سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(158) اب وہ افطار کرے یا صائم رہے۔ اگر افطار کرے تو کیسا ہے؟

  • 4161
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 994

سوال

(158) اب وہ افطار کرے یا صائم رہے۔ اگر افطار کرے تو کیسا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص کو رمضان میں اتفاق سفر کا ہوا۔ اور وہ صائم تھا۔ اب وہ افطار کرے یا صائم رہے۔ اگر افطار کرے تو کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسی حالت میں روزہ افطار کرنا اولیٰ و افضل ہے۔ صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ((ان رسول اللّٰہ ﷺ خرج الی مکة عام الفتح فصام حتی بلغ کراع الغمیم وصام الناس معه فقیل له الناس قد شق علیھم الصیام وان الناس ینظرون فیما فعلت فدعاً بقدیح من صاع بعد العصر فشرب والناس ینظرون الیه فاطر بعضہم فبلغه ان ناساً صاموا فقال اولئك العصاة)) ’’یعنی فتح مکہ کے سال رسول اللہ ﷺ مکہ کی طرف تشریف لے گئے، اور آپ نے روزہ رکھا، اور لوگوں نے بھی رکھا۔ جب کراع غمیم پر (ایک وادی کا نام) پہنچے تو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ لوگوں پر روزہ بہت گراں گذر رہا ہے، اور وہ سب آپ کی طرف دیکھتے ہیں۔ اور آپ کے فعل کے منتظر ہیں۔ یہ سن کر آپ نے بعد عصر کے پانی منگایا، اور پھر نوش فرمایا۔ لوگ آپ کی طرف دیکھتے رہے، بعض نے افطار کیا، اور بعض نے نہیں کیا تھا۔ بعد میں آپ کو خبر پہونچی کہ لوگوں نے روزہ رکھا تو آپ نے فرمایا یہ لوگ خدا کے نافرمان ہیں۔‘‘ نیل الاوطار میں تحت اس کے مرقوم ہے۔ ((فیه دلیل علی انه یجوز للمسافر ان یفطر ان نویٰ الصیام من اللیل وھو قول الجمہور)) یعنی اس حدیث سے یہ بات پائی گئی کہ مسافر کو روزہ رکھنے کے بعد افطار کرنا جائز ہے، ایسے ہی بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سفر حنین کا واقعہ مذکور ہے، اس کے معاوضہ میں صرف ایک روزہ رکھنا چاہیے۔ کفارہ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ کفارہ گناہ کی وجہ سے لازم آتا ہے، اور یہ امر یعنی بعد نیت روزہ کے سفر میں افطار کرنا فعل مسنون ہے، رسول اللہ ﷺ نے کیا، اور صحابہ نے آپ کو دیکھ کر کیا۔ واللہ اعلم۔ (فتاویٰ ارشاد السائلین الی لمسائل الثلاثین) (مولانا محمد عبد الجبار عمر پوری)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 06 ص 429-433

محدث فتویٰ

تبصرے