور اسحق کہتے ہیں کہ مذی کے سوا سب میں قضاء اور کفارہ ہے، مذی میں فقط قضاء ہے۔ دلیل ان کی یہ ہے کہ جماع سے لذت کا آخری مطلوب اخراج منی ہوتا ہے (لہٰذا اس کے اخراج سے قضا اور کفارہ چاہیے) ان کا تعاقب کیا گیا ہے کہ شرعی احکام جماع کے ساتھ معلق ہیں۔۱ھ‘‘ (رشید سلفی)
(محدث دہلی جلد ۹ شمارہ ۹۔ جنوری ۱۹۴۳ئ)
اسی مسئلہ کے متعلق حضرت مولانا محمد جونا گڑھی مرحوم کے خیالات درج ذیل ہیں جو ۱۹۳۸ء میں یہی مسئلہ چلنے پر انہوں نے رقم فرمائے تھے۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا دہلی اور پنجاب وغیرہ کے لوگوں کو ایک روزہ قضاء کرنا چاہیے؟
اس دفعہ رمضان المبارک کا چاند کہیں پیر کو نظر آیا کہیں منگل کو اس لیے بمبئی کے علاقہ میں پہلا روزہ منگل کا ہوا، اور دہلی کے گرد و نواح میں بدھ کا روزہ ہوا، ازاں بعد چرچا ہوا، اور مفتیوں نے فتویٰ دیا کہ جہاں جہاں کے باشندوں نے بدھ کا روزہ رکھا ہے، وہ ایک روزے کی قضا کریں ہمیں حیرت ہے کہ یہ خلاف حدیث فتویٰ اس زور وشور اور تاکید کے ساتھ کیوں دیا گیا۔ حالانکہ حدیث سے ثابت شدہ فیصلہ یہ ہے، کہ ہر جگہ کے لیے وہیں کی رؤیت کا اعتبار ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد فیض بنیاد ہے۔ ((صوموا الرؤیته وافطر والرؤیته فان غم علیکم فاکملوا عدة شعبان ثلثین)) (متفق علیہ) ’’یعنی چاند کے دیکھنے پر روزہ رکھو، اور چاند ہو جانے پر عید منائو، اگر ابر وغیرہ کی وجہ سے مطلع غبار آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر لیا کرو۔‘‘دہلی میں پیر کے دن مطلع صاف تھا۔ ہزاروں نگاہیں چاند کی جستجو میں تھیں۔ لیکن نظر نہ آیا منگل کو چاند دکھائی دے گیا۔ اہل دہلی ے بالاتفاق روزہ رکھا اس درمیان میں دہلی کے آس پاس سے کہیں سے کوئی شہادت بھی نہ آئی، پھر ان پر دوسری جگہ چاند ہو جانے سے فتویٰ لگانا یہ تو درست نہیں، اب دوسری جگہ کی چاند کی رؤیت یہاں نا معتبر ہونے کی روایت بھی سن لیجئے۔ حضرت ام الفضل رضی اللہ عنہا۔ حضرت کریب کو اپنے ایک کام کے لیے حضرت معاویہ کے پاس شام میں بھیجتی ہیں۔ حضرت کریب فرماتے ہیں کہ وہاں ہم نے رمضان شریف کا چاند جمعہ کی رات کو دیکھا میں اپنا کام کر کے واپس لوٹا یہاںمیری باتیں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ہو رہی تھیں۔
آپ نے مجھ سے ملک شام کے چاند کے بارے میں دریافت فرمایا تو میں نے کہا کہ وہاں چاند جمعہ کی رات کو دیکھا گیا ہے، آپ نے فرمایا تم نے خود دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں میں نے بھی دیکھا۔ اور سب لوگوں نے دیکھا، سب نے بالاتفاق روزہ رکھا۔ خود جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے، لیکن ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا ہے، اور ہفتہ سے روزہ شروع کیا ہے، اب چاند ہو جانے تک ہم تو تیس روزے پورے کریں گے۔ یا یہ کہ چاند نظر آ جائے میں نے کہا سبحان اللہ! امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کا چاند دیکھا۔ کیا آپ کو کافی نہیں؟ آپ نے فرمایا ہر گز نہیں ہمیں رسول اللہ ﷺ اسی طرح حکم فرمایا ہے (مسلم، ترمذی، نسائی، ابو داؤد وغیرہ) شام اور حجاز کی سرحد ملی ہوئی ہے۔ لیکن شام کے چاند کا اعتبار حجاز میں نہیں کیا جاتا۔ اسی کو فرمان رسول اور شریعت کا مسئلہ بتلایا جاتا ہے، صحابہ کی بڑی جماعت مدینہ میں موجود ہے، بالاتفاق یہاں ہفتہ کا روزہ ہوا ہے، سچی خبر بلا تردید پہنچتی ہے، کہ ملک شام میں ایک روز پہلے چاند دیکھا گیا۔ وہاں بالاتفاق روزہ ایک دن کا ہوا لیکن مدینے میں صحابہ کے اجماع سے وہاں کے چاند کی رؤیت کا اعتبار یہاں کے لیے نہیں کیا جاتا یا تو عمل اہل مدینہ کو حجت بتایا جاتا ہے، یا آج اس مسئلہ میں کوئی پرواہ نہیں کی جاتی، الغرض اجماع صحابہ اور حکم نبی سے یہ ثابت ہے کہ دور درازجگہ کی رؤیت ہلال دو ر دراز جگہ والوں کے لیے معتبر نہیں، پھر ہم کہتے ہیں کہ جب اختلاف مطالع کا کوئی اثر ہی نہیں تو سنیئے سارے ملک حجاز میں امسال پہلا روزہ پیر کے دن کا ہوا تھا۔ ہمارے سامنے اس وقت مکہ شریف کا اخبار ’’ام القریٰ‘‘ رکھا ہوا ہے، جس میں تحریر ہے۔ ((قد تبینت رؤیة الھلال فی ھذہ المحلکة لیلة الاثنین الماضی)) آگے تحریر ہے ((ان الصیام فی مصر و فلسطین کان ابتداء من یوم الاثنین)) یعنی مملکت حجاز و نجد میں اتوار کے دن چاند نظر آیا۔ اور بالاتفاق پی رکے دن کا پہلا روزہ ہوا۔ اس طرح فلسطین اور مصر میں بھی پہلا روزہ ہوا۔ دہلی اور پنجاب والوں کا پہلا روزہ ہوا ہے۔ بدھ کا۔ اہل بمبئی وغیرہ کا پہلا روزہ ہوا ہے منگل کا۔ تو چاہیے کہ یہ ایک روزہ قضا کریں۔ اور اہل پنجاب د و روزے قضا کریں۔ ولا حول ولا قوة الا باللہ
اب دہلی وغیرہ کے علماء بتلائیں کہ اس صورت میں وہ دو روزوں کی قضا کا کیوں نہ حکم دیں، یا درکھو اگر مطلع کے اختلاف کو نظر انداز کر دیا گیا۔ تو کبھی اٹھائیس اور کبھی تیس اکتیس روزے ہوں گے۔ جو نہ صرف شریعت کے بلکہ عقل کے بھی خلاف ہوں گے۔ مطلع کے اختلاف کو مدنظر نہ رکھنے والے بتلائیں تو سہی کہ کیا بمبئی اور کلکتہ اور کابل میں سورج کا غروب اور زوال دہلی والون کے لیے مغرب اور ظہر کی نماز پڑھ لینے کے لیے معتبر مانا جائے گا۔ کیا وہاں کے زوال پر ہم یہاںظہر پڑھ سکتے ہیں؟ اگر ہاں کہو تو سورج دیکھتے ہوئے، اور غروب میں آدھ گھنٹہ باقی رہتے ہوئے تمہیں یہاں نماز مغرب پڑھنی پڑے گی، اور اگر انکار کرو تو فرق مطلع معتبر مانا گیا۔ پھر ہمیں موجودہ صورت میں ایک روزے کی قضاء کا حکم کیوں دیا جاتا ہے، وہی صحیح ہے جو عبد اللہ بن عباس حضرت قاسم بن محمد حضرت سالم بن عبد اللہ حضرت عکرمہ حضرت اسحق بن راہویہ وغیرہ کا مذہب ہے۔ ((لکل اھل بلدة رؤیتھم)) ہر شہر والوں کے لیے وہیں کی رؤیت کا اعتبار ہے، ہاں آس پاس کا رقبہ اسی میں داخل ہے، بلکہ امام ترمذی تو اہل علم کا یہی مذہب نقل کرتے ہیں، اور کوئی بیان ہی نہیں فرماتے۔ امام ابن عبد البر تو فرماتے ہیں۔ ((اجمعوا علی انه لا تراعیٰ الرویة فیما بعد من البلاد کخراسان والاندلس))
یعنی اس بات پر اجماع ہے کہ دور دراز کے شہروں میں چاند دیکھا جانا یہاں کے لیے معتبر نہیں ہے، جیسے خراسان اور اندلس وغیرہ محدثین رحمہم اللہ نے بھی تبویب کی ہے، ((لکل اھل بلد رؤیتھم)) ’’ہر شہر والوں کے لی وہیں کی رؤیت معتبر ہے۔‘‘امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ((والصحیح عند اصحابنا ان الرؤٰته لا تعم الناس)) ’’یعنی ایک جگہ چاند نظر آ جانا سب کے لیے معتبر نہیں ہے۔‘‘ ((بل تخص لمن قرب علی مسافة لا تقتصر فیھا الصلٰوة)) بلکہ صرف وہیں تک اس کا اعتبار ہو گا۔ جہاں تک جانے سے نماز کو قصر کرنا نہیں ہے۔ الغرض اس مسئلہ میں صحیح فیصلہ صحابہ اور حدیث کا یہ ہے کہ مطلع کا اختلاف معتبر ہے ہر جگہ کے لیے وہیں کے چاند دیکھنے کا اعتبار ہے، اس کا خلاف دلیل کا خلاف ہے، پس جہاں چاند نہیں ہوا، ان پر روزے کی قضا محض اس وجہ سے کہ کسی دور دراز جگہ چاند ہو گیا۔ بالکل غلط اور خلاف حدیث ہے۔ واللہ اعلم۔
(محدث دہلی جلد ۶ شمارہ ۷۔ دسمبر ۱۹۳۸ء) (مولانا محمد صاحب ایڈیٹر اخبار محمدی دہلی) (باڑہ ہند ورائو)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب